کیا کلدیپ نیّرؔ بھی ہاتھ سے گئے؟

بدھ کے روز شائع ہونے والے اُن کے کالم۔ ’’بین السطور‘‘ میں کل انہوں نے آندھرا پردیش میں ہونے والی پولیس والی مڈبھیڑ کو موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے شروع کیا ہے جموں کشمیر سے اور لکھا ہے کہ۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ حقوق انسانی کارکنان بھی عملاً خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جیسے کچھ دنوں پہلے تک ہوا کرتا تھا۔ اس سے سرکار کی دلچسپی کم ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ کلدیپ صاحب نے اس کے بعد کشمیری پنڈتوں کی واپسی کے متعلق لکھا ہے جس کا موضوع سے کوئی ربط نہیں ہے لیکن اس موضوع کے آخر میں انہوں نے یہ لکھ کر توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’واقعہ یہ ہے کہ بھگوا کاری کی جو گرم ہوا پورے ملک میں چل رہی ہے۔ کشمیر پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن ہم شاید مذہبی پہلو کو فراموش کئے ہوئے ہیں۔ اعتدال پسندوں کا خیال ہے کہ گویا انہیں جتینے کی کوئی اُمید نہیں۔ پھر کافی لکھنے کے بعد وہ اصل موضوع پر آئے اور لکھا کہ عجیب بات ہے کہ اس مہینہ کے شروع میں آندھرا پردیش کی ٹاسک فورس کے ہاتھوں 20 مزدوروں کی ہلاکت سے خلاف توقع ملک میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مظلومین محض مزدور تھے جو قانون بنانے والے اشراف پسند معاشرے کا پست ترین طبقہ تصور کئے جاتے ہیں۔ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ غریب تھے اور پہلے ہی سے حاشیہ پر تھے؟
کُلدیپ نیرّؔ صاحب نے دوسرا واقعہ لکھا ہے کہ کسی دوشنبہ کو دوپہر کے وقت تمل ناڈو کے رتناگری پلائم سے آٹھ مزدور اپنے گھروں کے لئے روانہ ہوئے۔ پھر دوسری بس سے وہ آندھرا پردیش میں ریتی گننا جانے والی بس میں بیٹھ گئے۔ لیکن راستہ میں انہیں پولیس نے پکڑ لیا۔ تروپتی کے قریب جنگل میں مڈبھیڑیں دکھائیں جس میں سات مزدور موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ زندہ رہ جانے والے ایک مزدور نے بیان کیا کہ اس کے ساتھی سات افراد کو پولیس نے اُتارا اور اُسے چھوڑ دیا شاید اس لئے کہ وہ ایک عورت کے پاس بیٹھا تھا اور اُتارنے والے سپاہیوں نے اُسے اس عورت کا شوہر سمجھ کر چھوڑ دیا۔
یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس وہی طریقہ اختیار کئے ہوئے ہے جن سے وہ برطانوی دَور میں کام لیتی تھی۔ ظلم و جبر اور معاملہ کی تہہ میں جاکر سبب کے تعین میں ڈھیل اور سستی کا بھی وہی حال ہے۔ جب تک کہ پولیس فورس پسندیدہ نتائج پیش کرتی رہے گی حکمرانوں کو اُن کے زیراستعمال طریقوں کی پرواہ کبھی نہیں ہوگی۔ ملک کی آزادی کے 68 سال کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوجانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ ان کا مقصد ہدف تک پہونچنے کا طریقہ نہیں بلکہ اس چیز کا حصول ہے جو اُنہیں راس آتی ہے۔
کلدیپ صاحب نے جن دنون کا ذکر کیا ہے اس میں جنوبی ہند میں دو نہیں تین مڈبھیڑ کے حادثے ہوئے ہیں۔ تیسرا سب سے زیادہ عبرتناک اور شرم ناک وہ ہے جس میں پانچ مسلمان قیدیوں کو اس حالت میں مارا گیا ہے کہ اُن کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور ہاتھوں میں ہتھکڑی۔ اُنہیں گولی مارنے والے سپاہیوں کی بازپرس کی طرف سے بے فکری کا یہ حال تھا کہ انہوں نے نہ اُن کی بیڑیاں کاٹیں نہ چابی سے ہتھکڑیاں کھولیں اور کہہ دیا کہ یہ ہمارے ہتھیار چھین کر ہمیں مارکر بھاگنا چاہتے تھے۔ اور بعد میں ان کا شجرہ سیمی سے جوڑ دیا گیا۔ اس خبر پر نہ ٹی وی نے شور مچایا اور نہ اردو اخبارات کے علاوہ دوسری زبان کے اخباروں نے اُسے امتیاز کے ساتھ چھاپا۔ اگر حسن ظن سے کام لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ شاید اس اپنی نوعیت کے سب سے زیادہ دردناک حادثہ کی کُلدیپ نیرّؔ صاحب کو خبر بھی نہیں ہوئی ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اس لئے مڈبھیڑ کے حادثوں پر لکھتے وقت اسے نہ جوڑا ہو کہ مسلمانوں کو تو آئے دن پولیس کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی بہانے سے مڈبھیڑ کہہ کر مارا ہی کرتی ہے۔
سبب جو بھی ہو۔ ہم جیسے کلدیپ صاحب کی عزت کرنے اور اُنہیں سب سے ممتاز صحافی لکھنے اور کہنے والوں کے لئے ان کی صفائی دینا مشکل ہوجائے گی۔
کُلدیپ نیرّؔ صاحب نے بھی مسئلہ کی جڑ پولیس کے ان طریقوں کو بتایا ہے جو انگریزوں کے زمانے سے اب تک چلے آرہے ہیں۔ 2004 ء میں جب یوپی اے کی حکومت بنی اور ایس کے پاٹل وزیر داخلہ بنائے گئے تو پولیس مینول دیکھنے کے بعد وہ چیخ پڑے کہ یہ تو 1860 ء کا بنایا ہوا ہے جو انگریزوں نے ہم غلام ہندوستانیوں کے لئے بنایا تھا۔ بعد میں انہیں کسی اصلی حکمراں نے بتایا ہوگا کہ اب ملک میں جتنے غیرہندو ہیں وہ ہمارے غلام ہیں اور اُن کو قابو میں کرنے کے لئے مینول تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے یاد نہیں کتنی بار یہ لکھا ہے کہ ہر آزاد حکومت کو ڈوب مرنا چاہئے کہ وہ آج بھی غلامی کے دَور کے بنائے ہوئے قوانین کے بل پر حکومت کررہی ہے۔
ملک میں نہ جانے ہزار یا زیادہ ایسے مسلمان ہیں جو صرف پولیس کی ہندو ذہنیت اور سنگھ کی تربیت کی وجہ سے جیلوں میں سڑک رہے ہیں۔ یہ حکومت کی ہندو گردی ہے کہ ان کو مکوکا جیسے آدم خور قوانین کے تحت بند کررکھا ہے اور کروڑوں روپئے مسلم تنظیمیں خرچ کرکے ان کے مقدمے لڑرہی ہیں۔ اگر پولیس مینول ایسا ہوتا کہ پولیس کو اپنے ہر عمل کا جواب دینا پڑے گا تو ایک مسلمان بھی بے قصور اور بے گناہ جیل میں نہ ہوتا۔ سردار پٹیل سے لے کر راج ناتھ سنگھ تک ہر وزیر داخلہ پولیس کے بل پر حکومت کررہا ہے اور جھوٹ بول رہا ہے کہ پولیس ایماندار ہے اور عدالتیں انصاف کرتی ہیں۔
راہل گاندھی مودی حکومت پر جارحانہ حملے کررہے ہیں اور مسلمانوں کے وکیل بن کر سامنے آرہے ہیں یہ اسی کانگریس کی آواز ہیں جن کا پورا دامن اور جن کی دادی کی پوری ساڑی اور ان کے باپ کا پورا کرُتہ مسلمانوں کے خون سے سرخ رہا ہے اور ان میں سے کبھی کسی کو شرم نہیں آئی۔ ہم مسلمانوں نے ان سے بھی دو دو ہاتھ کئے ہیں اور ان کے حزب مخالف کے ساتھ بیٹھ جانے سے اور اقلیتوں کے غم میں آواز بلند کرنے سے ہمارے دل میں ان کی ہمدردی پیدا نہیں ہوگی۔
ملک میں مسلمانوں کے خلاف بدزبانی، بدکلامی حکومت کے بل پر نئی نئی شکلوں میں سامنے آرہی ہے۔ پارلیمنٹ میں ہنگامہ کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے رٹا ہوا سبق سنا دیا کہ۔ ملک کا آئین تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔ کون کہتا ہے کہ آئین یہ نہیں کہتا؟ لیکن کون بھگوا پارٹیوں سے جڑا ہوا آئین کو مانتا ہے اور کیسے مانے جب ہر بدزبان کو وزیر اعظم گوا میں لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ آپ لوگ اُنہیں معاف کردیں۔ یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ مودی حکومت کے تو وزیروں کو بھی بات کرنا نہیں آتی۔ یا وہ اقتدار کے نشہ میں ایسے ہوگئے ہیں جیسے دارو کے پیارے۔ مودی کسی کو کہتے ہیں کہ یہ دھیمر کی لونڈیا ہے کسی کو بابا بناکر سامنے کھڑا کردیتے ہیں اور کسی کو کمرہ میں بلاکر اُسے مشورہ دیتے ہیں کہ روتے ہوئے نکلو تاکہ لوگ سمجھیں میں نے ڈانٹا ہے۔ شاید ایسے جانور نما انسانوں کو وزیر بنانے کا مقصد بھی یہ ہے وہ جوتے کے نیچے پڑے رہیں اور اس طرح سینہ تان کر کبھی سامنے آنے کی ہمت نہ کریں جیسے وہ اڈوانی کے سامنے آئے اور اب انہیں پالتو بنا لیا ہے۔ بات شروع کی تھی کُلدیپ نیرّؔ سے کہ سب کے ساتھ کیا وہ بھی ہندوگردی میں بہہ گئے؟ خدا کرے ایسا نہ ہو۔

«
»

سرکا بدلی مگر حالات نہیں بدلے!!

یمن کے ’’حوثی‘‘کون ہیں؟؟؟!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے