سوال یہ ہے کہ وہ اگرپوری پارٹی کے تنہا مالک بن جاتے ہیں اور تمام فیصلے اپنی مرضی سے کرنے لگتے ہیں تو کیا وہ مغل بادشاہ ہمایوں کی طرح دوبارہ ہندوستان کے اقتدار پر قابض ہوجائیں گے یا پھر وہ بہادر شاہ ظفرؔ کی طرح آخری تاجدار ثابت ہونگے؟ پارلیمنٹ کے بجٹ سشن میں جب کہ راہل کی کانگریس کو ضرورت
تھی وہ ناراض ہوکر گھر چھوڑ گئے۔ وہ کہاں ہیں؟ ہندستان میں ہیں یابیرون ملک میں؟اس پرقیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔کبھی کہا جارہا ہے کہ وہ اٹلی میں ہیں تو کبھی یہ سننے میں آرہا ہے کہ وہ تھائی لینڈ میں ہیں۔ کانگریس کے کسی لیڈر نے کہا کہ وہ اترا کھنڈ میں ہیں۔اس وقت کانگریس کے چھوٹے سے بڑے تمام لیڈرراہل گاندھی کی چھٹی کے وقت پرسوال اٹھا رہیں۔بی جے پی کے لیڈربجٹ سیشن کے دوران راہل گاندھی کے چھٹی پرجانے کولے کرجم کر چٹکی لے رہے ہیں۔کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ نے راہل گاندھی کی چھٹی کے وقت پرسوال اٹھایا تھا۔اگرچہ اس کے لئے پارٹی کی طرف سے ان کو جھڑ کی بھی ملی۔اس درمیان یہ خبر آئی کہ راہل گاندھی عنقریب دہلی واپس آجائیں گے کیونکہ سونیا گاندھی نے ان کے مطالبے کو تسلیم کرلیا ہے اور وہ اس بات کے لئے تیار ہوگئی ہیں کہ راہل کو کانگریس کی کمان سونپ دی جائے۔اسی کے ساتھ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ راہل گاندھی یکم اپریل سے اے آئی سی سی کے اجلاس سے پہلے ہی کانگریس کی قومی مجلس عاملہ میں تبدیلی کرسکتے ہیں۔بہت سے لوگوں کو مجلس عاملہ سے باہر کیاجاسکتا ہے اور راہل گاندھی کی ٹیم میں کئی نئے چہروں کو جگہ مل سکتی ہے۔پلان یہ ہے بھی ہے کہ بیشتر پرانے لوگوں کی چھٹی کی جائے گی اور راہل اپنی مرضی کے لوگوں کو پارٹی میں اہم ذمہ داریاں سونپیں گے۔ قومی جنرل سکریٹری کی دوڑ میں پی سی چاکو سب سے آگے نظر آرہے ہیں، انہیں جلد ہی یہ ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے۔ اسی بدلاؤ کا حصہ ہے بعض ریاستوں میں کانگریس کے صدور کی تبدیلی۔خبریں یہ تھیں کہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے درمیان کچھ معاملات پرتنازع پیداہوگیا تھا۔اگرچہ کانگریس کی طرف سے کہا گیا کہ راہل نے غورو فکر اور پارٹی کے مستقبل پر خود احتسابی کے لئے چھٹی لی ہے، حالانکہ ذرائع کے مطابق پارلیمانی انتخابات میں شکست کا ٹھیکرا ان پر پھوڑنے سے بھی راہل گاندھی ناراض ہیں۔راہل گاندھی پارٹی پر کنٹرول چاہتے ہیں۔کیونکہ ابھی ان کی چلتی ہی نہیں۔بڑے لیڈران ان کے کام میں رکاوٹ پیدا کردیتے ہیں ،راہل کی ٹیم چاہتی ہے کہ ناکامیوں کا ٹھیکر اپھوڑنا ہے تو کم سے کم ان کے فیصلے کو بھی تسلیم کیاجانا چاہئے۔فی الحال راہل کو صدر بنانے سے بڑے لیڈر روک رہے ہیں اور ان کے ناراض ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔ بات یہ ہے کہ کانگریس کے سینئر لیڈران کو لگتا ہے کہ راہل گاندھی اب بھی سیاسی طور پر بالغ نہیں ہوئے ہیں اور ان کے شعور میں پختگی نہیں آئی ہے۔
کیا پرینکا بھی سرگرم سیاست میں آئینگی؟
لوک سبھا انتخابات میں شکست کے بعد ہی یہ مطالبہ کانگریس کے اندر زور پکڑنے لگا تھا کہ راہل کے بجائے پرینکا کو پارٹی کی کمان سونپی جائے، کیونکہ راہل فیل ہوچکے ہیں اور کوئی کرشمہ نہیں کر پار ہے ہیں۔ ان دنوں کانگریس دفتر کے گلیاروں میں یہ خبر بھی گرم ہے کہ پرینکا گاندھی کوپارٹی کاقومی جنرل سکریٹری بنا یاجاسکتا ہے، حالانکہ اس کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔راہل گاندھی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر پرینکا پارٹی میں سرگرم ہوتی ہیں تو یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ وہ ایک بھائی کے طور پر ان کی مدد کریں گے مگر وہ بہن پر سیاست میں آنے کے لئے دباؤ نہیں دیں گے ۔دراصل راہل گزشتہ تین چارماہ سے پرینکا گاندھی کوپارٹی میں لانے کی وکالت کررہے تھے۔ راہل گاندھی خود کو پارٹی صدرتو پرینکا گاندھی کوپارٹی کی طرف سے اہم چہر ہ بناناچاہتے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ راہل حکومت کے بجائے تنظیم میں کام کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں، مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ جب وہ اپنے کام میں ماں کی مداخلت برداشت نہیں کرتے تو بہن کی کیسے
برداشت کرینگے۔
ریاستی سربراہوں کی تبدیلی
راہل گاندھی کی ضد کے آگے پارٹی نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور نہ صرف انھیں قومی صدر بنانے کی تیاری ہے بلکہ ان کی پسند کے لوگوں کو ریاستوں میں بھی پارٹی کی ذمہ داریاں سونپی جارہی ہیں۔حالانکہ پارٹی میں بڑے بدلاؤ کی سگبگاہٹ اسی وقت شروع ہوگئی تھی جب کہ کانگریس کو لوک سبھا اور بعض اسمبلیوں کے الیکشن میں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کانگریس کے تنظیمی ڈھانچہ میں وسیع پیمانے پر رد وبدل کرتے ہوئے ،کانگریس نے پارٹی کی کئی ریاستی شاخوں کے نئے سر براہ مقرر کر دیے ہیں۔جو ردو بدل کی گئی ہے وہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کے آئندہ اجلاس میں راہل گاندھی کو کانگریس صدر کے عہدے پر ترقی دے دی جائے گی۔ تنظیمی رد وبدل کے پہلے مرحلہ میں جو تبدیلی کی گئی اس میں اجے ماکن کو دہلی پردیش کانگریس کا صدر مقرر کیا گیا، جبکہ مہاراشٹر کانگریس کی کمان مانک راؤ ٹھاکرے سے لے کر اشوک چوان کو،جموں و کشمیر کانگریس کا صدر سیف الدین سوز کی جگہ غلام احمد میر کو ، گجرات میں ارجن موڈھ واڈیہ کی جگہ بھرت سنگھ سولنکی کو اور پونالا ل کشمیہ کی جگہ اتم ریڈی کو تلنگانہ کانگریس کمیٹی کا صدر مقرر کیا گیا ہے۔اے آئی سی سی سکریتری سنجے نروپم کو ممبئی علاقائی کانگریس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا ہے۔کافی طویل عرصہ سے ریاستی کانگریس اکائیوں میں تبدیلی محسوس کی جارہی تھی۔ خاص طور پرراہل ان پانچوں ریاستوں میں پارٹی کے نئے سربراہ چاہتے تھے۔ایسے اشارے ملے ہیں کہ راہل کو گجرات اور مہاراشٹر قیادت میں تبدیلی کرانے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔یہ تبدیلیاں ایسے وقت میں کی گئی ہیں جب راہل گاندھی بجٹ اجلاس کے موقع پر دو ہفتہ کے لیے تعطیلات پر چلے گئے۔ حالانکہ یہ تعطیلات پر جانا نہیں تھا بلکہ احتجاج تھا۔ اس طرح وہ پارٹی میں بڑے بدلاؤ اور خود کو صدر بنانے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے۔پارٹی کی ریاستی اکائیوں کا صدر انھیں لوگوں کو بنایا گیا ہے جو راہل کے قریبی ہیں۔ حال ہی میں دلی اسمبلی الیکشن میں اجے ماکن کی قیادت میں ہی پارٹی کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے مگر انھیں راہل سے قربت کا انعام ملا۔ اسی طرح جموں وکشمیر کے پارٹی سربراہ غلام احمد میر پر ریپ کا الزام ہے پھر بھی انھیں یہ عہدہ دے دیا گیا۔
پارٹی جنرل سکریٹری جناردن دویدی نے بتایا کہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے پانچ نئے ریاستی صدر اور ایک علاقائی کانگریس کمیٹی صدر کی تقرری کی ہے۔ اس کے علاوہ، ممبر اسمبلی مللو بھاٹی کو تلنگانہ کے لئے ایگزیکٹو چیئرمین کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی نے اے آئی سی سی جنرل سکریٹری بی ہری پرساد اور اے آئی سی سی کے سیکریٹری معین الحق کو جموں کشمیر میں کانگریس پارٹی اراکین کا لیڈر منتخب کرنے کے لئے ہونے والی میٹنگ کا مبصر مقرر کیا ہے۔ذرائع کے مطابق عنقریب پنجاب کانگریس کے سربراہ پرتاپ سنگھ باجوا کوہٹایا جاسکتا ہے ان کی جگہ سابق وزیر لال سنگھ آسکتے ہیں۔
کانگریس میں ٹوٹ کا خطرہ
حال ہی میں پارٹی نے تمام ریاستوں سے مشورے مانگے تھے کہ کس طرح سے پارٹی کو مضبوط کیا جائے ،اس پر بیشتر ریاستی اکائیوں نے پارٹی میں کسی بڑی تبدیلی سے بچنے کا مشورہ دیا ہے اور سب سے زیادہ زور پارٹی کے اندرونی اختلافات کو دور کرنے پر دیا
ہے۔ کہا گیا ہے کہ پارٹی متحد ہو کر اجتماعی قیادت میں آگے بڑھے۔ذرائع کے مطابق، زیادہ تر یونٹیں راہل گاندھی کے کامراج پلان کو عمل میں لا کر مکمل نیا تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی سوچ سے خوف زدہ ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اس وقت جو لوگ پارٹی میں اہم عہدوں پر ہیں ان کی پوزیشن خطرے میں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پارٹی اس وقت بڑی تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر ایسی کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو نتائج مثبت نہیں ہوں گے۔ ریاستی اکائیوں نے اعلی کمان کو یہ جتا دیا ہے کہ پرانے لوگوں کو پوری طرح کنارے کئے جانے سے نئے لوگ نہ تو تنظیم کھڑی کر پائیں گے، بلکہ پارٹی میں ٹوٹ کاخطرہ بھی ہو سکتا ہے۔گویا ان لیڈروں کی طرف سے یہ پارٹی اعلیٰ کمان کو کھلی دھمکی ہے۔
کانگریس پھر لوٹے گی؟
کانگریس ایک بار پھر اقتدار میں لوٹے گی یا تاریخ کا حصہ بن جائے گی؟ راہل گاندھی پارٹی میں نئی جان ڈالنے میں کامیاب ہونگے یا آخری مغل تاجداربہادر شاہ ظفر کی طرح گاندھی سلطنت کے آخری شہزادے ثابت ہونگے؟ ان سوالوں پر قیاس آرائیاں جاری ہیں اور ان کا جواب مستقبل کے دامن میں ہے مگر کانگریس کے سینئر لیڈر اے کے انٹونی نے امید ظاہر کی ہے کہ راہل نئی توانائی کے ساتھ مؤثر طریقے سے قیادت فراہم کریں گے۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن انٹونی کے مطابق انہیں یقین ہے کہ راہل گاندھی پارٹی کو مضبوط کرنے کے قابل ہیں۔ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی پھر سے واپسی کرے گی۔بہرحال یہ تو نہیں معلوم کہ انٹونی کی خوش گمانی کس قدر درست ثابت ہوگی مگر اب تک راہل گاندھی نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس سے ان کی سیاسی بالغ نظری کا ثبوت ملے۔ اگر انھوں نے پارٹی کی ٹھیک طریقے سے قیادت کی ہوتی تو اس کا جو حشر ہوا وہ کبھی نہیں ہوتا۔ ان کے قریبی لوگ مانتے ہیں کہ راہل کسی کی نہیں سنتے اور دوسروں کے تجربوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ وہ بچوں کی طرح ضد کرتے ہیں اور اس کا ثبوت ہے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران ان کا چھٹی پر چلے جانا۔
جواب دیں