کیا ایران ایک فاشسٹ ریاست ہے؟

ایران کی صفوی حکومت جو خالص اسلامی اقدار کی نماںُندگی کی اہل نہ بھی رہی ہو اسلام اور عالم اسلام سے اس کا پوری طرح رابطہ ٹوٹا بھی نہیں تھا- بلکہ یوں کہا جاےُ کہ سنیوں اور شیعاوں کا جو طبقہُ خاص تھا ان کے آپس میں شادی بیاہ اور رشتہ داریوں کا بھی معاملہ عام تھا – جیسا کہ مصر میں جمال عبدالناصر سے لیکر انور سادات اور حسنی مبارک کی بیویوں کا تعلق اگر شیعہ فرقے سے تھا تو پاکستان کے ایک حکمراں ذوالفقار علی بھٹو کی دونوں بیویاں شیعہ تھیں -اہل تشیع اور سنی حضرات کے درمیان تعلقات کی اسی تاریخ کی بنیاد پر عالم اسلام کی چند جہاندیدہ شخصیات کا یہ فیصلہ کہ ایران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا -شاید کہ کرہُ ارض کی تقدیر بدل جاےُ عالم اسلام کو متحد کرنے کیلئے اس وقت کا اہم مطالبہ اور فطری تقاضہ تھا – یہی وجہ ہے کہ جب ایران میں 1979 میں مرحوم آیتہ اللہ خمینی کی قیادت میں سیاسی تحریک کو کامیابی ملی اور آیتہ اللہ خمینی نےاسے اسلامی انقلاب سے مخاطب کیا تو بر صغیر میں جماعت اسلامی اور جزیرتہ العرب میں احیاء اسلام کی جدوجہد میں مصروف تنظیم اخوان المسلمون نے پرزور تاںُید اور حمایت کی – بدقسمتی سے ایران کے وسعت پسندانہ نظریات کی بنیاد پر یہ انقلاب بھی خلیج کی جنگ کی وجہ سے ناکام ہو گیا اور ایران نے وہی غلطی دوبارہ دہرائ جو ماضی میں ایران کے صفوی حکمرانوں کی روش رہی ہے-اس بات کا اعتراف علی میاں ندوی نے بھی اپنی کتاب "انسانی تاریخ میں مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب میں لکھا ہے کہ ” مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مشرق میں ایران کی صفوی حکومت جو ایک بڑی متمدن اور ترقی یافتہ سلطنت تھی لیکن شیعیت کے غلو اور ترکی حکومت سے نبرد آزمائ نے اس کو کسی اور کام کی فرصت نہ دی اور وہ بہترین زمانہ ( جو یورپ کی تعمیر و تنظیم کا تھا ) بھی ترکی حکومت کے حدود پر حملہ کرنے اور کبھی اپنی حفاظت اور مدافعت میں گزر گیا” -ایرانی عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے حکمراں ابھی بھی تاریخ سے سبق حاصل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور ہم یہ محسوس کر رہے ہیں کہ جس طرح ملک عزیز میں فرقہ پرست ہندو تنظیمیں اپنی مسلم دشمنی میں اندھی ہوئی جارہی ہیں اور خالص ہندو قومیت کی بنیاد پر بھارت کو ایک فاشسٹ ریاست میں تبدیل کر دینا چاہتی ہیں ایرانی حکمراں بھی اپنی شکست خوردہ ذہنیت سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہی وہ جنون ہے کہ وہ خود اپنے ملک میں بیس فیصد سنی مسلمانوں کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کر پارہے ہیں اور مسلسل یہ دیکھا جارہا ہے کہ جو ایران اسلامی جمہوریہ کی بات کرتا ہے اسی ایران میں جمہوریت دیگر غیر مسلم ممالک سے بھی بدتر حالت میں ہے اور ایران کی پوری پارلیمنٹ میں ایک بھی سنی مسلمان ممبر نہیں ہے-جبکہ یورپ جو مسلم دشمنی میں مشہور ہے وہاں پر مسلم سیاسی امیدوار غیر مسلم اکثریت والے علاقوں سے بھی جیت کر پارلیمنٹ تک پہنچے ہیں-اسی تعلق سے کرد سنی اکثریتی صوبہ کردستان کے دورے پر پہنچے ایران کے صدر حسن روحانی سے جب ایک مقامی صحافی نے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایران میں یہودی تو اعلٰی عہدوں پر فاںُز ہو سکتے ہیں مگر کوئی سنی مسلمان وزیر اور کسی صوبے کا گورنر نہیں بن سکتا -العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق پہلے تو محترم صدر حسن روحانی اس غیر متوقع سوال پر کچھ پریشان ہوےُ لیکن انہوں نے فوراّ صحافی کو یہ کہ کر جھڑک دیا کہ میری حکومت شیعہ سنی میں کوئی فرق نہیں کرتی اور آپ کا سوال ایسا ہے کہ جس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ ہم یہاں تفرقہ بازی پر بحث کرنے کیلئے نہیں آےُ ہیں- یہاں پر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی فرقہ پرست جماعت بی جے پی بھی یہی کہتی ہے کہ وہ سوا کروڑ ہندوستان کے لوگوں کی نماںُندہ جماعت ہے مگر اس کا خفیہ ایجنڈا یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اپنی کوئی سیاسی قیادت نہ ابھرنے پاےُ اور ایودھیا میں بابری مسجد تنازعہ کے معاملے میں بھی اسے صرف اور صرف مندر کی تعمیر اور ہندو اکثریتی فرقے کے جذبات سے ہی دلچسپی ہے -ایران میں ابھی تک کے تمام حکمراں اسی قول و فعل کے تضاد اور فساد میں مبتلا ہیں اور یہاں پر کسی بھی سنی سیاسی جماعت کو اوپر آنے نہیں دیا جاتا ہے- اگر مجاہدین خلق کی طرح کوئی جماعت ایران کے سنی مسلمانوں کے سیاسی حقوق کیلئے آواز اٹھاتی بھی ہے تو ان کے ممبران کو دہشت گردی کے الزام میں اسی طرح پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے جیسے کہ مصر میں اخوان کے ساتھ ہو رہا ہے -اس کے باوجود کوئی سرپھرا غلطی سے حکمراں جماعت کی پالیسیوں کے خلاف جراُت کر جاےُ تو مصر کی طرح ایران میں بھی زینب اور شبیر میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا اور اسے کسی نہ کسی جھوٹے الزام کے تحت سزا سنا دی جاتی ہے -پچھلے سال ایک نوجوان دوشیزہ ریحانہ جبار کو ایرانی عدالت نے موت کی سزا سنا کر پھانسی کے تخت پر بھی چڑھا دیا -ریحانہ جبار کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی عزت لوٹنے والے ایک سرکای ایجنسی کے اہلکار کو قتل کر دیا تھا – مگر یہ سوال بھی ہنوز حل طلب ہے کہ جس شخص نے ریحانہ کی عزت وعصمت پر حملہ کرنے کی جسارت کی اسے کیا سزا ملی اور یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک عورت تنہا ایک مرد کو قتل کردے-ایسا نہیں ہے کہ ایرانی حکمرانوں کا یہ اعتاب سنی مسلمانوں پر ہی نازل ہوتا ہے ایران کی بنیاد پرست شیعہ حکومت نے اپنے ہی ملک کے ایک معزز صدر علی اکبر ہاشمی رفسخجانی کے بیٹے مہدی ہاشمی کو بھی نہیں بخشا-ان کی بہن فاںُزہ ہاشمی نے الزام عاںُد کیا ہے کہ ان کے بھائ کو سیاسی وجوہات کی بناء پر گرفتار کیا گیا ہے اور ایک طںُے شدہ منصوبے کے تحت ان کے خاندان والوں کو دیوار سے لگانے کی سازش کی جارہی ہے- بظاہر مہدی ہاشمی کو اقتصادی جراںُم اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت ایرانی عدالت نے دس سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے -مگر سچائی یہ ہے کہ علی اکبر ہاشمی ایران کی خارجہ پالیسی کے تعلق سے ایرانی اقتدار اعلیٰ کے فیصلوں کے ناقد رہے ہیں -خاص طور سے شام میں ایران کی مداخلت پر انہوں نے احمدی نثراد حکومت پر سخت تنقید کی تھی -یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ ایران میں ایران کی پارلیمنٹ اور صدر سے زیادہ اختیارات ایران کی سپریم کونسل کو حاصل ہے اور سپریم کونسل پر خالص ایران کے مذہنی طبقے کا غلبہ ہے جسکے سربراہ اعلیٰ آیتہ اللہ علی خامنہ ای ہیں اور یہ لوگ جو پورے عالم اسلام میں اسلامی جمہوریت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی کونسل میں ایک بھی سنی عالم دین نہیں ہے-افسوس کہ اب یہ وہی تہران ہے جسے اقبال نے مشرق کا جنیوا کہا تھا اسی تہران میں سنیوں کی واحد مسجد کے امام مولوی عبید اللہ موسیٰ زادہ کے گھر کی جامہ تلاشی لی گئ اور پھر تہران کی بلدیہ نے بلڈوزر چلا کر مسجد کو شہید کر دیا- اس طرح ایرانی حکومت نے نہ صرف ایران کے سنی مسلمانوں کے تںُیں نفرت اور عصبیت کا مظاہرہ کیا ہے عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے منھ پر بھی طمانچہ مارنے کی کوشش کی ہے کہ اسے سنی دنیا سے کسی اتحاد کی غرض اور ضرورت نہیں ہے -افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی ملک نے ایرانی حکومت کے اس بد بختانہ عمل پر کوئ احتجاج نہیں درج کرایا اور عرب ممالک تو بےچارے اخوان المسلمون حماس اور داعش کی دہشت گردی سے مقابلہ کرنے میں ہی مصروف ہیں ان سے شکوہ کرنا بھی فضول ہے-اور انہوں نے خود اپنے خیالوں کا بت بنا لیا ہے کہ اگر ان بے چاروں کی حکومت نہ رہی تو حاجیوں کی خدمت کون کرے گا…! مگر ہند وپاک کی وہ تمام سنی تنظیمیں بھی جنہوں نے ایران کو تیسرے قبلہ کا درجہ دے رکھا تھا اور جنھوں نے عراق اور شام میں مقامات مقدسہ کی بے حرمتی پر تو اہل ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوے خوب واویلا مچایا مگر تہران کی اس مسجد کی شہادت کے خلاف اگر کسی نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا تو وہ ایران کے سنی مسلمانوں کی تنظیم مجاہدین خلق کی غیر مقیم خاتون سربراہ مریم رجوری کی آواز تھی -انہوں نے کہا کہ اس مسجد کا مسمار کرنا ایرانی حکومت کا مجرمانہ فعل اور اہل سنت والجماعت کے ساتھ نفرت کا واضح ثبوت ہے-اور یہ کیسی مذہبی حکومت ہے جو اپنے مزاروں تک کو بھی کعبے کا درجہ دیتے ہیں مگر مخالف مسلک کی ایک مسجد بھی انہیں برداشت نہیں-سچ تو یہ ہے کہ ایرانی حکمرانوں کے قول و فعل میں ہمیشہ تضاد رہا ہے-اور ایران ایک نقلی اسلامی جمہوریت ہے جہاں صرف ایک مسلک عقیدے اور گروہ کا سیاسی غلبہ ہے دوسرے لفظوں میں ایران ایک فاشسٹ ریاست ہے…..!!

«
»

کیا مسلمان بن کر رہنا جرم ہے ؟

دہشت گردی: اقوامِ ہند کے لئے لمحۂ فکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے