مانجھی کچھ دنوں تک تو حکومت کی کشتی کو انہی راستوں پر چلاتے رہے جو نتیش نے دکھائے تھے اس کے بعد انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر نئی منزلیں تلاش کی جائیں؟ اور انہوں نے بغیر کسی سے مشورہ کے بچہ سقّہ شاہی حکومت شروع کردی۔ نئے نئے اعلانات، ناقابل عمل فیصلے، اپنی مرضی کے تبادلے اور تقرری۔ حالت یہ ہوگئی کہ نتیش کمار چیخ پڑے اور انہوں نے سوچا کہ مانجھی کے ہاتھ میں پتوار رہی تو یہ کشتی کو کسی پہاڑ سے ٹکراکر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔ تب نتیش کمار نے ان سے آزادی سے پہلے کے تعلقہ دار کے انداز میں کہا کہ ’’منشی جی اب اُترو‘‘ اور منشی جی نے اُترنے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد جو ہوا وہ اتنی پرانی بات نہیں ہے جو اخبار پڑھنے والوں کو یاد نہ ہو، لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پورا ملک جو سیاست میں کنبہ پروری کے خلاف متحد تھا اور ہر کسی کی زبان پر تھا کہ نہرو کی اولاد یا اولاد کی اولاد کانگریس پر قابض ہے۔ لالو کی بیگم اور بیٹے ان کی پارٹی کے وارث ہیں ملائم سنگھ کے بھائی بیٹے اور بہو ان کی پارٹی کی طاقت ہیں کروناندھی یا شیخ عبداللہ یا صلاح الدین اویسی ان کی پارٹی ان کے بیٹوں کے ہاتھ میں ہے اور این ٹی راماراؤ کے داماد اُن کی پارٹی پر قابض ہیں۔ نتیش کمار نے یہ بہت اہم قدم اُٹھایا ہے کہ عارضی طور پر کچھ دنوں کے لئے اپنی جگہ ایک مہادلت مانجھی کو وزیر اعلیٰ بناکر ہر کنبہ نواز لیڈر کو دکھا دیا ہے کہ حکومت کے لئے دو ساتھیوں پر بھی بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اور کئی مہینے تک پورا ملک نتیش کے فیصلہ کو سراہتا رہا۔ پھر وہ جو سب نے دیکھا کہ ایک مہادلت نے پورے ملک کو جتا دیا کہ اس ملک میں سیاست کرنا ہے تو اپنی اولاد کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہ کرنا اور مہادلت یا دلت کو کبھی بھول کر بھی اقتدار کی چابی نہ دینا۔
شاید ایک مہینہ تک مانجھی نے نتیش کمار کو خون تھکوایا۔ اتفاق سے بہار کے گورنر بھی وہ تھے جو بی جے پی کے لئے سب کچھ کرنے پر آمادہ رہتے ہیں اور اس سے بہت بڑی طاقت وزیر اعظم کی تھی جن سے مانجھی ہر ہفتہ مل کر داؤ پیچ سیکھ رہے تھے اور چھوٹے مودی بہار میں ان کی کمر پر دن رات گڑتیل مل رہے تھے۔ 63 برس کی جمہوریت میں شاید جو بہار میں ہوا وہ اور کہیں ہوتا تو کیا، شاید سوچا بھی نہ گیا ہو وہ ننگا ناچ ہوا۔ گورنر بہادر نے حکم دیا کہ نتیش اور مانجھی ہاؤس میں اپنی اکثریت ثابت کریں اور جس کی اکثریت ہوگی وہ مستقل وزیر اعلیٰ ہوگا۔ وزیر اعطم کی پشت پناہی گورنر کی سرپرستی اور بہار کی پوری بی جے پی پارٹی کی کھلی حمایت پاکر مانجھی نے زمین پر نہیں کرسی پر کھڑے ہوکر ممبران اسمبلی سے بہ آواز بلند کہا کہ آپ سب لوگ ہمارے ساتھ آؤ ہم سب کو وزیر بنائیں گے۔ ہمارے پاس بہت کرسیاں خالی ہیں اور ہر ایم ایل اے یہ دیکھ رہا تھا کہ اگر وہ مانجھی کے ساتھ چلا گیا تو گورنر کا بھی چہیتا ہوجائے گا اور وزیر اعظم کا بھی دلارا۔ اس لئے کہ وزیر اعظم اسے نائب وزیر اعظم بنا سکتے ہیں جو نتیش کمار کو ہرادے۔ لیکن شاید یہ جمہوریت کی طاقت تھی یا نتیش کی محبوبیت کہ ان کے ساتھیوں میں سے ایک کو بھی کوئی توڑنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔
نتیش کمار پھر اپنی کرسی پر آگئے۔ مانجھی نے اپنی اوقات دکھادی اور ایک مہادلت کی محبت میں نہیں صرف نتیش کی اندھی دشمنی میں سُشیل مودی سے نریندر مودی تک سب نے دکھا دیا کہ صرف ایک آدمی سے دشمنی میں وہ جمہوریت کو بھی قتل کرسکتے ہیں اور ایک صوبہ کو بھی برباد ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ اسی مہادلت مانجھی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جو ریلی بلائی تھی اس میں نتیش کمار کی سخت مخالفت اور ہر ضلع سے بسوں کے آنے پر پابندی لگانے کے باوجود ڈھائی لاکھ آدمی آئے تھے۔ گویا نتیش مخالفت نہ کرتے تو شاید دس لاکھ آدمی انہیں سننے اور ان کے چمکتے ہوئے چہرے کے درشن کرنے آجاتے۔
اب تک ہمیں ٹی وی کے ایڈیٹروں سے شکایت تھی کہ تین نہ تیرہ مانجھی کو وہ بہار کے ایک دلت لیڈر کی طرح دکھاکر اس کا دماغ خراب کئے دے رہے ہیں۔ اب سہارا کے ایڈیٹر فیصل صاحب نے اس سے انٹرویو لے لیا۔ ہم ان باتوں کو صحافت کی چگّی بازی سے زیادہ اہمیت نہیں دے سکتے۔ مانجھی جب تک نتیش کمار کی پگڑی اُچھالتے رہے پوری بی جے پی انہیں اپنے کاندھوں پر لئے ہوئے تھی۔ اب سب کو معلوم ہے کہ الیکشن میں وہ اسی سے سمجھوتہ کریں گے جنہوں نے برے وقت میں اس کا ساتھ دیا ہے۔ لیکن یہ شاید بی جے پی کی ہی سازش ہے کہ وہ مانجھی سے کہلا رہے ہیں کہ میں بی جے پی سے نہیں اسدالدین اویسی سے سمجھوتہ کروں گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی مانجھی نے اویسی صاحب کو دیکھا بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ ہر جگہ الیکشن میں کودنے کے اشارے دے رہے ہیں۔ مانجھی کو اویسی سے سمجھوتہ کے لئے بھی شاید بی جے پی نے ہی آمادہ کیا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان ووٹ جتنے ہوسکیں نتیش کمار کے اویسی کاٹ لیں اور مہادلت اور دلت مانجھی اور رام ولاس پاسوان کاٹ لیں اور اونچی ذات کے بی جے پی کو مل جائیں پھر یہ سب مل کر حکومت بنالیں۔
اسدالدین اویسی صاحب سے ہمیں یہ اُمید تو نہیں ہے کہ وہ ایک وزارت لینے کے لئے اور دس بارہ ایم ایل اے بنوانے کے لئے مانجھی کے کاندھے پر چڑھ کر بی جے پی کے ساتھ حکومت بنوا لیں گے۔ لیکن سیاست میں کس وقت کیا ہوجائے اور کون کیا کربیٹھے؟ جیسے رام ولاس پاسوان جب وزارت کی خاطر مودی سے مل سکتے ہیں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے؟ لیکن مانجھی نے بچہ سقّہ بن کر جو سقّہ کی آبرو ریزی کی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے ساتھ وہی کیا جائے جو بہار کے ممبران اسمبلی نے کیا تھا۔ اُمید ہے کہ بہار کے دلت اور مسلمان وہی کریں گے جس سے جمہوریت اور سیکولرازم کی آبرو ریزی نہ ہو۔ ہر غزل میں ایک شعر حاصل غزل ہوتا ہے۔ یہی وہ شعر ہوتا ہے جس کے لئے پوری غزل کہی جاتی ہے۔ اس انٹرویو کا حاصل انٹرویو جملہ یہ ہے کہ شری مودی نے مانجھی سے کہا کہ آپ کے چہرے پر ہر وقت رہنے والی مسکان کا انداز میں آپ سے سیکھ رہا ہوں۔ مانجھی اگر ناخدا ہوتے تو کہہ دیتے کہ حضور یہ مسکان نہیں ہے میری صورت ہی ایسی ہے۔
جواب دیں