یہاں تک کہ خطاکار پولس افسران کو ان لوگوں نے ترقیاں دیں اور ان کے عہدے میں اضافہ کیا۔ یہ سب مسلمانوں کے قتل عام کاانعام تھا۔ ۱۹۸۷ء کا وہ قتل عام جلیان والا باغ کے قتل عام سے بھی زیادہ سنگین اور اندوہناک تھا۔ جلیان والا باغ میں تو گولیاں چلانے سے قبل وارننگ دی گئی تھی اور لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائیں مگر ہاشم پورہ کے جنرل ڈائر پی چدمبرم نے پی اے سی کو جب مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا تب اس کی بھی اجازت نہیں دی تھی کہ کوئی بچ جائے۔ بھارت کی تاریخ میں ایسے قتل عام کی مثال نہیں مل سکتی جس قسم کا یہاں پی اے سی سے اس وقت کی کانگریسی حکومت نے کرایا تھا۔گجرات، بھاگلپور، بہار شریف اور مرآداباد مین تو دنگے ہوئے تھے جن میں سے صرف بی جے پی کی حکومت والے گجرات میں کچھ مجرموں کو سزا ہوئی مگر باقی تمام معاملات میں کسی کو سزا نہیں ہوئی کیونکہ قتل عام کا حکم خود کانگریس کی سرکاروں نے دیئے تھے۔ ہاشم پورہ قتل عام کے وقت یوپی میں کانگریس کی سرکارتھی اور ویر بہادر سنگھ وزیر اعلیٰ تھے۔ اس قتل عام سے قبل میرٹھ میں فسادات ہوئے تھے اور پنجاب میں علاحدگی پسندی کی تحریک زوروں پر تھی۔ تب بوٹا سنگھ وزیر داخلہ تھے اورپی چدمبرم وزیر مملکت برائے داخلہ تھے۔ انھوں نے خود میرٹھ کا دورہ کیا تھا اور کتائی مل کے گیسٹ ہاؤس میں قیام کے دوران مسلمانوں کو سبق سکھانے کا حکم جاری کیا تھا۔
کورٹ کا فیصلہ انصاف نہیں دے سکا
دہلی کی تیس ہزاری عدالت نے 1987 کے ہاشم پورہ نسل کشی کے تمام 16 ملزمان کو ثبوتوں کی عدم موجودگی میں بری کر دیا۔اتر پردیش کے میرٹھ میں واقع ہاشم پورہ میں ہوئی نسل کشی میں 42 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس معاملے میں پی اے سی کے 16 جوان ملزم تھے۔ عدالت نے کہا کہ ثبوتوں، خاص طور پر ملزمان کی شناخت سے جڑے ثبوتوں کی کمی تھی۔ ساتھ ہی عدالت نے متاثرین کی بازآبادکاری
کا معاملہ دہلی کے ایک ٹربیونل کے حوالے کر دیا۔اضافی سیشن جج سنجے جندل نے کہا کہ تمام ملزم بری کئے جاتے ہیں۔ عدالت ثبوتوں اور خاص طور پر شناخت کی غیر موجودگی میں شک کا فائدہ دیتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ تمام 16 ملزم جنہیں بری کیا گیا ہے وہ واقعہ کے وقت پی اے سی کے عملہ میں تھے۔ بری کئے گئے لوگوں میں سریش چند شرما، نرنجن لعل، کمل سنگھ، بسنت بللبھ، کنور پال سنگھ، بدھا سنگھ، رامبیر سنگھ، لیلا دھر،جے پال سنگھ، مہیش پرساد شامل ہیں۔ مہیش پرساد اور کنور پال سنگھ کے علاوہ تمام ملزم عدالت میں موجود تھے اور ضمانت پر رہا ہیں۔عدالت نے اس سے پہلے 22 جنوری کو آخری دلیلوں کو سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ خاص لوک پراسیکیوٹر ستیش ٹمٹا نے کہا کہ پی اے سی جوان 22 مئی 1987 کوآئے تھے اور وہاں ایک مسجد کے باہر جمع 500 میں سے تقریبا 50 مسلمانوں کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ پراسیکیوٹرز نے کہا کہ متاثرین کو ملزمان نے گولی مار دی اور ان کی لاش ایک نہر میں پھینک دئے۔نسل کشی میں 42 لوگوں کو مردہ قرار دیا گیا۔ اس واقعہ میں پانچ افراد زندہ بچ گئے، جنہیں پراسیکیوشن نے گواہ بنایاحالانکہ یہ پانچ گواہ ملزمان کو شناخت نہیں کرپائے کیونکہ انھوں نے ہلمٹ پہن رکھے تھے اور رات کا وقت تھا۔اس معاملے میں اہم عدالتی مجسٹریٹ، غازی آباد کے سامنے 1996 میں چارج شیٹ دائر کی گئی تھی۔ اس میں 19 افراد کو ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا اور ان میں سے 16 کے خلاف 2006 میں یہاں کی عدالت نے قتل، قتل کی کوشش، ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور سازش کے الزام طے کئے تھے۔ ستمبر 2002 میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر معاملہ دہلی منتقل کیا گیا، جن 16 ملزمان کو بری کیا گیا وہ اب بھی زندہ ہیں۔سماعت کے دوران 19 میں سے تین ملزمان کی موت ہو گئی۔لیکن یہاں جو بات سب کے دماغ میں بار بار آتی ہے کہ جب ان پولیس والوں نے ان 42 مسلمانوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا تو آخر کار اتنی بڑی تعداد میں قتل عام کیسے ہوا؟ آخر کون تھا اس قتل عام کے پیچھے یہ سب جانچ کا موضوع ہے لیکن کچھ ایسے نقطہ ہیں جن پر غور کیا جا سکتا ہے جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ آخر کیوں اس معاملے میں ملزم بنائے گئے تمام افراد کو کورٹ نے بری کیا ؟
ہاشم پورہ سانحہ، آزادی کے بعد ملک میں حراست میں موت کا سب سے سنگین معاملہ بن کر سامنے آیا تھا جس کی مثال دنیا میں اگر کہیں ملتی ہے تو جرمنی کی تاریخ میں جہاں یہودیوں کو ہٹلر نے بری طرح روند ڈالا تھا۔ اس واقعے نے خاکی وردی کو داغدار کردیا تھا اور مسلمانوں کے دلوں سے ہمیشہ کے لئے اس کا احترام ختم کردیا تھا۔ان کے ذہنوں میں آج بھی خاکی کی تصویر کسی ہلاکو اور چنگیز سے کم نہیں ہے۔اس کا خوف آج تک ہاشم پورہ ہی نہیں بلکہ میرٹھ کے لوگوں کے دل و دماغ پر سایہ کی طرح چھایا ہوا ہے۔
کیا ہوا تھا اس رات؟
22 مئی 1987 کو میرٹھ فسادات کی زد میں تھا۔پی اے سی کے جوانوں نے ہاشم پورہ اور ارد گرد کے محلوں میں تلاشی اور گرفتاری مہم چلائی۔ مہم میں مسلم طبقہ کے 644 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں ہاشم پورہ کے 150 نوجوان شامل تھے۔ ان میں سے 50 نوجوانوں کو پی اے سی نے ٹرک میں بیٹھا لیا۔ ٹرک میں ان نوجوانوں کے علاوہ پی اے سی کے 19 جوان بھی بیٹھے تھے۔2 مئی کی یہ رات ہاشم پورہ کے ان نوجوانوں کے لئے سب سے خوفناک رات ثابت ہوئی۔ پی اے سی کے جوانوں نے مسلم نوجوانوں کو ہاپوڑ کے گنگ نہر کے پاس ایک ایک کرکے اتارا اور انھیں قتل کرکے گنگ نہر میں پھینک دیا۔ اس کے علاوہ حراست میں پولیس کی پٹائی سے بھی آٹھ افراد کی ہلاکت ہوئی
تھی۔ اس واقعہ کا درد اور خوف ہاشم پورہ میں آج بھی دکھائی دیتا ہے۔ ہر گھر میں ہاشم پورہ سانحہ سے جڑی ایسی یادیں ہیں، جنہیں اب یہاں کے پریوار یاد نہیں کرنا چاہتے۔اس واقعہ میں زندہ بچ جانے والے ایک نوجوان ذوالفقار ناصر نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ پی اے سی کے اہلکار تقریباً 45 لوگوں کو ٹرک میں بٹھا کر لے گئے تھے۔مرادنگر کے قریب ہمیں ٹرک سے اتارا گیا اور دو لوگوں کو میرے سامنے گولی مار دی گئی۔ میرا نمبر تیسرا تھا۔ لیکن گولی ہاتھ میں لگی اور میں بچ گیا۔ پی اے سی کے اہلکاروں نے اسے مردہ سمجھ کر نہر میں پھینک دیا۔ بعد میں ذوالفقار ناصر نے سابق وزیراعظم چندر شیکھر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں اس واقعے کی تمام تفصیلات بتائی تھیں۔لیکن ریاستی حکومت پر الزام ہے کہ اس کیس میں کبھی سنجیدگی سے تفتیش نہیں کی گئی۔ 1994 اور 2000 کے درمیان ایک ملزم کے خلاف 23 مرتبہ وارنٹ جاری کیے گئے لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ جب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی جانب سے دباؤ زیادہ بڑھا تو وہ عدالت میں پیش ہوا لیکن اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔پلاٹون کمانڈر سریندر پال سنگھ کو بھی ملزم بنایا گیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ فائرنگ اسی کے حکم پر کی گئی تھی۔ لیکن مقدمے کی سماعت کے دوران اس کی موت ہوگئی۔
جواب دیں