کیاایساہونے جارہاہے

باخبرذرائع نے یہ بھی بتایاہے کہ مذاکرات میں پاکستان سے رہاکئے جانے والے سابق وزیرخزانہ آغامعتصم کی سربراہی میں ان لوگوں نے شرکت کی جن کوافغان حکومت اور چند وہ لوگ جوپاکستان نے رہاکئے تھے ،چونکہ ان لوگوں کوافغان طالبان کے سربراہ ملاعمر کی حمائت حاصل نہیں تھی،اس لئے یہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔طالبان کی اکژیت نے ان مذاکرات کوتسلیم ہی نہیں کیاکیونکہ طالبان ذرائع کے مطابق مذاکرات کرنے والے لوگوں کوطالبان کی حمائت حاصل نہیں تھی اوروہ اپنے طورپریہ مذاکرات کررہے تھے ۔ ذرائع نے بتایا کہ ان مذاکرات کابنیادی مقصد یہ تھا کہ اگران کابھائی صدارتی امیدواررہے تووہ ان طالبان کوساتھ ملاکران کوکامیاب بنائیں گے تاہم طالبان اور کرزئی کے درمیان مذاکرات کوپذیرائی نہ ملنے کے بعدکرزئی نے اپنے بھائی کو جرگے کے ذریعے دستبردارکرادیااوراس کے ساتھ ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی معطل کردیئے گئے۔ 
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ کرزئی نے طالبان کویہ پیشکش بھی کردی ہے کہ وہ براہ راست انتخابات میں حصہ لیں اورایک سیاسی جماعت بناکرنشستیں حاصل کریں تاکہ ان کے مسائل حل ہوں سکیں۔آغامعتصم اوراس کے ساتھیوں کومذاکرات میں اس لئے کامیابی حاصل نہیں ہوسکی کہ ملاعمر نے ان مذاکرات کومستردکردیاہے اورکہاہے کہ مذاکرات میں اصل فریق امریکااورطالبان ہیں اورجب تک طالبان کے قیدیوں کوامریکاگوانتاناموبے سے رہانہیں کردیتا،اس وقت تک مذاکرات نہیں ہوسکتے۔طالبان آئندہ سوسال کیلئے بھی اپنے وطن،دین کے دفاع کیلئے تیارہیں اورافغان عوام کی طالبان کوبھرپورحمائت حاصل ہے۔دوسری جانب طالبان کے فدائی محاذنے روزِ اوّل سے ہی ان مذاکرات کوسختی سے اس لئے مسترد کر دیا تھاکہ ان مذاکرات کی منظوری ملامحمدعمرنہیں دی تھی۔انہوں نے یہ بھی بتایاکہ انہوں نے موسمِ بہارمیں بڑے حملوں کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں اوراس سلسلے میں صرف ملاعمراورشوریٰ کی ہدایات کاانتظارہے۔فدائی محاذانتخابات کوبھی بری طرح درہم برہم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتاہے تاہم ہماری پوری توجہ امریکاکے خلاف بڑے حملوں پرمرکوزہے جن میں خودکش حملے اوربم حملے بھی شامل ہیں اور یہ حملے ملک کے طول وعرض میں اور شدیدترین اورفیصلہ کن حملے ہوں گے ۔
ایک طرف انخلاء کی باتیں ہورہی ہیں تودوسری جانب طالبان نے کئی علاقوں پراپناکنٹرول انتہائی مضبوط کرلیاہے اورکئی اتحادی ممالک کی افواج نے محفوظ انخلاء کی شرط پرکئی علاقے خاموشی کے ساتھ طالبان کے حوالے کردیئے ہیں۔طالبان پہلے بھی کہہ چکے ہیں اوراب بھی اس مؤقف پرقائم ہیں کہ اتحادی ممالک اگرافغانستان سے نکلناچاہتے ہیں توانہیں کچھ نہیں کہاجائے گااوراگرکوئی ملک لڑائی میں حصہ لیناچاہتاہے توپھرانہیں محفوظ راہداری بھی نہیں دی جائے گی ،اس لئے ہماری یہ پیشکش ہے کہ موسمِ بہار کے بعد نکلنا چاہتے ہیں توکھلم کھلااعلان کریں کہ ہم افغانستان کی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے اورہم نکلناچاہتے ہیں توان کے خلاف حملے روک دیئے جائیں گے لیکن جو گروپ افغانستان میں بیٹھ کرجنگ کرناچاہے توطالبان جنگ کیلئے تیارہیں۔افغان فوج اورپولیس کوبھی ان کامشورہ ہے کہ وہ بھی اتحادیوں کاساتھ چھوڑ دیں ،ان کے ساتھ لرائی نہیں کی جائے گی لیکن جو پولیس اہلکاراورفوجی اتحادیوں کاساتھ دیں گے توان کے خلاف بھی بلاتخصیص کاروائی کی جائے گی۔
ذرائع کاکہناہے کہ طالبان نے اس سال بڑے پیمانے پراسلحہ جمع کرلیاہے اور بڑے پیمانے پراپنے حامیوں کومختلف علاقوں میں جمع کرلیاہے تاکہ آئندہ بڑے حملے شروع کئے جاسکیں۔دوسری جانب انخلاء میں تیزی آنے ،آسٹریلیااوربرطانوی افواج کے ہلمنداورارزگان سے نکل جانے کے بعدمقامی لوگوں نے کھل کرطالبان کاساتھ دیناشروع کردیاہے۔ایک طرف طالبان کی طرف سے مخبروں کے خلاف کاروائی نے عوام کومحتاط کردیاہے تودوسری جانب لوگوں کویہ اندازہ ہورہاہے کہ امریکاکے نکل جانے کے بعدطالبان ان علاقوں پرآسانی سے قابض ہوجائیں گے ،اس لئے ابھی سے طالبان کا ساتھ دینے میں عافیت ہے۔زمینداربھی طالبان کاساتھ دینے کی شدیدخواہش رکھتے ہیں کیونکہ وہ افغان اہلکارکے نارواسلوک اورناجائزمطالبات سے سخت نالاں ہیں۔
ایک طرف طالبان کاخوف افغان حکومت پربڑھ رہاہے تودوسری جانب پوست کی کاشت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہاہے اوراس سال تین سے چھ فیصدزیادہ رقبے پرپوست کی فصل ہوئی ہے ،اس لئے امریکاکوایک طرف انخلاء میں مشکلات کاسامناہے اوردوسری جانب بڑے پیمانے پرحملوں کاخدشہ ہے جس کیلئے امریکانے افغان فوج کے ساتھ مل کر مقابلے کی تیاریاں شروع کردی ہیں اورمشرقی افغانستان کی طرف بھاری اسلحہ اورفوجی پہنچارہے ہیں اوریہ کہاجارہاہے کہ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے بڑے حملوں کاخطرہ ہے اسی لئے حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایک بڑاآپریشن کئے جانے کاامکان ہے تاہم ذرائع نے بتایاہے کہ اتحادیوں نے اس دفعہ امریکاکاساتھ دینے سے انکارکردیاہے اوراپنی پوری توجہ انخلاء پرمرکوزکررکھی ہے۔ایسٹرکے تہوارسے قبل کئی ممالک کے دوہزارسے زائدفوجی افغانستان سے نکل جائیں گے جبکہ برطانوی فوجیوں نے بھی فروری کے مہینے سے اپنے تمام سامان کوافغانستان کے دیگرعلاقوں سے کابل پہنچادیاہے۔ذرائع کے مطابق افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بعداصل صورتحال سامنے آئے گی جب نئے صدر سیکورٹی معاہدے پردستخط کردیں گے توامریکاکتنی فوج کوافغانستان میں رکھنے کااعلان کرے گااورکون سے اتحادی ممالک افغانستان میں اس کاساتھ دیں گے۔
ادھرپاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت سے مذاکرات کرنے والی طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان دونوں نے مذاکراتی عمل کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے پر اتفاق کیا ہے۔ طالبان سے مذاکرات میں پہلی ترجیح مستقل امن کا قیام یا کم ازکم جنگ بندی میں توسیع کروانا ہے لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہوگاجب افغانستان سے امریکااوراس کے اتحادیوں کاانخلاء مکمل ہوجائے۔کیاایساہونے جارہاہے؟ 

«
»

دورِ جدیدکااستعمارمیدان میں

مودی کی قصیدہ خواں مدھو کشور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے