اسے ملک کی بدقسمتی کہا جائے یا قوم کی ذہنی پسماندگی کہ اس ملک کی فرقہ وارانہ فضا مسموم ہوئی ہے اور ایک شخص کے ساتھ بھید بھاؤ کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مسلمان نہیں صرف ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں لہٰذا انھیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب سے نریندر مودی بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کے امیدوار بنے ہیں تب سے ماحول اور بھی خراب ہوا ہے اور ایک طبقہ فکری اعتبار سے انتہا پسندی کی طرف راغب ہوا ہے۔ ویسے انھیں سامنے لایا بھی گیا تھا اسی مقصد سے کہ ملک کی فرقہ وارانہ فضا میں زہر گھول کر ووٹوں کی فصل کاٹی جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہب اس قدر حاوی نہیں ہوپا یاجس قدر کہ ہمارے ووٹروں کے ذہن پر ذات پات حاوی رہی۔حالانکہ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مودی نے بڑے پیمانے پر فرقہ پرستی کی سیاست کی ہے۔ البتہ میڈیا نے عوام کے ذہنوں میں مودی کو ایک عظیم لیڈر کے طور پر بٹھانے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑی۔اب خود مودی کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ جو ان کے نام پر منافرت بڑھی ہے اسے کیسے قابو میں رکھیں۔آج کے بدلے ہوئے سیاسی حالات مین رام مندر کا موضوع نہیں اٹھایا جاسکتا تھا اور اسے بہانہ بناکرفسادات کرانا بھی آسان نہیں مگر مودی کے نام پر فضا کو خراب کرنا زیادہ مشکل بھی نہیں لہٰذا ان کا نام آگے بڑھا دیا گیا۔ مودی کا نام سامنے کرنے کا فیصلہ خود آر ایس ایس نے لیا تھا اور ملک نے دیکھا کہ جب مودی سامنے آئے تو پوری بی جے پی اور اس کی قیادت کہیں غائب ہوگئی بس مودی ہی مودی چھائے رہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر بھی دہشت رہی اور وہ بھی سوچتے رہے کہ مودی کو کیسے روکا جائے؟ سیاسی پارٹیان بھی مسلمانوں کے ووٹ لینے کے لئے مسلمانوں میں خوف وہراس پیدا کرنے میں مصروف رہین اور انھیں یقین دہانی کراتی رہیں کہ اگر مودی اقتدار میں آگئے تو تمہارا جینا مشکل ہوجائے گا لہٰذا ہمیں ووٹ دو اور متحد ہوکر ووٹ دو۔
کیونکہ وہ مسلمان ہیں
الیکشن رزلٹ آنے کے بعد مسلمانوں کو تحفے میں آسام کے مسلم کش فسادات ملے۔یہاں بوڈو لینڈ کے حامیوں نے درجنوں بنگلہ بولنے مسلمانوں کا قتل کر ڈالا۔یہ کو ئی نیا واقعہ نہیں ہے پہلے بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور بڑی تعداد میں یہاں بنگالی مسلمانوں کا قتل ہوتا رہا ہے۔ ان کے مکانات جلائے جاتے رہے ہیں اور انھیں گھر بار چھوڑ کر پناہ گزینوں کی زندگی جینے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سب کانگریس کی سیکولر حکومت میں ہوا اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ جن ’’سیکولر‘‘ لیڈروں کو گجرات فسادات ملک کے ماتھے پر بدنما داغ کی طرح نظر آتے تھے انھیں آسام میں مسلمانوں کی نسل کشی ’’سیکولر تمغہ‘‘ کی طرح دکھائی پڑی۔کانگریس نے کہا کہ یہ سب مودی کی وجہ سے ہوا۔ مودی نے آسام اور بنگال کے دوروں پر جو تقریریں کیں ان مین بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ جو لوگ جنم اشتمی مناتے ہیں وہی یہاں رہ پائیں گے، باقی کو بنگلہ دیش کھدیڑ دیا جائے گا۔اسی کا نتیجہ تھا کہ بوڈو لینڈ کے حامیوں نے بنگلہ بولنے والے آسام کے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر دنیا سے ہی کھدیڑنا شروع کردیا ۔ اسے مودی اثر کہا جائے یا کانگریس سرکار کی ناکامی کہ درجنوں مسلمان مارے گئے اور ہزاروں بے گھر ہوئے اور اس کا الزام بودو لینڈ کی اس جماعت کو دیا گیا جو کانگریس کے ساتھ حکومت میں معاونت کر رہی ہے۔
مائی نیم از خان
حال ہی میں ایک انگریزی اخبار میں سمرہلارنکر کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس مین انھوں نے اپنی کسی جاننے والی رادھا خان کا ذکر کیا ہے جو مسلمان نہیں ہیں مگر اپنے نام کے ساتھ ’’خان‘‘ کا ٹائیٹل ہونے کے سبب پریشان ہیں۔ انھیں بس اسی سبب سے کئی جگہوں ہر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بھید بھاؤ کی شکار ہوتی ہیں۔ یہ پریشانی صرف انھیں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان کے بچوں کے ساتھ بھی ہے۔ ان کی ایک بیٹی کو کہا گیا کہ وہ پاکستان چلی جائے۔ طاہر ہے کہ اسے مسلمان سمجھ کر ایسا کہا گیا۔ خان سر نیم کے سبب رادھا کو سوتیلے برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا جس سے گھبرا کر انھوں نے لوگوں کو اب اپنا نام صرف رادھا بتانا شروع کردیا ہے۔ فیس بک پر بھی وہ اب صرف رادھا ہیں۔ انھیں یہ ٹائیٹل اپنے دادا سے ملا تھا جو کہ رام پور سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان تھے مگر ان کی دادی کشمیری پنڈت تھیں۔وہ لوگ مذہب کے معاملے میں دادی کے زیر اثر رہے مگر سرنیم دادا کا مل گیا جو آج ان کے لئے ایک بوجھ بن گیا ہے۔ ویسے مغربی بنگال کے ہندووں میں بھی ایک برادری خان سرنیم کا استعمال کرتی ہے۔ سی پی آئی ایم کے ایک ممبر پارلیمنٹ سنیل خان ہوا کرتے تھے۔بہر حال یہ ان کا درد ہے جن کے نام مسلمانوں سے ملتے جلتے ہیں مگر وہ کس قدر بھید بھاؤ کا شکار ہوتے ہونگے جو نام ہی نہیں کام کے بھی مسلمان ہیں۔انھیں سرکاری ملازمت نہیں ملتی کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ انھیں شڈول کاسٹ اور شڈول ٹرائب ریزرویشن نہیں ملتا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کے بچوں کو اچھے اسکولوں مین داخلہ نہیں ملتا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ انھیں بینکوں سے قرض نہیں ملتا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ انھیں ہندو اکثریتی علاقوں میں مکان نہیں ملتے کیون کہ وہ مسلمان ہیں۔ انھیں پاش کالیونیوں میں کوئی مکان میں کرایہ دار نہیں رکھتا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔انھیں پرائیویٹ کمپنیوں میں اونچے عہدے نہیں ملتے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ انھین ہندو اکثریت کے بیچ سوتیلے برتاؤ کا شکار ہونا پڑتا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ وہ فسادات میں مارے جاتے ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کے قتل کے سبب کسی کو سزا نہیں ملتی کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کے نام پر سیاسی پارٹیاں سیاست کرتی ہیں اور ان کے حق مارتی ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہین۔جس ملک میں جانوروں کے تحفظ کے لئے بھی قانون موجود ہیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے کے سبب بہت سے لوگوں کو سزائیں ہوتی ہیں وہاں انسانوں کے قتل پر کوئی توجہ بھی نہیں دیتا کیونکہ اتفاق سے ان مرنے والوں کا مذہب اسلام ہوتا ہے۔
مسلمان ہونے کا مطلب؟
مسلمان اگر کسی طرح اونچے مقام تک رسائی حاصل کرلے اور دنیا میں اپنے لئے کوئی نمایاں پہچان بنا لے تو بھی اس کے لئے کئی مشکلات صرف اس لئے آتی ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہے اور اپنے ماضی سے کہیں نہ کہیں جڑا ہوا ہوتا ہے۔ شاہ رخ خان کو امریکہ کے ایر پورٹ پر صرف اس لئے روکا گیا کہ ان کے نا کے ساتھ خان لگا ہوا ہے۔ سہیل خاں کو صرف اس لئے امریکہ میں داخل ہونے سے قبل رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کے نام میں خاں لگا ہوا ہے۔ حالانکہ ان لوگون کا اسلام سے کتنا تعلق ہے اور اسلامی تعلیمات پر کس قدر عمل پیرا ہیں یہ جگ ظاہر ہے۔ جب حکومت ہند نے اس بارے میں امریکہ کے ذمہ دارون سے پوچھا تو کہا گیا کہ ان کے نام دہشت گردوں سے ملتے جلتے ہیں لہٰذا انھیں روک کر پوچھ تاچھ کی گئی۔ گویا مسلمان جیسا نام ہونا ہی مشتبہ دہشت گرد ہونے کے لئے کافی ہے۔اس تعلق سے مسلمانوں کے لئے قومی اور بین الاقوامی منظر نامہ ایک جیسا ہے تھوڑے سے فرق کے ساتھ۔
ترے وعدے پر جئے ہم؟
بی جے پی کے وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی کے گجرات میں مسلمان کس حالت میں ہیں اور گذشتہ چند برسوں میں انھوں نے کیا کیا منظر دیکھے ہیں ، یہ بحث اپنی جگہ پر مگر انھوں نے بہت سے خوشنما وعدے کئے ہیں مسلمانوں سے۔ انھوں نے اپنے انٹرویوز مین کہا ہے کہ اگر ان کی سرکار آگئی تو مسلمانوں کے ساتھ مساوی برتاؤ کیا جائے گا۔ ان کے کلچر اور زبان کی حفاظت کی جائے گی۔ انھیں جدید اور تکنیکی علوم سے بہرہ ور کیا جائے گا۔ اردو زبان کے فروغ کے لئے سرکار کام کرے گی اور انھیں آج کی دنیا کے کمپٹیشن میں لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بھارت کی کثیر تہذیبی میں یقین رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی طرح کا بھید بھاؤ نہیں کیا جائے گا۔ یہ تمام وعدے اپنی جگہ پر مگر مسلمان ان وعدوں پر بھروسہ کریں تو کیسے؟ وہ گذشتہ ۶۶ سال سے ایک ہی سراخ سے بار بار ڈسے جاتے رہے ہیں۔ ایسے خوشنما وعدے تو کانگریس بار بار کرتی ہے اور دوسری پارٹیاں بھی کرتی ہیں مگر تخیل اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے۔ اگر ان باتوں پر یقین کرلیا جائے توپھر ملک میں پیار ومحبت کی گنگا بہنے لگے گی۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا پھر سیاست کس بات پر کی جائیگی۔ یہاں سیاست تو ذات ، مذہب، رنگ و نسل اور علاقے کے فرق کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے۔ مودی اگر مسلمانوں کے تعق سے ایسے ہی مخلص تھے تو پارٹی کا ٹکٹ بانٹنے سے میں بھی انھیں مساوی حق دے دیا ہوتا۔ جو مسلمان ملک میں پندرہ فیصد ہیں انھیں آدھا فیصد بھی بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا پھر کیسے یقین کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ ختم کرے گی۔
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
جواب دیں