کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

لیکن لاکھ کو ششوں کے باوجود انسانی مساوات کے علم بردار ملک میں برابری اور انصاف کا میزان ،ذات پات اور چھوت چھات کے بوجھ سے ایک جانب جھکا ہورہا ، ہر سال عالمی مجالس کی میزبانی اور غریب ممالک کی امداد پر کرورڑوں روپئے خرچ کرنے والے ملک میں کروڑوں لوگ اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے ایک ایک دانہ کے لئے ترس رہے ہیں ۔ خلأ کو تسخیر کرنے کی خواہش رکھنے والے ملک میں کروڑوں لوگ یا تو کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور ہیں یا کیڑے مکوڑے کی طرح تنگ و تاریک اور متعفن گلیوں میں زندگی گزاررہے ہیں ۔ 
انگریز اس ملک کو آزاد کر یہاں سے توچلے گئے، لیکن فرقہ پرستی اور منافرت کا جو بیج وہ لگا گئے تھے ، وہ اب تناور درخت کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ جس کی جڑیں اس ملک میں دور دور پھیل چکی ہیں ، انگریزوں کے ایجنٹ آج بھی ایک سیاسی جماعت شکل میں ہندوستان میں نہ صرف پھل پھول رہے ہیں ، بلکہ غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر انسانی عمل میں حد درجہ مصروف ہیں ۔ ابھی حالیہ انتخابات میں ایک فرقہ پرست تنظیم کی سیاسی پارٹی نے جس طرح فرقہ واریت کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی ہے اور وہ اپنے قدم جس تیزی سے ملک کی شاندار یکجہتی، اخوت اور گنگا جمنا تہذیب کی شاندار روایات کو کچلتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے ، وہ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی غیر دانشمندانہ کوشش ہے ۔ اس لئے کہ اس ملک کی برسہا برس سے مختلف ذات، مذاہب ، رنگ ونسل اور زبان سے ہم آہنگ رہ کر جینے کی شاندارروایت رہی ہے ۔جنھیں بڑے منظم تریقے سے توڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ 
افسوس کہ آزادی حاصل ہوئے اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی ملک حقیقی ترقی اور فلاح سے کوسوں دور ہے ۔ لا قانونیت کا اب تک خاتمہ نہیں ہو سکا ہے ۔ ملک کے اندر عام شہریوں کی عزت وآبرو محفوظ نہیں…..ہر طرف انتشار، بد امنی، تشدد اور افراتفری کا عالم ہے ۔ ماحول پر خوف اور عدم تحفظ کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ ملک میں لوگوں کو سر اٹھا کر چلنے اور عزت کے ساتھ جینے کی آزادی نہیں ہے ۔ عزت و وقار اور شرافت کا معیار بھی معیار سے اس قدر گر چکا ہے کہ حالت یہ ہے کہ قاتل، بدعنوان اور انسانی عظمت کو پامال کرنے والوں کو بڑے بڑے عہدوں سے نوازا جا رہا ہے اور قوم وملک کے لئے جان دینے والوں ، ملک کی حرمت و وقار کو اعلیٰ مقام دینے والوں کو ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے ۔ اس سے بڑا المیہ اس ملک کا کیا ہوگا کہ جس مہاتما گاندھی نے اپنی پوری زندگی ملک کی آزادی کے لئے وقف کر دی ، ان کے قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ، اس کے لئے مندر کی تعمیر ہو رہی ہے ۔ دوسری جانب انتہا یہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا اور با وقار نوبل انعام ،حاصل کرنے والی شخصیت امرتیہ سین ، جن پر پورے ملک کو ناز ہے، ان کی بھی تذلیل کرنے میں لو گ پیچھے نہیں ہیں ۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آج ہندوستان میں 29 فی صد یعنی مٹھی بھر فرقہ پرست اور منافرت بھری ذہنیت رکھنے والے لو گ 69 فی صد سیکولر، اتحاد واتفاق اور ملک کی پرانی روایات اور قدروں کو چاہنے والے لوگوں پر حاوی ہونے کی کوشش میں نہ صرف لگے ہوئے ہیں ، بلکہ اپنی غلط باتوں کو منوانے کے لئے ناجائز طاقت کا بھی استعمال کر رہے ہیں ۔ 
ملک کے ایسے ناگفتہ بہ حالات کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ ہمارا ملک ترقی کی بجائے تنزلی اور انحطاط کے راستوں کی جانب بہت تیزی سے گامزن ہے ، تو شائد غلط نہیں ہوگا ۔ اب بھی وقت ہے کہ منافرت ، فرقہ پرستی اور پرتشدّد حالات کو روکنے کی کوشش کی جائے اور پورے ملک میں اس کی شاندار گنگا جمنی تہذیب اور پرانی قدروں کو پامال ہونے سے بچاتے ہوئے ایک پر فضا اور پر امن ماحول تیار کیا جائے ۔ جس سے نہ صرف پورے ملک میں ایک خوشگوار ماحول تیار ہو اور آئے دن دنیا کے کئی اہم ممالک میں جس طرح تنقید کا سلسلہ چل رہا ہے ، ان پر قد غن بھی لگے ۔ لیکن ماضی قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے کہ اس وقت یہ مٹھی بھر لوگ کرسی اور کرنسی کے نشہ میں اس قدر چور ہیں کہ ان کے لئے غلط اور صحیح کا فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے