کیا دلت پورا کریں گے سنگھ کا مقصد

مایا وتی نے سماج وادی کی اتر پردیش میں سرکار بننے کے موقع پر کہا تھا کہ اب صوبے میں غنڈہ گردی بڑھے گی یوپی کے عوام انہیں یاد کریں گے انہوں نے اپنی ہار کی وجہ مسلمانوں کا ووٹ نہ دینا بتایا تھا اس کے بعد ہی یو پی میں فسادات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا اس سلسلہ کی آخری کڑی مظفر نگر فساد کی شکل میں سامنے آئی سابق کی طرح میرٹھ اور دوسرے مقامات کے فساد میں دلتوں خاص طور پر بالمکیوں کو استعمال کیا گیا دہلی کے ترلو ک پوری میں بھی بالمکیوں نے جھگڑے کے بیچ میں کود کر پڑوسیوں کی لڑائی کو فرقہ وارانہ فساد کی شکل میں تبدیل کردیا ۔ان کی وجہ سے یہ لڑائی چار بلاکوں میں پھیل گئی ۔

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ مظفر نگر کا فساد عین پارلیمنٹ انتخاب سے پہلے ہوا مظفر نگر ضلع میں بی ایس پی اور سماج وادی کے برابر برابر ایم ایل اے ہیں بی جے پی کا صرف ایک ایم ایل اے تھا یہاں کی پارلیمنٹ کی سیٹ بی ایس پی کے پاس تھی اس جھگڑے کو بھڑکانے میں جہاں ایک طرف بی جے پی کا ایم ایل اے پیش پیش تھا وہیں بی ایس پی کا ایم پی بھی پیچھے نہیں رہا ۔نتیجہ کے طور پر ان لوگوں کے درمیان فساد ہوا جن کے درمیان 1947میں بھی لڑائی نہیں ہوئی تھی یعنی مسلم اور جاٹ ۔ جو کبھی دو بھائیوں کی طرح رہتے تھے اور ان کے گاؤں ، کھیت کھلیان بھی ملے ہوئے ہیں ۔

سنگھ نے جاٹوں کو لڑانے کے بعد مسلم سکھ دنگے کرانے کی کوشش کی اس میں حیدر آباد اور سہارنپور کے دنگوں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے ۔ آسام میں بنگلہ دیشیوں کے نام پر پہلے ہی کافی خون خرابہ ہو چکا تھا اس فرقہ واریت کا بھاجپا کو پارلیمنٹ میں فائدہ ضرور ملا ہوگا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اتر پردیش میں مایا وتی کو ایک بھی سیٹ کیوں نہیں ملی ؟کیا اپنے اثر والی بام سیف کے ذریعہ مایا وتی نے دلتوں سے بی جے پی ک ووٹ ڈالنے کو کہا تھا یا دلتوں میں ان کی پکڑ کم ہئی ہے ؟ یا انہوں نے اتر پردیش میں اپنی سرکار بنوانے کی امید پر مرکز میں بھاجپا کی سرکار بنوانے کا فیصلہ کیا ؟

ترلوک پوری کا جھگڑا ایسے وقت ہوا ہے جبکہ دہلی میں الیکشن ہو یا بھاجپا کی سرکار بنے یہ کشمکش چل رہی تھی ۔ہو سکتا ہے بی جے پی اس کے ذریعہ دہلی کے الیکشن میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ۔یہ بھی ہو سکتا ہے بی جے پی دلت مسلمانوں کو لڑانے کے فارمولہ کا ٹیسٹ کرنا چاہتی ہو کیونکہ ابھی تک فسادات میں بالمکیوں کو پیسے اور شراب کے بل پر تو استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن سیدھے طور پر دلت مسلم فساد کبھی نہیں ہوا ۔ترلوک پوری میں رہنے والے زیادہ تر یا تو اترپردیش کے یا پھر پروانچل کے ہیں اگر یہ فارمولہ کامیاب ہوتا ہوا نظر آتا تو نند نگری و دہلی کے دیگر علاقوں میں اس طرح کے واقعات رو نما ہو سکتے تھے ۔اس سے دہلی میں تو فائد ہوتا ہی ساتھ ہی اس کا فائدہ یو پی بہار میں بھی اٹھانے کی کوشش کی جاتی ۔نقصان جس کا ہوتا وہ جانے فائدہ سیاسی جماعتوں کو ہی ملتا ۔
دہلی میں میڈیا اور سماج نے اس کو قبول نہیں کیا چاروں طرف سے مذمت ہونے لگی مرکزی حکومت پر بھی سوال اٹھنے لگے پولس کی اہلیت اور نا اہلیت کو بھی آنکنے کی کوشش کی جانے لگی اسی کے چلتے بڑے نقصان سے یہ علاقہ اور اس علاقہ کے لگ بچ گئے ۔ پھر بھی حالات قابو میں کرنے میں تین دن لگے یا یوں کہا جائے کہ تین دن تک کچھ ہونے یا نہ ہونے کا انتظار کیا گیا ۔یہ ریزرو سیٹ ہے یہاں سے عام آدمی پارٹی کا ایم ایل اے کامیاب ہوا ہے و جھگڑے کو روکنے کے لئے آگے نہیں آیا ممبر پارلیمنٹ بھاجپا کا ہے جس نے سنگھ کی زبان ہی بولی اور مسلمانوں کو بھی مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی ۔

یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ امبیڈ کر کو پارلیمنٹ مسلمانوں نے اپنے کوٹہ سے بنگال سے چن کر بھیجا تھا انہیں کسی دلت نے نہیں چنا تھا سنگھ آدی واسیوں ، دلتوں اور پچھڑوں کو اپنے ساتھ ملا کرت رکھنا چاہتا ہے کیونکہ ان کی تعداد اور مرنے کھپنے کی طاقت ہی سنگھ کے مقصد کو کامیاب کر سکتی ہے بدھوں پر پیار نچھاور کرنا اور انہیں ساتھ لانے کی کوشش بھی اسی منصوبہ کی کڑی ہے ۔ سنگھ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے ۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور اب ہریانہ و مہاراشٹر میں بی جے پی کی کامیابی نے دلتوں کی شرکت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ دلتوں کا کوئی بڑا لیڈر اب سنگھ کے فولڈ سے باہر نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ اتر پردیش سے کسی بھی دلت کو بھاجپا کی موجودہ سرکار میں وزارت نہیں ملی اتنا ہی نہیں ایس ٹی ایس سی مورچہ کے ذمہ داروں کو ٹکٹ تک نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی کسی دلت کو گورنر بنایا گیا اٹل جی کی سرکار میں چار وزارتیں دلتوں کو دی گئی تھیں اب جبکہ دلت زیادہ تعداد میں جیت کر آئے ہیں ان کو صرف ڈیڑھ وزارت ملی ہے ، تھاور چند گہلوت ۔ مدھیہ پردیش (کیبنٹ) نہال چند میگھوال ۔راجستھان (وزیر مملکت) ۔ کیا دلت سنگھ اور مودی کی منشاء ک سمجھیں گے یا پھر ان کے مقصد کو پورا کرنے اور اچھے دن کے آنے کے انتظار میں یوں ہی لگے رہیں گے ۔
دلت لیڈران کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ کیا ان کا یہ راستہ صحیح ہے یا وہ اپنی موجود عزت اور سیاسی طاقت کو ہی بی جے پی کے ہاتھوں گنواں دیں گے 
کیونکہ ملک کی بساوٹ اور آبادی کو دیکھا جائے تو آدی واسیوں ، دلتوں اور مسلمانوں کا اتحاد ہی ان کو عزت دلا سکتا ہے اور ملک کو فرقہ پرستی ، غریبی ، بھک مری سے نجات ۔ان بیماریوں سے چھٹکارا ہی دیش کو مضبوطی دے سکتا ہے محروموں کا ظالموں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے اکٹھا ہونا ہی ان کے حق میں بہتر ہوتا ہے ۔

«
»

میر تقی میرؔ اور عشق

انقلاب کیسے آئے گا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے