کیا ہندوستان فاشزم کے راستے پر جارہا ہے؟

جب وزیر اعظم آفس سے چند کیلو میٹر کے فاصلے پر دلی کے ترلوک پوری میں دنگے کرائے جاسکتے ہیں اور وزیر اعظم کچھ بھی نہیں کرسکتے تو دور دراز گجرات میں اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ کیا کرسکتے ہیں۔ ترلوک پوری سے حوصلہ پاکر بوانہ میں بھی محرم کے جلوس کا راستہ روکنے کی کوشش ہوئی۔ جس ملک میں ہندو برادران وطن خود آگے بڑھ کر مسلمانوں کے تہواروں میں حصہ لیتے ہیں اور خاص طور پر محرم میں تعزیہ اور ماتم کے جلوس میں شریک ہوتے ہیں ، وہاں اس قسم کی باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ حالات کس طرح بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔وزیر اعظم کے ہاتھ اس لئے بھی بندھے ہیں کہ فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے والے ان ہی کی جماعت کے لوگ ہیں اور اس سے بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچتا ہے۔راجدھانی دلی سے قریب مغربی اترپردیش کو تو بھگوا سیاست کی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے جہاں مظفر نگر دنگوں کے بعد سے لگاتار چھوٹے چھوٹے فسادات ہورہے ہیں اور کسی بھی معمولی واردات کو فرقہ وارانہ فساد کا روپ دینے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا م اخبارات اور علاقائی ٹی وی چینلوں کے ذریعے تک کو تاڑ بنانے کا کام آسان ہوجاتا ہے اور جھوٹی خبروں کو بھی افواہ کی شکل میں اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ عام لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ایک تحقیقی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مغربی یوپی پر خاص طور پر بھگوا جماعتوں کی نظر ہے اور اچھے خاصے ماحول کو بھی بگاڑنے میں لگی ہیں۔ حال ہی میں آگرہ میں آرایس ایس نے اپنی نوجوان اکائی کا جلسہ کیا جس میں سنگھ کے چیف موہن بھاگوت خود شریک ہوئے اور تقریر کی۔ انھوں نے یہاں ’لوجہاد ‘کا وہ توپ چھوڑنے کی کوشش کی جو پہلے ہی چھوٹ چکی ہے۔ اس علاقے میں بار بار ثابت ہوچکا ہے کہ یہ ایک جھوٹا پروپیگنڈہ ہے اور اس ایشو کو اٹھانے کا انجام ضمنی انتخبات میں بی جے پی کے سامنے بھی آچکا ہے مگر موہن بھاگوت اس ایشو پر ہندو نوجوانوں کو اکسانا نہیں
بھولے۔
فسطائی تجربہ گاہ
بھگواجماعتیں مغربی اترپردیش کو فسطائیت کی نئی تجربہ گاہ بنانے میں مصروف ہیں اور یہاں کسی بھی معمولی واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ کہنا ہے سی پی آئی (ایم ایل) اترپردیش کے ان لیڈروں کا ، جنھوں نے حال ہی میں اس علاقے کا دورہ کیا اور ان جگہوں کا خاص طور پر دورہ کیا جہاں حالیہ دنوں میں فسادات ہوئے ہیں۔ اس ٹیم نے لوگوں سے مل کر اور متاثرین نیز چشم دیدوں سے گفتگو کر کے جو کچھ دیکھا اور سمجھا اسے ایک رپورٹ کی شکل دی ہے ۔ ۳۲ صفحات کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی یوپی میں چھوٹی چھوٹی باتوں اور عام جھگڑوں کو بڑی افواہوں کے ذریعے طول دے کر فرقہ وارانہ جنون پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کام میں بی جے پی سمیت سنگھ پریوار کی تنظیمیں شامل ہیں جو منصوبہ بند طریقے سے دنگے کرانے اور ماحول کو زہر انگیز کرنے میں مصروف ہیں۔ سی پی آئی ایم ایل کے ریاستی جنرل سکریٹری رام جی رائے، مرکزی بورڈ کے رکن محمد سلیم اور پارٹی ممبر طاہرہ حسن کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے بریلی ضلع کی آنولہ تحصیل کے کھٹیٹا گاؤں، بریلی شہر کے میرا کی پیٹھ، مرادآباد کی کانٹھ اور میرٹھ کے کھرکھودا گاؤں کا دورہ کیا ، نیز سہارنپور بھی گئے۔ یہ تمام وہ علاقے ہیں جہاں حال ہی میں دنگے ہوئے تھے یا افواہیں پھیلا کر ماحول کو خراب کرنے کی کوشش ہوئی تھی۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بات ان علاقوں میں نہیں ہوئی جو کسی دنگے کا سبب بن سکے ،بس افواہیں پھیلائی گئیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گءئی کہ کچھ بڑا معاملہ ہوگیا۔ غور طلب ہے کہ کھرکھودا(میرٹھ) وہ علاقہ ہے جہاں ’’لوجہاد‘‘ کا بھوت کھڑا کی اگیا اورمدرسے میں پڑھانے والی ایک ہندو لڑکی کو پیسے دے کر اس سے کہلوایا گیا کہ مدرسوں میں ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے اور انھیں خلیجی ممالک میں بھیجا جاتا ہے۔ اس افواہ کو قومی ٹی وی چینلوں نے خوب نمک مرچ لگاکر پیش کیا اور جھوٹی خبریں تیار کرکے پیش کی گئیں۔ حالانکہ مذکورہ لڑکی نے بعد میں اپنا بیان بدل لیا اور بتایا کہ اسے اس قسم کی باتیں کہنے کے لئے پیسے دیئے گئے تھے۔ ان علاقوں کا دورہ کرنے والی تیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ سب ووتوں کے پولرائزیشن کے لئے کیا گیا اور سہارن پور میں تو مسلمانوں ارو سکھوں کو لڑانے کی کوشش ہوئی۔ 
مودی کے ناک کے نیچے کیا ہورہا ہے؟
دلی کے بوانہ علاقے میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مسلمان محرم کا جلوس نکالنے کی تیاری میں تھے مگر اچانک انھیں خبر ملی کی وہ جس راستے سے ہر سال جلوس نکالتے ہیں اس بار نہیں نکال سکیں گے کیونکہ علاقے میں مہاپنچایت بلائی گئی ہے اور انھیں دھمکی دی جارہی ہے کہ وہ روایتی راستے سے تعزیہ نہ نکالیں۔ اطلاعات کے مطابق اس مہاپنچایت میں بی جے پی کے مقامی ایم ایل اے اور کانگریس کے ایک کونسلر بھی شامل ہوئے۔ خیر پولس نے جلوس عزا نکالنے والے مسلمانوں سے رابطہ کیا اور انھیں سمجھایا تو وہ اس کے لئے تیار ہوگئے کہ اس بار جلوس پرانے راستے سے نہیں لے جائینگے اور ایک فساد پھیلانے کی ایک سازش ناکام بنا دی گئی ہے۔ محرم کے جلو س کے تعلق سے ایک خاص بات یہ ہے کہی جاسکتی ہے کہ یہ پورے ملک میں اور ہرشہر وگاؤوں میں نکلتا ہے۔ علماء کا اس سلسلے میں خواہ جو نقطۂ نظر ہو مگر عوام سے دھوم دھام سے نکالتے ہیں اور پرانے زمانے سے یہ نکل رہا ہے۔ جلوس عزا کی خصوصیت ہے کہ اس میں مسلمان ہی نہیں ہندو بھی دلچسپی لیتے
ہیں ۔ جہاں مسلمان یاحسین اور یاعلی کے نعرے بلند کرتے ہیں وہیں ہندو بھی کرتے ہیں۔ مرثیہ خوانوں اور ماتم کرنے والوں میں اگر ملسمان ہوتے ہیں تو نوحہ کرنے والوں اور آنسو بہانے والوں میں ہندو برادران وطن بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس قسم کے جلوس ہندوستانی کی ملی جلی تہذیب کی پیداوار ہیں اور ہندو۔مسلم اتحاد کا درس دیتے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ انھیں دونوں قوموں کے بیچ نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ بوانہ سے پہلے ترلو ک پوری میں میں فضا خراب کرنے کی کوشش ہوچکی تھی اور راجدھانی کے کچھ دوسرے علاقوں میں بھی ماحول بگاڑنے کا کام کیا گیا۔ 
ہرجگہ ایک ہی کھیل
گجرات، آسام، بنگال، جھارکھنڈ، بہار اور اترپردیش کے مختلف علاقوں سے ایسی خبریں آرہی ہین کہ وہاں فرقہ وارانہ فضا کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مغربی بنگال ان دنوں خاص طور پر نشانے پر ہے جہاں فرقہ پرستوں کے لئے ماحول کبھی بھی اچھا نہیں رہا ہے ،مگر لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو ۱۴فیصد ووٹ ملنے کے بعد سے یہاں لگاتار سنگھ پریوار زمین ہموار کرنے میں لگا ہے۔کبھی یہ کہا جارہا ہے کہ یہاں بنگلہ دیشی دہشت گرد قدم جما رہے ہیں تو کبھی یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ ممتا بنرجی دہشت گردی کے خلاف کوئی موثر قدم اٹھانے سے گریز کر رہی ہیں کیونکہ انھیں اندیشہ ہے کہ مسلمان ناراض ہوجائینگے اور مسلم ووٹ بینک ان سے دور ہوجائے گا۔ ستم یہ ہے کہ اس وقت فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے میں نام نہاد میڈیا بھی پیش پیش ہے جو ان دنوں مودی کی راہوں میں بچھا جارہا ہے۔ ’’لوجہاد‘‘ کے بہانے سنگھ پریوار نے مسلمانوں پر جس قدر نشانہ سادھا ہے ،اس سے زیادہ میڈیا نے اسے ہوا دیا ہے۔ یونہی بنگال میں دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرنے میں بھی میڈیا کا رول سب سے افسوسناک ہے۔
سیکولر تانابانا توڑنے کی کوشش
بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور اس لئے سیکولر نہیں ہے کہ یہاں کا آئین سیکولر بنیادوں پر استوار ہے بلکہ اس لئے سیکولر ہے کہ یہاں رہنے والے اتحاد و یگانگت کے ساتھ رہنے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شریک ہوتے آئے ہیں۔ دونوں کا بلڈ گروپ ایک ہے اور دونوں کے ڈی این اے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس ملک میں جب سے سیاست کے لئے مذہب کا استعمال شروع کیا گیا تب سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا اور قوم کے گاڑھے پسینے کی کمائی کو ملک کی ترقی میں خرچ کرنے کے بجائے سلامتی پر خرچ کیا جانے لگا۔ ملک کی فرقہ وارانہ فضا خراب ہونے سے کسی کا فائدہ نہیں سوائے چند موقع پرست سیاست دانوں کے۔اس لئے عوام کو ان سازشوں کو سمجھنئے کی ضرورت ہے جو اس ملک میں جاری ہیں۔ کرسی کے لئے بھائی کو بھائی سے لڑانا صرف ایک علاقے کے لئے نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے خطرناک ہے اور ایس اکرنے والے اس ملک کے دوست نہیں دشمن ہیں۔

«
»

ابھی انصاف بہت دور ہے

’’کن فیکون‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے