کیا دلی، جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر میں بھی چلے گا مودی کا جادو؟

فی الحال اس کی نظر ان ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات پر ہے جو عنقریب ہونے والے ہیں۔ ان میں جھارکنڈ اور جموں و کشمیر ہیں جہاں اب الیکشن کی سگبگاہٹ شروع ہوچکی ہے۔دلی میں کبھی بھی الیکشن کا اعلان ہوسکتا ہے۔بی جے پی کے پاس اب تک کوئی ایسا چمتکاری لیڈر نہیں تھا جو اپنے دم پر کوئی الیکشن جتانے کی صلاحیت رکھتا ہو مگر اب اسے نریندر مودی کی صورت میں ایک لیڈر مل گیا ہے جس کا فی الحال کریز ہے۔ حالانکہ اسے خوف ہے کہ اگر انتخابات میں تاخیر ہوئی تو کہیں مودی کا وہ جاود برقرار نہ رہے جوفی الحال دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دلی میں اب وہ الیکشن کے لئے تیار نظر آتی ہے حالانکہ ابھی چند دن قبل تک اس کی کوشش تھی کہ جوڑ توڑ سے یہاں سرکار بنالے۔ ادھر جموں و کشمیر میں سیلاب کے بعدحالات اچھے نہیں ہیں اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی الیکشن کرانا مناسب نہیں ہوگا مگر بی جے پی کو لگتا ہے جلد الیکشن سے اس کا فائدہ ہوگا۔ جھارکنڈ میں جھارکنڈ مکتی مورچہ کی سرکار ہے جو کانگریس کی حمایت سے چل رہی ہے ۔ 
الیکشن کمیشن نے جو الیکشن شڈول کا اعلان کیا ہے اس کے مطابق جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر میں پانچ مرحلوں میں انتخابات ہونے ہیں۔ ۲۵نومبر کو پہلے مرحلے کا الیکشن ہوگا جبکہ باقی انتخابات ۲،۹، ۱۴ اور ۲۰ دسمبر کو ہونگے۔۲۳دسمبر کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اوررزلٹ کا اعلان ہوگا۔ 
جموں وکشمیر میں پہلا ہندو وزیر اعلیٰ بنے گا؟
جمون وکشمیر بی جے پی کے لئے اس لئے بھی اہم ریاست ہے کہ اس نے اعلان کررکھا ہے کہ وہ آئین سے دفعہ۳۷۰ حذف کرے گی اور جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کا درجہ ختم کردیا جائے گا۔ یہ معاملہ بی جے پی کے ایجنڈے میں اس کی ابتدائے آفرینش سے ہے ۔ آج ملک کا اقتدار اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ یہاں زیادہ سے زیادہ سیٹیں پانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ اسی لئے پارٹی صدر امت شاہ نے جموں میں اعلان کیا ہے کہ ریاست میں ہندو وزیر اعلیٰ کیوں نہیں ہوسکتا؟ گویا یہاں ہندو وزیر اعلیٰ کے نام پر وہ ہندووں کا زیادہ سے زیادہ ووٹ پانا چاہتی ہے ۔ یوں تو یہاں کے ہندو ووٹر عام طور پر بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں مگر ایک طبقہ کانگریس کی بھی حمایت کرتا ہے جسے وہ اپنی طرف پھیرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم نریندرمودی بھی ریاست کے دورے پر گئے اور سیلاب زدگان کے ساتھ دیوالی منائی ۔ انھوں نے تباہ حال مکانات کی تعمیر کے لئے ایک خطیر امدادی رقم کا اعلان کیا اور اسپتالوں کی فوری مرمت کے لئے بھی امداد کا اعلان کیا۔ظاہر ہے یہ ان کشمیریوں کے دل جیتنے کی طرف ایک قدم ہے جو خود کو بھارت اور پاکستان کے بیچ معلق پاتے ہیں اور جنھیں بہکانے کی پاکستان کی طرف سے مسلسل کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے مزید امداد کا مطالبہ کیا ہے اور مرکزی حکومت کی طرف سی دی گئی رقم کو ناکافی بتایا ہے۔اسے سیاسی تناظر میں بھی دیکھنے کی کوشش ہورہی ہے اور ایس الگت اہے کہ دونوں اپنے اپنے سیاسی مفادات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ عام کشمیری مسلمانوں سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ بی جے پی کو ووٹ کرینگے مگر مودی جس طرح سے یہاں گئے اور لوگوں سے ملے وہ ایک خوش آئند بات ضرورہے۔ یہاں بی جے پی کی سرکار بنے گی یا نہیں اور اگر بنے گی تو وزیر اعلیٰ ہندو ہوگا یا غیر ہندو یہ سوال اپنی جگہ پر مگراس کی جیت اس میں بھی ہے کہ وہ اپنی سیٹوں میں اضافہ کردے۔ موجودہ اسمبلی میں بی جے پی کے پاس گیارہ سیٹیں ہیں جبکہ اسے ۲۲.۱۵فیصد حاصل ہوئے تھے۔ موجودہ سرکار نیشنل کانفرنس کی ہے جس کے پاس ۸۷رکنی اسمبلی میں صرف ۲۸ سیٹیں ہیں اور کانگریس کی مدد سے سرکار چل رہی ہے۔ کانگریس بھی سرکار میں شامل ہے اور اس کے ایک منتری شیام لعل نے حال ہی میں استعفیٰ دیا ہے۔ کانگریس کے پاس ۱۷سیٹیں ہیں اور گزشتہ اسمبلی الیکشن میں اسے ۲۰فیصد کے آس پاس ووٹ ملے تھے۔ اصل اپوزیشن پی ڈی پی ہے جس کے پاس ۲۱سیٹیں ہیں حالانکہ ووٹ صرف ۵۱.۱۷فیصد ہی اسے حاصل ہوئے تھے۔ اسمبلی کی مدت کار ختم ہونے والی ہے اور الیکشن کا وقت قریب آچکا ہے۔ وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کا کہنا تھا کہ فی الحال حالات ایسے نہیں ہیں کہ الیکشن کرایا جائے مگر الیکشن کمیشن نے ریاست کا دورہ کیا اور الیکشن کی تاریخوں کا اعلان کردیا۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس دونوں کو لگتا ہے کہ ابھی الیکشن کرانا خود ان کے حق میں نہیں ہے اور عوام کا موڈ ان کے خلاف ہے۔ چند مہینہ قبل جو لوک سبھا الیکشن ہوا ہے اس میں بھی ان دونوں پارٹیوں کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور سیلاب کے دوران جس طرح سے عمر عبداللہ سرکار غیر حاضر نظر آئی اس نے عوام کو سرکار سے بیزار کردیا ہے۔ جہاں تک کانگریس کی بات ہے تو وہ ملکی سطح پر ان دنوں شکست کا سامنا کررہی ہے اور اس کے برے دن چل رہے ہیں لہٰذا اس کی کامیابی کے امکانات ویسے بھی کم ہی ہیں۔ 
جھارکھنڈ میں غیرآدیباسی سیاست کی جیت ہوگی؟ 
جھارکھنڈ ان ریاستوں میں سے ایک ہے جس کا وجود زیادہ پرانا نہیں ہے مگر یہاں بی جے پی کی حیثیت مضبوط رہی ہے اور وہ کنگ یا کنگ میکر کے رول میں رہی ہے۔ جھارکھنڈ کو اس لئے قائم کیا گیا تھاکہ یہاں آدیباسیوں کی ترقی ہوسکے اور بہار کے اس پسماندہ ترین علاقے کو آگے بڑھایا جاسکے مگر اب تک یہاں اس رخ پر کوئی کام نہیں ہوا۔ آدیباسی وزیر اعلیٰ تو بنتے رہے مگر عام آدیباسی وہیں پر رہا جہاں تھا۔ یہ ریاست قدرتی اور معدنیاتی وسائل سے بھری ہوئی ہے اور یہاں سے نکلنے والاکوئلہ پورے ملک کو فیض پہنچاتا ہے مگر خود جھارکھنڈ آج تک ملک کی پسماندہ ریاستوں میں شامل ہے۔ یہاں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی سرکار ہے جو کانگریس کی مدد سے چل رہی ہے مگر بی جے پی کا پورا زور ہے کہ مستقبل قریب میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرے۔ وہ یہاں بھی مودی لہر کا استعمال کرنے والی ہے اور عوام کو ترقی کا خواب دکھانے والی ہے۔ یہاں موجودہ اسمبلی میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے پاس ۱۸ ممبران ہیں جب کہ اسے ووٹ ۷۹.۱۵فیصد ملے تھے۔ بی جے پی نے ۲۴ فیصد سے زیادہ ووٹ پائے تھے اور اسے بھی اتنی ہی سیٹیں ملی تھیں۔ کانگریس کو گزشتہ اسمبلی الیکشن میں ۴۳.۲۱فیصد ووٹ ملے تھے اور ۱۴سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ جھارکھنڈ وکاس مورچہ کو ۱۱ سیٹیں ملی تھیں اور آزاد و دوسری پارٹیوں کو ۲۰ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ ان سیٹوں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں کوئی بھی پارٹی اکثریت نہیں لاسکی تھی اور یہی سبب ہے کہ یہاں آج تک کوئی مضبوط سرکار نہیں بن پائی ہے۔ جب سے یہ ریاست وجود میں آئی ہے یہی سلسلہ چل رہا ہے اور تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ حالات جوں کے توں ہیں ۔ موجودہ سیاسی حالات سے عوام بھی عاجز آچکے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی ہی نہیں بلکہ آرایس ایس کے تمام بازو حرکت میں آچکے ہیں اور کسی بھی حال میں جھارکھنڈ کا میدان جیتنا چاہتے ہیں۔ یہاں عام طور پر سیاست کا مرکز آدیباسی ووٹ بینک رہا ہے مگر اب بی جے پی کی کوشش ہے کہ غیرآدیباسیوں کو متحد کیا جائے اور کسی غیر آدیباسی کے ہاتھ میں ریاست کی کمان سونپی جائے ۔ کانگریس کی یہاں بھی باقی ملک کی طرح ہی کچھ اچھی حالت نہیں ہے۔ سبودھ کانت سہائے یہاں کانگریس کا ایک جانا مانا نام ہے اور ریاست میں پارٹی کا چہرہ بھی کہا جاسکتا ہے مگر ان کا نام کئی گھوٹالوں میں آرہا ہے اور کانگریس پہلے ہی سے ہتھیار ڈالتی نظر آرہی ہے۔ 
دلی میں دکھے گا مودی کا دم؟
دلی میں جیسے ہی اسمبلی تحلیل ہونے کی خبر آئی الیکشن کی تیاریاں بھی شروع ہوگئیں۔ یہاں بی جے پی کا مقابلہ عام آدمی پارٹی سے ہے اور کانگریس میدان سے غائب ہے۔ بی جے پی کو مودی کے جادو سے امید ہے مگر اسی کے ساتھ اسے ڈر بھی ہے کہ کہیں یہاں اروند کجریوال اس کا وجے رتھ نہ روک دیں۔ یہاں ہریانہ اور مہاراشٹر سے الگ حالات ہیں اور شہر میں پڑھے لکھے سمجھدار ووٹروں کی تعداد زیادہہے۔ دوسری طرف عام آدمی پارٹی پر بھی مودی کا خوف طاری ہے کہ کہیں مودی کا جادو یہاں بھی نہ چل جائے۔ حالانکہ وہ اپنی ۴۹دن کی سرکار کے کام گنوارہی ہے اور اسے مودی کے سودن دے بہتر بتا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت مودی کاجاود سر چڑھ کر بول رہا ہے اور میڈیا سے لے کر عوامی محفلوں تک وہ چھائے ہوئے ہیں۔اس سے تمام مودی مخالفین پر لرزہ طاری ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ مودی کا یہ دبدبہ زیادہ دن قائم نہیں رہے گا مگر فی الحال الیکشن سے خطرہ ہے۔
دلی میں اروند کجریوال کو اس بار مسلم ووٹرس سے امیدیں ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ اب کانگریس کا یہ روایتی ووٹ ’’آپ‘‘ کی جانب شفٹ ہوجائے گا۔ ودھان سبھا الیکشن میں مسلمانوں نے کانگریس کو ووٹ دیا تھا جب کہ لوک سبھا میں ان کے ووٹ ’’آپ‘‘ کو ملے تھے۔اب ایک بار پھر مسلم ووٹ ان کے ساتھ جاسکتا ہے اور کانگریس وہ سیٹیں بھی ہار سکتی ہے جو اس نے پچھلی بار جیتی تھیں۔

«
»

اْداسی(ڈپریشن) سے نجات کے طریقے!

اسلام کی موجودہ تصویر بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں اسماعیلی مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے