ایک سیریا ہی کو دیکھ لیجیے: کیسا لالہ زار منظر ہے، ہر طرف خون کا سیل رواں ہے، چیخ پکار ہے، بھوکے ننگے بچے، سسکتی بلکتی عورتیں، اجڑے شہر، اور ایک تباہ مسلم ملک۔ کیا یہی جہاد کا نتیجہ ہوتا ہے؟
ہر باخبر جانتا ہے کہ ایسی تمام تنظیمیں اپنے بل بوتے پر قائم نہیں ہوتیں، بلکہ امریکہ برطانیہ پاکستان سعودی عرب اور دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا تعاون، مال، اسلحہ اور ٹریننگ تک ہر شکل میں ہوتا ہے۔ غیر مسلم ممالک کے جو مقاصد ہیں وہ تو چھوڑیے؛ اس وقت مسلم ممالک میں جس مزاج وقماش کی قیادتیں ہیں اور ان کا مغربی ممالک کی سیاسی پالیسیوں کے ساتھ جیسی ہم آہنگی اور یک سانیت کا تعلق ہے اس کے بعد سوچیے کہ کیا وہ اسلام کے غلبے اور شریعت کے نفاذ کے لیے کام کریں گے یا اپنی لوٹ اور عیاشیوں کے استحکام کے لیے۔ جس کو اتنی واضح حقیقت سمجھ میں نہ آئے اس کو کون بربادیوں سے بچا سکتا ہے؟
اس خطرے کے حقیقی طور پر موجود ہونے کی پہلی وجہ تو یہی ہے مسلمانوں کے جو دشمن ایسی تنظیمیں بناتے آئے ہیں وہ ہر جگہ اپنے مقاصد کے لیے اس سلسلے کو قائم کر سکتے ہیں۔
(۲) اور اس کا دوسرا امکان اس لیے بھی ہے کہ حکومتوں کی لگاتار زیادتیوں اور میڈیا کی دہشت گردی کے ساتھ جب مسلمان یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے اوپر انصاف کے حصول کا ہر دروازہ عملا بند کیا جارہا ہے، تو ان کے بعض نوجوانوں میں ایک انتہاپسندانہ غصہ اور تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ میں واضح طور پر تسلیم کرتا ہوں کہ ایسا ہونا بالکل فطری ہے۔ خطرہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں کچھ ایسی تنظیمیں پیدا کردی جائیں جو ملت کے عام دھارے سے ہٹ کر مسلح عمل کا راستہ اپنا لیں۔
ساری مظلومیت کے باوجود حالات ایسے ہیں کہ یہ رجحان مسلمانوں کے لیے شدید ہلاکت خیز مصیبت بن سکتا ہے۔خوب جان لیجیے کہ دشمن چاہتا ہے کہ یہ رجحان فروغ پائے۔ اِس لیے کوئی جواز اس کا نہیں ہے کہ اس خطرے سے آنکھیں موندی جائیں۔ بات قابو سے نکلنے سے پہلے ہمارے اہل دانش کو چاہیے کہ وہ اس کو غوروفکر اور مذاکرے کا موضوع بنائیں۔ حد تو یہ ہو گئی ہے کہ اکیلے بمبئی سے کئی نوجوان داعش کے ساتھ ’’جہاد‘‘ فرمانے چلے گئے تھے۔ ان کو نہ اپنی امت کے بڑوں سے مشورے کی ضرورت تھی نہ اس تحقیق کی کہ یہ داعش نامی تنظیم کہاں سے اچانک آندھی طوفان کی طرح آئی، اور نہ یہ معلوم کرنے کی کہ اس کے قائدین کون ہیں کیسے ہیں؟
دیر ہونے سے پہلے فوراً فکر کیجیے۔ پھر آپ فکر کریں گے تو اسی طرح دیر ہو جائے گی جس طرح بعض دوسرے ملکوں میں دیر ہونے کے بعد علماء اور زعماء کے لیے اپنی خیریت منانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ گیا۔ اس لیے فوری ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی ذہنی تربیت کریں۔ہمارے یہاں موجودہ حالات میں جہاد کے مسئلے پر غور کرتے وقت دو بڑی غفلتیں پائی جاتی ہیں۔
(۱) پہلی یہ کہ جذباتی سوچ کی وجہ سے اس کے شرعی ضوابط اور شرطوں پر نظر نہیں رہتی۔ خصوصا معاہدات کی پابندی، اور یہ کہ جدید دنیا میں معاہدات کی کیا شکلیں موجود ہیں۔ اور غیر مسلم ممالک کی شہریت رکھنے والوں کی شرعی حیثیت اور ان کے لیے شریعت کی پابندیاں کیا ہیں؟ اسی طرح مسلم حکومت کے موجود ہوتے ہوئے ان آزاد جہادی تنظیموں کی کیا حیثیت ہے؟کسی عملی اقدام سے پہلے کامیابی کے امکانات اور مقابل کی طاقت اور اپنی طاقت وامکانات کا توازن کیسا ہے؟
سب سے بڑی ذمے داری علماء اور اہل مدارس کی ہے۔ اس سلسلے میں علماء صرف قدیم فقہی متن پڑھنے پڑھانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ جدید دور میں اس کے تقاضے کیا ہیں اس پر نہ لٹریچر موجود ہے اور نہ درس کے حلقوں میں اس موضوع کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوگ خصوصا عام نوجوان بلکہ فارغین مدارس بھی بہت کم واقف ہوتے ہیں کہ شریعت کی رہنمائی ان حالات میں کیا ہونی چاہیے؟
مجھے اس مسئلے میں جب کبھی نوجوان فارغین مدارس سے بات کرنے کا اتفاق ہوتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان بے چاروں کو بس مظالم پر غم وغصہ اور جہاد سے جذباتی تعلق اور ر فریفتگی تو ہے، اس کے علاوہ تفصیلی شرعی احکام تو دور کی بات، وہ جہاد کے اِس بنیادی شرعی اصول سے بھی آگاہ نہیں کہ یہ مسائل اہل حل وعقد کے طے کرنے کے ہیں، چند پرجوش نوجوانوں کے نہیں۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دور کے ان حالات میں قرآن وسنت کی ہدایات اور شریعت کے ضابطوں سے علم دین کے طلبہ ہی نہیں عوام خصوصا تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باخبر کریں۔ ان کو بتائیں کہ اس وقت اللہ کا دین ان سے کیا مطالبہ کرتا ہے اور دین کی نصرت ومدد کے لیے اس وقت کام کرنے کے اصل میدان کیا ہیں؟
یہ عاجز’’جہاد کیا ہے؟‘‘ کی تصنیف کے بعد سے (۷ سال سے) لگاتار اس طرف علماء واہل دانش کو متوجہ کر رہا ہے۔مگر افسوس! مسئلے کی خطرناکی کاعمومی احساس پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ علماء جان لیں اب مزید غفلت خود کشی ہوگی۔
(۲)دوسرا پہلو یہ کہ کسی بھی عمل سے پہلے جذباتیت سے بالکل خالی ہو کر یہ دیکھا جانا چاہیے کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟؟ کتنا ہی مبارک عمل ہو اور کتنا ہی شرعی اہمیت والا، اگر اس کے نتائج ایسے برے ہوں کہ اس کے نہ کرنے کے اتنے برے نہ ہوں، تو اس عمل کو ہر گز نہیں کیا جائے گا۔ عقل عام کا تقاضہ بھی یہی ہے اور سنت وسیرت نبوی تعلیم بھی یہی۔ شرعی احکام واعمال میں جہاد کا تعلق مصالح اور نتائج سے سب سے زیادہ ہے۔ نتائج پرغور کیے بغیر اور حالات کے گہرے جائزے کے بغیر اندھادھند کسی اقدام میں کود پڑنا موجودہ حالات میں کس قدر خطرناک، مہلک اور تباہ کن ہوگا اس کا اندازہ کرنا کسی دانش مند کے لیے مشکل نہیں۔
(۳) مغرب اور اس کی ہم نوا حکومتیں ہمیشہ یہ کہتی آئی ہیں کہ دہشت گردی انتہا پسندانہ افکار اور بربریت زدہ ذہن کی پیداوار ہے، وہ یہ کہہ کر ان حالات کے اصل سبب یعنی اپنی ظالمانہ پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر اب ہم مجبور ہیں کہ اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ایسے جنونی وحشیانہ اور انتہا پسندانہ ذہن کی پیداوار ہو چکی ہے۔ آپ میں سے اکثر کو معلوم نہیں کہ بعض تنظیمیں تمام حکومتوں ہی کو نہیں بلکہ ان کے تحت رہنے والے تمام مسلمانوں تک کی عمومی تکفیر کرتی ہیں۔ ان کے خون اور مال کو جائز کہتی ہیں۔ مجنونانہ اور وحشیانہ طرز عمل میں انہوں نے پہلی صدی کے خوارج کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی کسی دشمن کو قتل کرے یا اس کو صحیح سمجھے، مگر اس کو سوائے وحشیانہ طرز کے اور کیا کہا جائے کہ ذبح کرنے کی ایک نہیں دسیوں ویڈیو فلمیں بھی پوری دنیا میں پھیلائی جائیں؟ اور اس کا سوائے اس کے اور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی جائے؟؟ جی ہاں! یہ خوارج یہی کہتے ہیں کہ پوری دنیا میں ایسی وحشیانہ خوریزی پھیلنی چاہیے کہ تمام مسلمانوں کے لیے ہم ہی واحد پناہ گاہ بچیں۔ اس فکر کے ایک معروف نظریہ ساز کی کتاب ہے: THE MANAGEMENT OF SAVAGERY ، عربی میں اس کا نام ہے ’’ادارۃ التوحش‘‘ جس کا دعویٰ یہ ہے کہ وحشیانہ خونریزی پھیلنے کے بعد لوگوں کو مجبورا ہماری طرف آنا ہی پڑے گا۔ جی! یہ ایک پورا مکتب فکر اور تحریک بن چکی ہے۔ اس کی بین الاقوامی تبلیغ ہو رہی ہے۔اس کے اپنے علماء اور نظریہ ساز (IDEALOGUE)ہیں۔ سیکڑوں ویب سائٹس ہیں۔ ان پر لگاتار اسی وحشیانہ پن کی تبلیغ ہو رہی ہے۔
انٹرنیٹ پر ایسی تنظیموں کو اپنے نظریات کی تبلیغ کی جو چھوٹ ملی ہوئی ہے وہ بین الاقوامی طاقتوں کے مشتبہ رول کو بتلانے کے لیے کافی ہے۔ بہر حال بڑی ذمے داری حکومت اور اس کی ایجنسیوں کی ہے، وہ ایمانداری سے کام کریں۔ اور خود ہم کو بھی چاہیے کہ اپنے عوام کو صحیح فکر سے روشناس کریں۔
جواب دیں