کیا مسلمان کیلئے ایسا ہوسکتاہے؟

پولیس اترپردیش کی ہو دہلی کی ہو یا مہاراشٹر کی سب کی سب آوارہ سانڈ وں جیسی اس لئے ہے کہ ہمارے ملک میں ساٹھ سال سے جو غلام ذہنیت کی حکومتیں برسراقتدار رہیں وہ اس پولیس مینول کو بدلنے کی ہمت نہیں کرسکیں جو انگریزوں نے 1860میں ہم ہندوستانیوں کو پولیس کے ذریعہ کنٹرول میں رکھنے کے لئے بنایاتھا اور اسی کانتیجہ یہ تھا کہ جو دہرہ دون میں دیکھا اور اس سے زیادہ دردناک 1978میں میرٹھ میں دیکھا جہاں ہاشم پورہ کے چالیس مسلمان جوانوں کو تحقیقات کے نام پرگرفتار کر کے لائے او رندی کے کنارے ٹرک سے اتارکر پی اے سی کے پاگل کتوں نے چاند ماری کر کے سب کو موت کی نیند سلادیا ۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ رنویر ایک ہندونوجوان تھا اکیلا تھا اس لئے اس کا مقدمہ پانچ سال میں کنارے لگادیا اور 17پولیس والوں کو عمر قید کی سزادے دی ہاشم پورہ کے چالیس جوان مسلمان تھے ان کا مقدمہ 38برس سے محترم عدالتوں میں بھکاریوں کی طرح انصاف کی بھیک مانگتا پھررہا ہے لیکن کوئی ملک صاحب جیسا جج نہیں ہے کہ ان سب خاکی وردی والوں کو پھندے میں لٹکاکر انصاف کردے۔ 
مہاراشٹر کے مشہور شہر پُنے جسے برسہا برس پونا لکھا اور کہا جاتارہا وہاں کی ایک ہندوراشٹرسینا کے بہادروں نے ایک رنویر جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ محسن شیخ کو جو مسجد سے نماز پڑھ کر آرہا تھا صرف اس لئے ڈنڈوں ،ہاکیوں اورراڈو ں سے اس وقت تک مارا جب تک وہ اپنے پروردگار کے پاس نہیں پہنچ گیا ۔ کہتے ہیں کہ اس کا اس کے علاوہ کوئی قصورنہیں تھا کہ اس کے چہرے پر مودی جیسی نہیں شرعی داڑھی تھی اور سرپر ایسی ٹوپی تھی جیسی ٹوپی کو چھوتے ہوئے بھی ہمارے وزیراعظم ڈر گئے تھے ۔ کہتے ہیں کہ پنے میں آج تک کبھی مسلمانوں کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہواتھا لیکن اس واقعہ کے بعد محسن جیسے نہ جانے کتنے فرزندان اسلام نے اپنی داڑھیاں قربان کردیں اور وہ جو نوجوانوں میں پاکستانی پہناوا لمبی قمیص اور شلوار عام ہوگیا تھا اسے چھوڑکر پینٹ اور شرٹ پہننا شروع کردی۔
قارئین کرام کو یادہوگا کہ 18؍مئی کے اودھ نامہ میں ہم نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا’چونکتے کیوں ہو ابھی تم نے سنا ہی کیاہے‘‘ہم نے اسی مضمون میں لکھا تھا کہ ۔ہمارے مفتیان کرام اورعلماء عظام کو صورت حال پر پوری طرح غورکر کے یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ کوئی ملک کن حالات میں دارالحرب ہوجاتاہے۔ ؟ہرمسلمان کے سامنے اس وقت محسن شیخ کی شہادت ہے اور اس شہادت کے اس جیسے نوجوانوں پر پڑنے والے اثرات ہیں ۔ اسی کے ساتھ اگرکرناٹک کی رام سینا کی وہ تحریک بھی جوڑلی جائے جواس نے منگلور میں شروع کررکھی ہے کہ صبح 6بجے سے پہلے کوئی اذان نہیں دی جائے جس سے ہماری نیند خراب ہوتی ہے۔ اورسپریم کورٹ کا بھی حکم ہے کہ رات کے دس بجے سے صبح6بجے تک لاؤڈاسپیکر کااستعمال نہ کیا جائے ہم یہ توتسلیم کرتے ہیں کہ لاؤڈاسپیکر اذان کا جزو نہیں ہے نہ ضروری ہے بلکہ محتاط علماء کے نزدیک اس کے استعمال سے ایک سنت ترک ہوتی ہے۔ ابھی نئی حکومت کی حلف برداری کو 15دن ہوئے ہیں اوررسمی طور پر اس کا کام جو صدر کے خطبہ سے شروع ہوتا ہے وہ کل سے شروع ہواہے لیکن 16مئی کی شام سے یہ ماحول بن گیا تھا کہ 2014کے الیکشن میں ہندوپوری طرح جیتا ہے اور مسلمان پوری طرح ہاراہے۔ رہے ملک کے وہ ہندوجنہیں مسلمانوں نے ووٹ دئے وہ مسلمانوں کے بس اسی وقت تک دوست رہتے ہیں جب تک انہیں ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ ایسے ہی ہوجاتے ہیں جیسے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوہان یا این سی پی کے ممتاز لیڈر شردپوار ۔کہ کسی کے متعلق نہیں سنا کہ وہ محسن شیخ کے گھر گئے ہوں اور پنے کے مسلمانوں کو یقین دلا یا ہوکہ محسن کے قاتلوں کے ساتھ ایسا ہی سکول کیا جائے گاجیسا دہرہ دون میں پولیس کے ہاتھوں مارے گئے رنبیر کے قاتل پولیس والوں کے ساتھ ہوا ہے۔ اور کسی مسلمان کو نہ لباس بدلنے کی ضرورت ہے نہ شکل سے اسلامی شناخت مٹانے کی ۔ 
ہندوستان میں صرف ایک شیوسینا ہواکرتی تھی ۔ برسوں پہلے اس نے ممبئی سے مسلمانوں کو اجاڑنے کی مہم چھیڑی اس وقت بہت سنسنی خیز خبریں آئیں اور مسلمانوں میں ہرطرف غم کی لہردوڑگئی ۔ لکھنؤ میں ایک نوجوان وکیل اخلاق احمد خاں درانی ہواکرتے تھے انہوں نے جوش میں آکر کسی پریس سے فل سائز کا ایک پوسٹر چھپواکر جگہ جگہ چسپاں کرادیا جس کی سرخی تھی ’’مسلم سینا‘‘پوسٹرمیں ممبئی کے حالات بیان کئے تھے اور یہ کہ مسلمانوں کو مسلم سینا بناناچاہئے تاکہ اگر یہاں ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہو وہ بھی مدافعت کرسکیں ۔ اس کے دوسرے ہی دن پائنیراخبار میں 3کالم چوڑا اور 9انچ لمبا اس پوسٹرکا فوٹوچھاپاگیا اور جتنازہر اگلنا تھا وہ اگلا نتیجہ یہ ہو اکہ قیصرباغ کی پوری کوتوالی اور امین آباد کا پوراتھانہ درانی کی گرفتاری کے لئے انہیں کے چپہ چپہ پر پھیل گیا اور دروانی جو کہیں اورتھا وہیں سے اسٹیشن گیا اور اپنا سب کچھ چھوڑکر ممبئی بھاگ گیا ۔ آج ملک میں نہ جانے کتنی سینا ہیں اور دہشت گردی پھیلارہی ہیں لیکن کچھ نہیں اس لئے کہ وہ مسلمانوں کی سینا نہیں ہیں۔

«
»

نیپالی زندہ بھگوان کماری جس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے

کوئی جہاں میں اُردو کو مٹا نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے