بلکہ ہر سیاسی پارٹی نے بابری مسجد کے ملبے پر کھڑے ہوکر اپنی سیاسی روٹیاں ہی سینکی ہیں جبکہ عدلیہ کو اسے انتہائی اہم مسئلہ سمجھ کر اس کی مسلسل سماعت کرکے جلد از جلد فیصلہ سنا دینا تھا مگر اس معاملے میں شائد عدلیہ بھی کسی خاص اشارے کی محتاج معلوم ہوتی ہے؟ملک کے موجودہ حالات میں جبکہ فسطائی طاقتوں کے حوصلے بلند ہیں زمینی سطح سے لیکر منصب اقتدار تک پر ان کا ہی تسلط ہے ان حالات میں یہ تصور کرنا بھی فضول ہے کہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آئیگا اور بابری مسجد دوبارہ تعمیر ہوگی۔اگر ایسا ہی ہے تو ہم بابری مسجد کی برسی کیوں مناتے ہیں ؟ جب قانون ہمارے ساتھ نہیں ہے اور ہوا کا رخ بھی ہمارے خلاف ہے نیز اب تو ہمیں اس ملک کا دو نمبر کا شہری کرنے کی بھی مبینہ طور پر باز گشت ہے ان حالات میں ہمیں اپنے مذہب کی طرف لوٹ کر کوئی نہ کوئی ایسا ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا کہ ملک کی یکجہتی بھی برقرار رہے اور ملک کو ایک مرتبہ پھر دو قومی نظریے کی طرف ڈھکیلنے والوں کے حوصلے بھی پست ہوں۔اس معاملے میں ہماری رائے اور مشورہ یہی ہے کہ ملک کے مسلمان مسجدوں کو آباد کرنا شروع کریں اگر ملک بھر کی مسجدیں آباد ہونے لگے گیں تو فسطائی طاقتوں کے حوصلے خود بخود پست ہونا شروع ہو جائینگے اسلئے کہ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان مسلمان بن کر اس دنیا میں رہا اس وقت تک بڑی بڑی طاقتوں کے حوصلے پست رہے مسلمان اپنے ایمان کی تمازت سے انکی ہر طرح کی شرانگیزیوں کو پگھلا کر رکھ دیتا تھا مگر جب سے مسلمان اپنا تعلق مسجدوں سے ختم کر دیا کام کے بجائے صرف نام کا مسلمان رہ گیا روحانیت سے دور ہوکر مادیت پرستی کی طرف مائل ہوگیا اللہ کا خوف دلوں سے نکل چکا ہے حرام اور حلال کی تمیز نہیں رہ گئی سود خوری کی عادت ہوگئی ہے دوسروں کا حق مارنے میں پہل کر نے لگا اسلئے آج مسلمان پریشان حال ہے دنیا بھر کے لوگوں کے عتاب کا شکار ہے وہ قومیں جو ہماری تہذیب و تمدن کی محتاج تھیں آج وہی ہمارے سروں پر مسلط ہیں اگر مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان بن جائے تو آج بھی دنیا اسکے قدموں میں ہو سکتی ہے مگر افسوس کہ مسلمان مسلمان نہیں رہا اسلئے وہ دوسروں کے قدموں پر گر رہا ہے اس سے مدد مانگ رہا ہے اس کی جی حضوری کر رہا ہے۔اور اسی لئے وہ گذشتہ ۲۲؍ سال سے ۶؍ دسمبر کو بابری مسجد کی برسی مناتا ہے ہماری معلومات کے مطابق برسی تو کسی انتقال کر گئے شخص کی منائی جاتی ہے جبکہ بابری مسجد کا انتقال نہیں ہوا ہے ایک مرتبہ جب کسی جگہ مسجد بن گئی تو قیامت تک وہ مسجد ہی رہے گی خواہ اس کا وجود مٹا کیوں نہ دیا جائے مگر وہ جگہ مسجد کی ہی رہے گی یعنی بابری مسجد کو زمیں بوس تو کر دیا گیا ہے مگر مسجد کی جگہ برقرار ہے اور قیامت تک برقرار رہے گی خواہ طاقت کے بل پر اس جگہ پر مندر ہی کیوں نہ بنا لیا جائے۔اسلئے بابری مسجد کی برسی منانے کے بجائے ہمیں مسجدوں کو آباد کرنا چاہیئے اگر مسجدیں آباد ہونے لگیں تو مسلمانوں کی ایمانی غیرت واپس آنے لگے گی اور ایک مرتبہ جب مسلمانوں میں ایمانی غیرت واپس آگئی تو دنیا اسکے قدموں پر جھکنے لگے گی تب بابری مسجد کو اس کے مقام پر از سر نو تعمیر کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا اسلئے مسلمان مسجدوں کو آباد کرے اللہ سے لو لگائے۔اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو راضی کرنے کی کوشش کرے جب اللہ اور اسکے رسولﷺ راضی ہوگئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو بابری مسجد کی بازیابی سے الگ نہیں کر سکتی۔اسلئے اس ۶؍ دسمبر کو دل سے یہ عہد کریں کہ ہم سچے پکے اور عملاً مسلمان بنیں گے اللہ کاخوف دلوں میں پیدا کرکے آنحضور ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہونگے اگر مسلمان ایسا بن گیا اور اپنے کردار و عمل کو اللہ کے رسولﷺ کے طریقے پر ڈھال لیا تو ساری بے بسی ، مجبوری اور محتاجگی کا خاتمہ ہوجائیگا اور ایمان کی تمازت سے باطل قوتیں اس قدر گھبرا جائنگی کہ وہ خود پشیمانی کے عالم میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی ضد سے دستبردار ہو جائینگے۔اسلئے آج کے حالات کے پیش نظر مسلمانوں کو دوسروں سے گھبرانے ،ڈرنے اور خوف میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے آپ کا محاسبہ کرکے ایمان کی طرف لوٹنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
جواب دیں