کہیں سے بھی قرآن عظیم کی تلاوت کی آواز نہیں آئی جبکہ سورۂ یٰسین اور سورۂ رحمان کے کیسیٹ جتنے بھی درکار ہوں ہر جگہ مل سکتے ہیں اور ملک میں ہر جگہ حافظ اور قاری موجود ہیں جو ایک آواز پر آسکتے تھے۔ ہم اپنے قارئین کرام سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ اپنے گھروں اور مسجدوں میں ایصال ثواب کے لئے تلاوت کریں۔ ہمارے پاس ایسے فون بھی آئے کہ وہ مسلمان تھے مگر کیسے مسلمان تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا اتنا کم ہے کہ ایک مسلمان نے ثابت کردیا کہ ملک سے محبت کرنے اور اس کی فکر اس وقت تک کرنے جب تک اس کی سانس چل رہی ہو، نے اپنے ملک کے ہر ہندو لیڈر سے کہلوا دیا کہ وہ اپنے ملک کے رتن تھے اور ان کی میّت کو سلام کرنے وہ موہن بھاگوت بھی اپنے کو آنے سے نہ روک سکے جو بھارت ورش میں ایک مسلمان کو برداشت کرنے کے بھی روادار نہیں ہیں جبکہ ان کی کوئی سرکاری اور سیاسی مجبوری بھی نہیں تھی؟
اس کے بعد گرداس پور کا مسئلہ ایسا ہے جس کا قرض باقی ہے۔ سب کو یاد ہوگا کہ 20 سال پہلے پنجاب میں خالصتان کا نعرہ جگہ جگہ گونج رہا تھا۔ اس وقت جتنی طاقت سے اسے دبایا گیا وہ آخری حد تھی کوئی گاؤں ایسا نہیں تھا جس میں دس بیس لڑکیاں بیوہ نہ ہوگئی ہوں؟ کچھ خبر نہیں اور کسی نے بتایا بھی نہیں کہ کتنے سو یا کتنے ہزار نوجوان سکھ مارے گئے اور اس مطالبہ اور نعرہ کو لاشوں کے نیچے دبا دیا گیا۔
اب دوسری نسل جوان ہوگئی ہے جنہوں نے گولیوں سے بھونا تھا وہ بوڑھے اور کمزور بھی ہوگئے ہیں۔ جن ہاتھوں میں اقتدار ہے وہ بھی دودھ کے دُھلے نہیں ہیں۔ پنجاب کی زمین جو سونا اگلتی اور خوشحالی بانٹتی تھی وہ بھی اب بوڑھی اور بانجھ ہوتی جارہی ہے۔ پہلے جب خالصتان کی تحریک اٹھی تھی اس وقت بھی پاکستان اسے ہوا دے رہا تھا اور اس کے بعد جب جب جموں کشمیر یا اور کہیں بھی بے چینی بڑھی ہے پاکستان نے اسے ہوا دی ہے اور یہی اب گرداس پور میں ہوا ہے۔ پنجاب پولیس کا بیان ہے کہ اس کے پاس ان کے پاکستان ہونے کے ثبوت ہیں۔ اگر ثبوت نہ بھی ہوتے تب بھی پاکستان کی سرحد سے ملے گرداس پور میں اور کہیں سے کون آسکتا ہے؟ اور اس میں بھی کسی کو شبہ نہیں ہے کہ یہ لشکر سے متعلق لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔
ہم اپنے ملک کی ایجنسیوں کو بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ لشکر ہو یا الدعوۃ یا حزب المجاہدین ہو یا جیش محمد ان سب دہشت گرد تنظیموں کے جو بھی سربراہ ہیں اُن کی شکلیں، اُن کے لباس، اُن کی تقریریں سب کی سب ایسی ہیں جیسی دین کے بڑے عالم کرتے رہے ہیں اور وہ حضرات جو حکمراں ہوئے یعنی مسٹر جناح سے لے کر آج تک نواز شریف اور زرداری تک ہر کوئی انگریز باپ اور عیسائی ماں کا بیٹا معلوم ہوتا ہے۔ مسٹر جناح نے پاکستان کا لالی پاپ دکھاکر جو مسلمانوں کو دین کے عالموں کے خلاف کھڑا کردیا تھا وہ جادو بہت دن ہوئے اُتر چکا ہے اور ہر مسلمان سمجھ چکا ہے کہ زندگی میں تو کوئی کچھ بھی کسی کو دے سکتا ہے لیکن مرنے کے بعد جہنم سے صرف عالم دین بچائیں گے اور جنت میں جانے کا راستہ انہیں کو معلوم ہے۔
ہم اپنی معذوری اور خانہ قید جیسی زندگی کی وجہ سے اب یہ نہیں بتا سکتے کہ مولانا یوسف بنّوری، مولانا بدرِ عالم میرٹھی، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا شیر محمد سندھی، مولانا مفتی محمد نعیم لدھیانوی اور مولانا شیر محمد جالندھری کے بعد اب کون کون ہیں جو وزیر اعظم اور صدر کو بھی تنقید کا نشانہ بنائیں اور کسی کی ہمت نہ ہو کہ وہ آنکھ اُٹھا سکے۔ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ حافظ سعید ہزاروں مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوکر نواز شریف کو دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ مودی صاحب کی تاج پوشی کے جشن میں شریک نہ ہوں اور اگر ہوئے تو۔۔۔ اور یہی تو ہے جو دریائے راوی پارکر کے گرداس پور میں داخل ہوتے ہیں اور ہر طرف گولیاں برساتے ہوئے اور لاشیں گراتے ہوئے تھانے میں گھس جاتے ہیں اور وہاں مرکر جہنم میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔
ہم اپنے ہندو بھائیوں سے معافی کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں کہ انہیں تو یہ بتایا جاتا ہے کہ جو کوئی مرے گا وہ اپنے کرموں کے اعتبار سے دوسرا جنم لے گا۔ اُن کے سورگ اور نرک کی زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ مسلمان کو ہر عالم ہر کتاب حد یہ کہ اللہ کی کتاب قرآن عظیم اور حضرت محمدؐ کی چوتھائی صدی کی تعلیم یہ بتاتی ہے کہ کیا کیا کروگے کہ اس جنت میں جاؤگے جہاں شاہوں اور مہاراجاؤں سے زیادہ عالیشان زندگی ہوگی اور کیا کہو اور کروگے جس کی سزا میں آگ میں سیکڑوں برس جلوگے اور پھر جلتے رہو گے جیسی آگ تم نے دیکھی بھی نہ ہوگی اور نہ اس کی تکلیف کا تم تصور کرسکتے ہو۔
دہشت گردوں کے تمام سرغنوں نے کم علم اور جاہل مسلمانوں کو جنت میں جانے اور جہنم سے بچنے کا آسان راستہ یہ بتانا اپنا مشن بنا لیا ہے کہ ہندوستان میں گولیاں برساتے ہوئے گھسنا جہاد ہے اور گولی سے مرتے ہی جنت میں جاؤگے جس کے دروازے پر حسین ترین حوریں تمہیں گود میں لینے کے لئے بنی سنوری اور سجی ہوئی کھڑی ہیں وہ تمہیں لے کر عالیشان محل میں چلی جائیں گی۔ حکومت کے سارے بڑے چھوٹے بے دین ہیں صورت سے بھی اور سیرت سے بھی۔ ان دہشت گردوں کو جدید ترین اسلحہ اور گولیاں اسی طرح فوج سے ملتی ہیں جیسے ہمارے ملک میں نکسلیوں کو اپنی فوج سے ملتی ہیں۔ فوج میں بھی جتنے کم علم ہیں وہ پوری طرح ان کے ساتھ ہیں۔
اس طرح کے حادثے ہر اس موقع پر ہوئے اور ہوتے رہیں گے جب جب ہندوستان پاکستان آپس کے تعلقات بہتر بنانے کے لئے پروگرام بنائیں گے۔ اب دونوں کو کوئی ایک فیصلہ کرنا چاہئے کہ یا تو چاہے جتنے فدائی آئیں اور تباہی مچائیں ان کو کتوں کی طرح مارا بھی جائے گا اور مذاکرات بھی ہوں گے یا یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ جیسا کچھ بھی تعلق ہے وہ سب ختم کرلیا جائے گا۔ نہ سمجھوتہ، نہ بس، نہ سفارت اور نہ تجارت۔ یہ روز کا گڑیا گڈے کا کھیل کہ آؤ سہیلی کھیلیں اور دوسرے دن ایک دوسرے کی صورت پر لعنت یہ بہت چھوٹے لوگوں کی باتیں ہیں جبکہ مرحوم صدر عبدالکلام اپنے ملک کو دنیا کے تین بڑوں میں ایک بنانا چاہتے تھے۔
ہماری خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی قابل فخر نہیں ہے اسے تعصب کی عینک اُتارکر یہ دیکھنا چاہئے کہ جن لڑکوں نے وزیر اعلیٰ بادل کے آنے پر خالصتان زندہ باد کے نعرے لگائے جنہیں پولیس ان کا منھ دباکر اور گھسیٹ کر باہر لے گئی ان کا کسی بھی طرح کا تعلق لشکر کے فدائیوں سے تو نہیں ہے؟ یہ بات نہ بھولنا چاہئے کہ تقسیم کے وقت مسٹر جناح نے کہا تھا کہ سکھ لیڈروں سے میرے بہت اچھے تعلقات ہیں اور میں انہیں منا لوں گا۔ بھنڈران والا کی تحریک میں بھی پاکستان مددگار تھا اس لئے آج بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ کام وہی کرسکتے ہیں جن کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ رہے ہم، تو ہمارے پاس دعا کے سوا کچھ اور نہیں۔
جواب دیں