کیا اسرائیل مظلوم ہے؟

مذکورہ مضمون جس میں انہوں نے غزہ کے مظلومین کی تباہی کیلئے خود حماس کو ہی ملزم ٹھہرایا ہے کسی پاکستانی لکھاری سے منسوب کیاہے ۔ فلسطینیوں کی اسرائیل کے ذریعہ سفاکانہ قتل کا ذمہ دار حماس کو قرار دیا جانا سفاکی اور چشم پوشی کی انتہا ہے ۔یاد رہے کہ 11 ؍اگست کو اسی زبان کا ستعمال اسرائیل کے نئے سفیر ڈینیل کارمن نے نو بھارت ٹائمز سے اپنے ایک انٹر ویو میں کیا ہے۔تقریبا یہی موقف امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیلی حکومت کا ہے۔اسرائیلیوں اور ان کے حامیوں کی دلیل ہے کہ عرب ملک کی حکومتیں اسرائیلی کارروائیوں پر خاموش ہیں جو ان کی خاموش حمایت ہے ۔کل ملا کر آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کوئی اسرائیلی کالم نگار ہی ہے ۔لیکن ایک بات اور ہے کہ کچھ مولوی نما لوگ بھی ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو اسرائیل اور سنگھ پریوار کے ثنا خواں ہیں ۔ایک مولانا صاحب جو کہ عمر کی آخری منزل میں ہیں وہ تو فلسطینیوں کی ساری جدو جہد کو فساد فی الارض کہتے ہیں ۔کچھ صحافی بھی ہیں جو اسرائیل کی مہمان نوازی کا لطف بھی اٹھا چکے ہیں لیکن عوامی مزاج اور رد عمل کے خوف سے اسرائیل کے حق میں کچھ بولنے یا لکھنے سے کتراتے ہیں ۔پاکستان کا مسئلہ ہی الگ ہے وہ پاکستان جو اسلام کے نام پر وجودمیں آیا تھا وہاں تقسیم کے بعد افسر شاہی سمیت سبھی حکومتی اداروں میں قادیانی اسی طرح حاوی ہیں جس طرح ملک عزیز میں برہمنی ٹولہ حاوی ہے۔بلاگر کے مطابق اسرائیل نے جنگ کے پہلے ہفتہ میں مصر کی مدد سے جس امن سمجھوتہ کی پیش کش کی تھی اسے حماس کو مان کر جنگ کو ختم کردینا چاہئے ۔پوری دنیا جانتی ہے کہ مصر کی موجودہ السیسی حکومت بھی ایک یہودی حکومت ہے جس کو سعودی کے شاہ کی بھی حمایت حاصل ہے اب اس یہود نواز اور یہود ی تائید و حمایت سے بننے والی اور چلنے والی حکومت فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جو سمجھوتہ کرائے گی اس میں وہ کس قدر انصاف سے کام لے گی اس کو سمجھنے کیلئے کسی بہت بڑے یونیورسٹی سے کسی ڈگری یافتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔سکندرحیات اور ان جیسے سبھی لوگوں کی اس ذہنیت پر علامہ اقبال کا ایک شعر اس کی صحیح ترجمانی کرتا نظر آتا ہے کہ 
؂ وہ فریب خوردہ شاہین کہ پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم شاہبازی 
پہلی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل وہ دہشت گرد ریاست ہے جس سے کسی سمجھوتہ پر عمل کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے ۔اسلئے کہ خود اسرائیل کا وجود ہی غیر انسانی ہے۔دوسری بات یہ کہ کسی قابض اور غاصب کو کبھی کسی ملک کے طور پر تسلیم کئے جانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ۔اس کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ کوئی زبردست اور عیار شخص کسی غریب اور شریف آدمی کے مکان پر قبضہ کرلے اور جب وہ آدمی کچھ بااثر لوگوں کے پاس انصاف کی دہائی کے لئے جاتا ہے تو اسے اول تو ٹالا اور ٹرخایا جاتا ہے ۔کئی سال اسی طرح نکالنے کے بعد اس سے یہ کہا جاتا ہے کہ بھائی جس ایک کمرے میں تم قید ہو اسی پر اکتفا کرو اور اس آدمی کی اس مکان میں ملکیت تسلیم کرلو ۔انسانی ضمیر رکھنے والے لوگ بتائیں کہ کیا اس طرح کے فیصلے کو انصاف کا نام دیا جاسکتا ہے ۔اور اس طرح دوسرے کے مکان پر قبضہ کرلینے والے کو قانونی حیثیت دینا کس ملک اور معاشرے کا قانون ہے ؟اس پر سے بھی اسرائیلیوں نے ان کے مکان ہی نہیں ان کے پانی ان کے باغات ان کے کھیت سب پر قبضہ کرلیا ہے ۔اب انہیں کی زمین ان پر تنگ کردی گئی ہے ۔ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلو جتنی جگہ تمہارے پاس ہے جسے دنیا میں ایک جیل کے طور پر موسوم کیا جاتا ہے وہیں محدود رہو ۔لیکن فلسطین کے حریت پسند اس پر راضی نہیں ۔وہ جان کی بازی لگاکر بھوک اور پیاس سے بلکتے بچوں کی مظلومیت اور معصوم فرشتہ نما بچوں کی لاشوں کو ڈھونے کے باوجود اپنی زمین کو غاصب اسرائیل کے چنگل سے نکالنے کیلئے میدان عمل میں موجود ہیں ۔لیکن زاغوں اور کرگسوں کی فطرت رکھنے والے شیطان صفت لوگ عقابوں کو ان کی فضاؤں سے نکال دینا چاہتے ہیں۔اقبال کی زبان میں’ زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن‘والی بات ہے۔
صہیونیوں نے جرمنی میں اپنے ہولوکاسٹ کے مفروضے کو عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کرکے جس مظلومیت کی تصویر پیش کی تھی اور جس کی بنا پر عالمی قوتوں نے بدترین انسان دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فلسطین میں عربوں کے سینہ پر بسایا۔اب ان اقوام کی عوام ان یہود یوں کی کارستانیوں سے بخوبی واقف ہو چکی ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ تقریباً چار ماہ قبل ایک سروے کے مطابق دنیا میں یہودیوں سے نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس نفرت کے اضافہ میں امریکہ اور یوروپ بھی شامل ہیں ۔موجودہ اسرائیلی بربریت نے اس نفرت میں اور اضافہ ہی کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی بربریت پر چاہے حکومتوں کا ضمیر بیدار نہیں ہوا لیکن عوام نے انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں اسرائیل کی ساری کارستانیوں کو خود سے مشاہدہ کرنے کے بعد اپنی ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور پوری دنیا میں احتجاج کرکے یہ ثابت کیا کہ عالم انسانیت کا ضمیر ابھی زندہ ہے ۔حکومتیں بیدار ہوں یا نہ ہوں وہ چاہے ظالم کا ساتھ اور ظلم کا جواز پیش کریں لیکن عوام یہ سب کچھ برداشت نہیں کرسکتے۔ویسے بھی امریکی انٹلیجنس کی رپورٹ جو کچھ سال قبل بھی شائع ہوئی تھی کہ 2025 تک اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا ۔یہ امریکی انٹلیجنس کی رپورٹ ہے لیکن ہمارا تو ایمان برسوں سے ہے اور آگے بھی انشاء اللہ رہے گا کہ باطل اور ظلم کو بالآ خر مٹ ہی جانا ہے ۔کیوں کہ کفر اور شرک کی بنیاد پر تو حکومتیں قائم رہ سکتی ہیں لیکن ظلم کی بنیاد پر حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ 
موجودہ اسرائیلی بربریت میں مسلم ملکوں کا کردار انتہائی شرمناک رہا ۔حد تو یہ ہو گئی کہ اسرائیلی بربریت کے دوسرے یا تیسرے ہفتہ میں سعودی شاہ کو یہ اندازہ ہوا کہ فلسطین میں کچھ ہو رہا ہے اور عرب لیگ سمیت اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے میٹنگیں اور امن کی اپیل کی حد تک بیان جاری کیا ۔اسی ایک میٹنگ کی ایک تصویر میں نے دیکھی اس میں شامل مندوبین کی اکثریت سو رہی تھی یا اونگھ رہی تھی ۔ملک عزیز کے عروس البلاد ممبئی میں بھی ایک بے حسی دیکھی گئی کہ جب پوعری دنیا کے مسلمان عید کو بھی بجھے بجھے اور غمزدہ دل کے ساتھ خوش آمدید کہا اس بار تو ایس الگا کہ گویا پوری امت اسرائیل کے خلاف فلسطین کے حق میں یک جٹ ہے ایسے موقع پر کچھ لوگوں کا شام قہقہہ جیسا پروگرام منعقد کرنا کیا ظاہر کرتا ہے ۔واضح ہو کہ ایک اردو تنظیم کی جانب یہ شام قہقہہ اسلام جمخانہ میں ہفتہ 9 ؍اگست کو منعقد کیا گیا تھا ۔اللہ رحم فرمائے ہمارے حالات پر کہ ہم کس قدر بے حس اور بے غیرت ہو چکے ہیں ۔ابھی حالیہ ایک میٹنگ میں سعودی شاہ کے نمائندے نے اسرائیل کو وارننگ دی کہ اگر وہ ’’اپنی بقا چاہتا تو فلسطینیوں سے امن معاہدہ کرے‘‘۔میرے خیال میں کافی دیر سے سعودی کا یہ بیان آیا ہے شاید کوئی سفارتی مجبوری رہی ہوگی ۔لیکن اس سلسلے میں سعودی کے کچھ مفتیوں کو چھوڑ کر (جنہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل سے جنگ کرنا حرام ہے)عام علماء کی بات کریں تو وہ مسلم امہ کی موجودہ صورتحال سے مضطرب ہیں اسی کا اظہار امام حرم شیخ سعود الشریم نے کیا انہوں نے کہا کہ’’ حماس سے اختلاف رائے کی بنیاد پر جو صہیونیت کی جارحیت کے ساتھ ہے وہ یہودی ہے ۔اس کے جسم میں یہودی دل ہے ۔اہل فلسطین ہمارے بھائی ہیں ان کا ساتھ دینا ہماری دینی ذمہ داری ہے‘‘ ۔سعودی عرب کا بیان با لکل واضح ہے اسرائیل کی بقا کی ضمانت صرف فلسطینیوں سے امن معاہدے میں ہے اور وہ امن معاہدہ حماس کی شرط پر ہی ممکن ہے اسرائیل اور اس کے آقاؤں کی شرط پر نہیں ۔

«
»

لاکھوں انسانی جانوں کے محافظ ڈاکٹر یوسف حمیدکو نوبل پرائز کیوں نہیں؟

مالکی اقتدار کا خاتمہ ایک ڈراونے خواب سے نجات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے