کیا ارسطو کا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے؟

قرونِ وسطٰی کے اواخر میں ارسطو مغرب میں عربی تراجم کی وجہ سے ہی دوبارہ نمودار ہوا جس نے قدیم عیسائیت میں ایک بار پھر استدلالی اورجدلیاتی قوت بھر دی اور قدیم علوم کے بتدریج احیا کی راہ ہموار کی جو بالآخر اطالوی نشآِ ثانیہ پر منتج ہوئی۔
صدیوں پر محیط اس عرصے میں سلطنتوں اور مذہبی جنگوں کا مشاہدہ کرتے، تہذیبوں کے عروج و زوال سے گزرتے ہوئے اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے ذریعے جس دانش کی تجسیم ہورہی تھی وہ یونانی فلسفہ تھا جس کی سب سے بہترین مثال سنہری دور والا ہسپانیہ ہے۔
پھر بھی کچھ لوگ سیکولر فلاسفی کو اسلام کی ضد قرار دینے پر مْصر ہیں۔ جو طلبا مجھ سے ملنے آئے تھے وہ اسی صورتحال سے دوچار ہیں جس کا آج کل مغرب میں رہنے والے بہت سے مسلم نوجوانوں کو سامنا ہے۔ یہاں تک کہ قانون اور اخلاقیات کی کلاس میں بیٹھنے کا فیصلہ کرنے سے بھی تشخّص اور نسبت کے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔
افلاطون سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یونانی فلسفے میں کسی بھی موضوع پر بات کرنے کی ممانعت نہیں ہے اور نہ ہی کسی مفروضے کو محض عقیدے کی بنیاد پر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ منطق اور فطرت، اخلاقیات اور سیاست، حتٰی کہ آرٹ، موسیقی اور ادب کو بھی استدلال پر پرکھا جاتا ہے۔ اس چھان پھٹک سے کوئی رسم، روایت یا مذہب مستثنٰی نہیں ہے۔ خدا یا دیوتاؤں کی ہستی کے حق میں اگر مضبوط دلائل مہیا نہ کئے جا سکتے ہوں تو ان کا بھی انکار کر دینا چاہیے۔
جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک بامعنی زندگی کو عقیدے اور استدلال دونوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کے لئے قدیم یونانیوں نے انتہائی نایاب تحریریں چھوڑی ہیں۔ تمام عقائد کے مذہبی لوگوں نے کسی نہ کسی دور میں سیکولر فلسفے کو جھٹلایا ہے۔ سائنس کی طرح مذہب بھی جب لوگوں کو اعلانیہ یا ڈھکے چھپے انداز میں یہ کہنے کی طرف لے جائے کہ ” ہمیں جس سچ کی ضرورت ہے وہ سارا ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمیں فلسفے کی کوئی ضرورت نہیں” تو لوگوں کے ذہن بند ہو جاتے ہیں۔
میرے دونوں شاگردوں کا اپنے دماغ کے کواڑ بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ دونوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ان کا اسلامی عقیدہ کسی بھی طور انہیں اخلاقیات، تاریخ اور معاشرے کا باریک بینی اور آزادی سے جائزہ لینے سے منع نہیں کرتا۔ اسلام ایک وسیع تر دنیا کو جاننے کے لئے قبول کیا جاتا ہے نہ کہ اس دنیا کی طرف سے اپنی آنکھیں اور کان بند کرنے کے لئے۔ انہیں ارسطو سے کوئی خوف نہیں ہے۔ ارسطو کی طرح وہ بھی اپنے دماغ کے خود مالک ہیں۔ وہ یونانی فلسفے کو پْر پیچ مخمصہ نہیں سمجھتے بلکہ ایک متحرک مکالمے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ارسطو ان کے لئے کسی بین العقائد تعلیمی یا ثقافتی فورم سے زیادہ بڑا خطرہ نہیں ہے۔
بی بی سی کے لئے کئے گئے ایک سروے کے مطابق برطانیہ کے 80 فیصد مسلمان عیسائیت کو مسترد کرنا تو دور کی بات، اسے برطانوی روز مّرہ زندگی میں مضبوط کردار دینے کی تائید کرتے ہیں۔ عیسائیت کی اس تائید کے معاملے میں یہ شرح خود عیسائیوں کی نسبت دس فیصد زیادہ ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا خون ریزی سے آلودہ کئی صدیوں سے عیسائیت اسلام کی مْسلّمہ دشمن نہیں ہے؟
جو بات مغرب میں رہنے والے بہت سے مسلمانوں اور میرے ان دونوں شاگردوں نے بْوجھ لی ہے وہ یہ بصیرت ہے کہ ثقافتی، مذہبی اور دانشورانہ روایات متحرک ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ مسلمان اپنے ورثے کی قدر و قیمت کے تعین کے لئے غیر مسلموں کوبھی دعوت دے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ایک روایت کے لئے ذہن کو کھولنے کا مطلب اسے دوسری روایات کے لئے بھی کشادہ کرنا ہے۔ 
ماضی کی نارواداری کو ایک متحمل مستقبل کی راہ میں رکاوٹ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمان غیر مسلموں کو ایک اہم ماضی کو سمجھنے بلکہ اسے تسلیم کرنے اور منانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ایسا کرنا کسی ماضی کو کسی تنقیدی جائزے کا موضوع بنانے میں رکاوٹ نہیں ہے۔ 
حالیہ سالوں میں اخبارات کی سرخیاں اور کتابوں کی دکانیں سائنس بمقابلہ مذہب ، منطق بمقابلہ عقیدہ ، مغرب بمقابلہ اسلام وغیرہ جیسے انتہائی سادہ عنوانات سے بھر گئی ہیں۔ بات ان میں سے کسی کی ہار یا جیت کی نہیں بلکہ ان کے درمیان مستقل اور تعمیری تبادلہ جاری رہنے کی ہے کہ سائنس اور مذہب، منطق اور عقیدہ، مغرب اور اسلام سب اپنی اپنی جگہ پر اپنا اپنا کام کرتے رہیں۔
بہت سے لوگوں نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے اسلام بلکہ درحقیقت تمام مذاہب کو علمی طور پر کم تر قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ لیکن میرے یہ دونوں شاگرد دنیا بھر کے مسلم دانشوروں کی طرح اس خیال کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ اپنے قرونِ وسطٰی کے پیشروؤں کی طرح انہیں بھی اسلام کے اندر گھٹن نہیں بلکہ کشادگی نظر آتی ہے۔ وہ اسلام کو دوسری روایات کی تفہیم حاصل کرنے اور دوسری روایات کو اسلام کی گہری تفہیم دینے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔( یو این این)

«
»

خبر ہونے تک….

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے