کیامصرکا فوجی ڈکٹیٹرالسیسی اسرائیل اور روس کا ایجنٹ ہے؟

جس طرح اسرائیلی وزیر اعظم نے صفائی پیش کی ہے کہ ان کے اس خلاصے میں ہی کہیں نہ کہیں یہ جواب بھی شامل ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اب ایک دوسرے کے دوست نہیں رہے ۔اقبال نے تقریباًایک صدی قبل ہی کہہ دیاتھا کہ 
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا ….کہا ہے مجھ سے یہ قبطیوں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
۲۰۱۱ میں صحرائے عرب کے نوجوانوں نے اقبال کی اس پیش گوئی کو بہر حال درست ثابت کردیا ہے کہ وہ اس کے اہل ہیں ۔اقبال کی اس بات میں بھی صداقت ہے کہ ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام۔شاید اسی منصوبے کے تحت ایک طرف امریکہ ترکی کے ساتھ مل کر دولت اسلامیہ کی طاقت کو مضبوط کررہا ہے تاکہ مستقبل کا سپر پاور چین جو کہ اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کے لئے روس ،ایران ،پاکستان اور اسرائیل کی مدد سے افغانستان میں مداخلت کے لئے بے چین ہے ۔اس نئے سپر پاور اوران کے اتحاد کو جدید طالبانی اور صحرائی ملاؤں کے ذریعے زیر کیا جاسکے ۔ایران اس بات کو سمجھ رہا ہے اسی لئے وہ مسلسل روس کی مدد سے عراق اور شام کے حکمرانوں کو فوجی مدددے رہا ہے۔۹؍فروری کو صدر حسن روحانی کے مشیر علی یونسی کے متکبرانہ بیان سے جو رعونت جھلک رہی ہے اس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایرانی حکمراں بھی عظیم تر اسرائیل کے اپنے خفیہ منصوبے کی طرح عظیم تر ایران کا خواب دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کہ پورا مشرق وسطیٰ ایران کا حصہ ہے ہم اسلامی انتہا پسندی ،تکفیری،الحاد ،نئے عثمانیوں (طیب ارودگان کی اسلام پسند حکومت )اور مغربی صہیونیوں سے بیک وقت مقابلہ کریں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران کے تاریخ میں مشرقی رومیوں کی باقیات عثمانی ترک ہیں جو عراق کے ساتھ ایران کے تعلقات پر کڑھتے ہیں جبکہ ایران ایک عظیم الشان سلطنت بن چکا ہے اور بغداداس کا دارالخلافہ ہے۔امریکہ نے اور خاص طور سے امریکی صدر بارک اوبامہ جنہیں کہ اس وقت دنیا کا ایک ذہین اور بیدار حکمراں سمجھا جاتا ہے۔اقتدار سنبھالتے ہی یہ انداازہ لگالیا تھا کہ ۹۔۱۱ اور بش کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے امریکہ جس معاشی بد حالی کا شکار ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے پرانے اتحادی اور دوست دھیرے دھیرے اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں یا خفیہ طریقے سے روس اور چین کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش میں ہیں۔
اکثر لوگوں کی نگاہ اس طرف کم ہی جاتی ہے کہ اس مشکل وقت کے دوران جہاں یہودی سرمایہ داروں نے اپنی صنعتوں اور مالیاتی اداروں کو بہت ہی خاموشی کے ساتھ روس اور چین میں منتقل کرنا شروع کردیا ،امریکہ کے ایک بہت ہی پرانے اور با اعتماد ساتھی سعودی عرب نے بھی چینی اور روسی کمپنیوں کے ساتھ تیل نکالنے سے لے بہت سی دیگر تعمیری شعبوں میں کام کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ہم اپنے مضمون میں لکھ چکے ہیں کہ سعودی عرب کے سابق مرحوم شاہ عبد اللہ نے ایک سب سے بڑی تاریخی غلطی وہی کی جو ہندوستان نے سوویت روس کے بکھر جانے کے بعد امریکہ سے دوستی بڑھاکر کیااور اب جبکہ چین کا خطرہ منڈلارہا ہے روس یقیناًخاموش رہے گا ۔ مگر امریکہ کا اپنا کردار کیا ہوگا ابھی تک واضح نہیں ہے ۔شاہ عبد اللہ کی دوسری غلطی پھر یہ ہوئی کہ انہوں نے مصر میں اخوانی حکومت کے خلاف اسرائیل کے پٹھو فوجی حکمراں السیسی کا ساتھ دیا اور کہا کہ فوج نے مصر کو کھائی میں گرنے سے بچالیا جبکہ اس فیصلے سے انہوں نے خود سعود حکومت کو کھائی میں ڈھکیل دیا ،اور عالم اسلام کے مسلمانوں کی رہی سہی اخلاقی حمایت بھی کو بھی کھو دینا پڑا ۔شاہ عبد اللہ کی بھی اپنی مجبوری تھی کیوں کہ جب کسی نادان سے ایک غلطی ہوتی ہے تو وہ اسے سدھارنے کے بجائے دوسری غلطی بھی کربیٹھتا ہے۔دراصل شاہ عبد اللہ اور اسرائیل دونوں کو احساس تھا کہ ۹۔۱۱کے بعد انہوں نے جو فیصلے کئے امریکہ نے اس کو سنجیدگی سے لیا ہے۔اور ۲۰۱۰کے بعد مشرق وسطیٰ میں جو عرب بہار کی شروعات ہوئی اس کے پیچھے امریکی انٹیلجنس اور اوبامہ انتظامیہ کا دماغ کام کررہا ہے تاکہ اس خطے کی دو طاقتور حکومت اسرائیل اور سعودی عرب کو سبق سکھا یا جاسکے اور اگر اس کا یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے تو روس اور چین اکیلے ایران کے ساتھ مل کر اس کے سپر پاور ہونے کو کبھی چیلنج نہیں کرسکتے ۔جبکہ اسی منصوبے کے تحت وہ افغانستان میں اعتدال پسند طالبانوں کی مدد کا منصوبہ بھی بنا چکا ہے اور جہاں تک سوال پاکستان کا ہے اس نے ابھی تک امریکہ کی اتنی نمک حلالی کرلی ہے کہ وہ چین کے ساتھ ہو کر بھی امریکہ کے خلاف نہیں جائے گا۔اوبامہ نے اسی حکمت عملی کے تحت سعودی عرب اور اسرائیل کے دوست حکمراں زین العابدین اورحسنی مبارک کو عرب انقلاب کے سیلاب میں بہہ جانے دیا ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں حکمراں بھی تو امریکہ کے نور نظر تھے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ صرف سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ اپنی وفا داری کی وجہ سے ہی امریکہ کے دوست تھے ،مگر جب یہ دونوں ممالک ہی امریکہ کے دوست نہیں رہے تو امریکہ کو بھی نئے دوستوں اور اتحادیوں کو تیار کرنے کا حق ہے۔اس پورے انقلاب اور منصوبے میں جس ملک کے حکمراں نے خاموشی کے ساتھ اوبامہ کا ساتھ دیا وہ ترکی کے نئے عثمانی یعنی طیب ارودگان کی اسلام پسند جماعت ہے جنہیں ایران اپنا تاریخی دشمن قرار دیتا ہے۔اسی لئے جب اسرائیل نے یہ دیکھا کہ امریکہ نے اخوانی حکومت کے تئیں نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ دھیرے دھیرے ترکی کی مدد سے ترکی کے نقش قدم پر مصر کو ایک اسلامی حکومت میں تبدیل کردینا چاہتا ہے تو اس نے نہ صرف سعودی حکومت کو ورغلایا بلکہ روس اور چین کو بھی اپنے اعتماد میں لیا کہ اگر اس نے مصر کے اس اخوانی انقلاب کو ناکام بنانے میں اس کی مدد نہیں کی تو ایران کے علاوہ اس کا کوئی اتحادی باقی نہیں رہے گا۔جبکہ ایران کی سرحد پر بھی اس نے اپنے ماضی کے دشمن طالبانوں سے رابطہ بنایا ہوا ہے تاکہ وہ مستقبل میں ان سے وہی کام لے جو سرد جنگ کے دوران اس نے افغان مجاہدین سے لیا۔امریکہ ایسا سوچ رہا ہے اس کا انداازہ امریکہ کے ایک عہدہ دار کے اس بیان سے بھی ہوتا جب اس نے ایک پریس کانفرنس کے دوران طالبان کو دہشت گرد نہ کہہ کر حریت پسند کہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران ،اسرائیل، سعودی عرب اور روس وغیرہ اخوانی حکومت کو معزول کروانے میں کامیاب بھی رہے ۔اور بیشک مصر میں عبدالفتاح السیسی کے ذریعے فوجی بغاوت میں امریکہ نہیں بلکہ اسرائیل ،سعودی عرب اور روس کی ذہنیت کام کررہی تھی۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس بغاوت کے بعد السیسی نے ایک بار بھی امریکہ کا دورہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی امریکی صدر ہی مصر پہنچے مگر مصر کا یہ فوجی صدر تین بار سعودی عرب کا دورہ کرچکا ہے اور دو بار روس بھی ہو کر آیا ہے اور ۱۰فروری کو روسی صدس پوتن بھی اپنے اس ناجائز بچے کو حوصلہ دینے کے لئے مصر کا دورہ کرچکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ یا امریکی صدر نے مصر کے فوجی حکمراں کو اقتدار تک پہنچانے میں مدد کی ہے جیسا کہ عالم اسلام کے عام دانشور وں اور اسلام پسند وں کا بھی خیال ہے تو پھر مصر کی گنگا الٹی کیوں بہہ رہی ہے۔اور السیسی کا عمل اس کے برعکس کیوں ہے ؟اور کیا امریکہ کو یہ بات اچھی لگ سکتی ہے کہ جس نے اسے جنم دیا آج وہ اس کے آستانے کوچھوڑ کر کہیں اور سجدہ شکر بجالا ئے۔یہ بات ہم ملت اسلامیہ کی سوچ کے بالکل برعکس لکھنے کی جرات کررہے ہیں اور ہم غلط بھی ہو سکتے ہیں لیکن یوروپ میں مسیحی دنیا کے بدلتے ہوئے مزاج کو بھی نظر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔مشرق وسطیٰ میں دولت اسلامیہ کا عروج اسی ردعمل کے تناظر میں ہے اور جس طرح ان لوگوں نے آندھی طوفان کی طرح عراق اور شام کے علاقوں پر قبضہ کرلیا ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی غیبی قوت ان کی مدد کررہی ہے ۔اور یقینایہ طاقت وہی ہے جس نے بدر و احد میں کفار کے مقابلے کمزور مسلمانوں کی مدد کی تھی۔یہ مدد فرشتوں کے ذریعہ بھی ہو سکتی ہے اور کوئی وقت کا نجاشی حکمت کے ساتھ ان کی مدد کررہا ہے۔کوفی اور شامی تو علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ امریکہ دولت اسلامیہ کی مدد کررہا ہے ۔یہود اور سعود کو بھی یقین ہے کہ امریکہ ان کے ساتھ مخلص نہیں ہے ۔شاید اسی لئے ان دونوں ممالک نے کسی بہانے سے السیسی کو اپنا ایجنٹ بنا کر دوبار روس کا دورہ کروایا تاکہ روس مشکل وقت میں انہیں تنہا نہ چھوڑے ۔روس کی اپنی بھی مجبوری ہے کہ وہ یوکرین میں الجھ کر رہ گیا ہے ۔مگر روس اپنی انٹیلیجنس اور جدید ہتھیاروں سے اپنے ان اتحادیوں کی اسی طرح مدد کررہا ہے جیسے کہ امریکہ نے افغانستان میں افغان مجاہدین کی مددکی تھی۔ سپر پاوروں کے درمیان مشرق وسطیٰ کی یہ جنگ کب تک چلے گی اور اس کا فاتح کون ہوگا ابھی سے اس کی پیشن گوئی کرنا ذرا مشکل ہے۔ مگر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ امریکہ خود دولت اسلامیہ کو ختم نہیں کرنا چاہتا ورنہ جو امریکہ اور اس کے اتحادی آسانی کے ساتھ صدام حسین کو شکست دے سکتے تھے ،جنہوں نے لیبیا کے مرد آہن قذافی کو بے دخل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،اگر وہ سنجدیدہ ہو جائے تو دولت اسلامیہ کو کسی بھی وقت ختم کرسکتا ہے ۔ہاں یوکرین اور شام کے معاملے میں وہ مجبور ہے تو اس لئے کہ وہ روس کے ساتھ براہ راست ٹکراؤنہیں چاہتا۔

«
»

میں اسے کیا جواب دوں؟

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے