اس سے پہلے وہ آگرہ کے تاج محل پر بھی بابری مسجد کی طرح اپنا دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہاں پہلے مندر تھا جسے توڑ کر تاج محل بنایا گیا۔ اس سے بھی پہلے آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے اعلان کر دیا تھا کہ آٹھ سو سال بعد اس ملک میں ہندوؤں کی حکومت قائم ہوئی ہے اس کا سیدھا اور صاف مطلب تھا جسے کوئی سمجھ نہ سکا اور اب جبکہ آگرہ میں ۰۰۳ ؍ مسلمانوں کو ہندو بنا دیا گیا تو سب کے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ کیا ہوگیا۔لیکن اگر ایک ایمان والا ہے تو وہ اس خبر سے ہرگز دلبرداشتہ نہیں ہوگا کیوں کہ ایک ایمان والا کبھی بھی جان بوجھ کر مرتد نہیں ہو سکتا ۔آگرہ کے جو مسلمان مرتد ہوئے ہیں وہ دراصل مسلمان تھے ہی نہیں ۔کیونکہ جسکے سینے میں اللہ اور اسکے رسولﷺ کی عظمت و محبت ہوگی جس نے ایک مرتبہ ایمان کی چاشنی چکھ لیا وہ اپنے ایمان کے دائرے سے کبھی باہر نہیں آسکتا۔اور کبھی ہندو بن نہیں سکتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ ہم یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے الگ نہیں ہو سکتے کہ وہاں کے مسلمانوں کو ڈرایا ،دھمکایا گیا ہوگا ۔لالچ دی گئی ہوگی اسلئے وہ ہندو بن گئے یہ جواز بھی حلق سے نیچے نہیں اترتا کیونکہ ایمان اتنا سستا نہیں ہے کہ جسکا سودا کیا جاسکے یا ڈرا دھمکا کر ایمان چھین لیا جائے۔اب رہی علماء کرام اور عام مسلمانوں کی ذمہ داری ۔تو ہم اس معاملے میں یہی کہیں گے کہ علماء اور ایمان والے مسلمانوں نے اپنی ذمہ داری ایماندارانہ طریقے سے نہیں نبھائی جسکے نتیجے میں مذکورہ بالا افسوس ناک واقعہ منظر عام آیا۔ آگرہ کے جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا ہے وہاں صحیح انداز میں اسلام پہنچا ہی نہیں۔اسلئے شرپسندوں نے آسانی سے گھس پیٹھ کر لیا۔اگر وہ صحیح معنوں میں مسلمان ہوتے تو ہندو کبھی نہیں بنتے۔اسلئے ذمہ داری علماء کرام کی اور ان لوگوں کی ہے جو دن رات اسلام کی تبلیغ میں مصروف رہتے ہیں انکی جماعت وہاں تک کیوں نہیں پہنچی؟خیر آگرہ توایک جھلک ہے آر ایس ایس کا سب سے بڑا نشانہ مہاراشٹر ہے کیونکہ مہاراشٹر میں آج بھی دیہی علاقوں میں آباد مسلمانوں میں زبردست جاہلیت ہے وہ آج بھی ہندو رسم و رواج کو اپنائے ہوئے ہیں وہ غریب بھی ہیں اس کا فائدہ آر ایس ایس آسانی سے اٹھالے گی اسلئے مسلمانوں کو اسکی فکر کرنے کی ضرورت ہے ان علاقوں میں اسلام کی صحیح تعلیم پہنچانے کی ضرورت ہے مگر ہمیں یہ بھی خدشہ ہے کہ ان تک کون سا اسلام پہنچے گا؟ کہیں بابا صاحب امبیڈکر کی طرح نہ ہو جائے۔اور برائے نام مسلمان کنفیوز ہو کر اپنا موقف ہی تبدیل کر لے۔اسلئے مسلمانوں کی مذہبی تنظیموں سے مودبانہ التماس ہے کہ اس معاملے میں متحد ہوکر کچھ کریں۔
بیل کا گوشت روس بھیجا جا رہا ہے اور ملک میں اسکے ذبیحہ پر پابندی؟
فاروق انصاری
جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت بنی ہے تب سے آر ایس ایس ،وشو ہندو پریشد اور دیگر کٹر ہندو تنظیمیں یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ گؤونش کا ذبیحہ بند کیا جائے ملک کے کئی ایسے علاقے جہاں سلاٹر ہاؤس نہیں ہے ان علاقوں میں مسلمان بیل اور پاڑے کا ذبیحہ کرتا تھا مگر یہ حکومت آنے کے بعد وہ بھی بند ہو گیا ہے مہاراشٹر میں تو بیل کے ذبیحہ پر بھی پابندی ہے اور یہ محض مسلم دشمنی میں کیا گیا ہے جبکہ مہاراشٹر میں ایک سروے کے مطابق بڑے کا گوشت سب سے زیادہ غیر مسلم کھاتے ہیں مگر قانون بنا ہے تو اسکا اطلاق لازمی ہے اسی لئے ہر سال مہاراشٹر میں عید الا ضحیٰ کے موقع پر مسلمانوں کو بہت زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے خیر ایک طرف تو یہ پابندی ہے اور دوسری طرف مرکزی سرکار نے روس میں بیل کا گوشت بر آمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسکے لئے مرکزی وزیر برائے تجارت و صنعت شری سنتوش سارنگی نے کہا ہے کہ اسی ماہ روس کے صدر ہندوستان کا دورہ کر رہے ہیں اس موقع پر یہ معاہدہ قطعی شکل اختیار کر لے گا۔ اس سلسلے میں کہا جا رہا ہے کہ گذشتہ دنوں ہی روس کی زراعت کے نگراں ادارے نے ہندوستان کی زرعی اشیاء کی بر آمدی ترقی کونسل کے ساتھ مل کر ہندوستان سے بیل کے گوشت کی فراہمی کے اتفاق نامے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔اسطرح ملک سے بڑے کے گوشت کو بر آمد کرنے کا سرکاری منصوبہ بنا لیا گیا ہے یہ مرکز کی بی جے پی سرکار کا فیصلہ ہے ظاہر ہے کہ اس سے آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد بھی اتفاق کی ہوگی ۔اب رہا ملک میں بڑے جانوروں کے ذبیحہ کا معاملہ۔۔! یہاں اسکی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟کیا یہ بھرم ہے کہ اسے صرف مسلمان کھاتے ہیں اگر ایسا ہے تو اسے دل سے نکال دیں مسلمانوں سے کہیں زیادہ بڑے کا گوشت ہندو کھاتے ہیں اسکا اندازہ گوشت کی دکانوں اور ہوٹلوں میں کیا جا سکتا ہے جہاں بڑی تعداد میں ہندو لائن لگائے رہتے ہیں۔مگر مسلمان گائے کاٹتا ہے یہ رٹ لگا کر مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ گائے کا ذبیحہ کہیں نہیں ہوتا۔خیر اگر بی جے پی سرکار نے روس سے مذکورہ بالا معاہدہ کیا ہے تو اخلاقی طور پر انہیں ملک میں بھی بیل کے ذبیحہ پر کہیں بھی اعتراض نہیں کرنا چاہیئے۔بلکہ جہاں جہاں اسکے ذبیحہ کے لئے لائسنس مانگا جائے اور سلاٹر ہاؤس بنانے کی بات کی جائے تو سرکار کو بلا چوں چراں اسکی اجازت دے دینا چاہیئے اس سے بھی تو ملکی صنعت کو فروغ ملے گا۔اسے ہندو مسلم نظریے سے نہ دیکھیں بلکہ جس طرح روس سے تجارتی مقصد کے تحت معاہدہ کیا گیا ہے اسی مقصد کو ملحوظ رکھیں اسی میں دیش کی ترقی ہے۔مگر افسوس کہ تنگ نظری اس قدر عروج پر ہے کہ بقرعید کے موقع پر بیل تو دور کی بات بعض علاقوں میں بکرا تک ذبحہ نہیں کرنے دیا جاتا ۔ جبکہ اسکے تعلق سے سپریم کورٹ کا حکمنامہ بھی لے آیا جاتا ہے تب بھی مقامی انتظامیہ لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ بنا کر بکرا ذبح کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔اس سے بڑی جانب داری اور نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اکثریت کو خوش کرنے کے لئے اقلیت کے مذہبی جذبات کا بھی گلا گھونٹ دیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم مودی جی کو اس معاملے میں خصوصی توجہ دینا چاہیئے تبھی تو اچھے دن آئنگے۔
جواب دیں