” کیا آپ کے بچوں کے اسکول میں اردو زبان اور بنیادی اسلامی تعلیم کا بھی بندوبست ہے؟”” ( دوسری قسط )”

" کیا آپ کے بچوں کے اسکول میں اردو زبان اور بنیادی اسلامی تعلیم کا بھی بندوبست ہے؟" ( دوسری قسط )

 

[ اس پیغام کے ساتھ کہ بچے وہاں پڑھائیں جہاں اردو زبان اور اسلامی تعلیم کا بھی انتظام ہو ]

 

تحریر : ابو رَزِین محمد ہارون مصباحی فتح پوری 

استاذ الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور ،اعظم گڑھ

 

 اور اگر آپ کی آبادی میں واقعتاً کوئی ایسا اسکول نہیں ہے جہاں اردو زبان اور بنیادی اسلامی تعلیم کا بندوبست ہو۔ تو ایسی صورت حال میں بھی آپ کو یہی چاہیے کہ اپنے بچوں کا ایڈمیشن کسی مشنری اسکول یا ششو مندر میں نہ کرائیں بلکہ کسی ایسے اسکول میں ان کا داخلہ کرائیں جہاں 'عیسائیت' یا 'ہندتوا' کی تبلیغ نہ ہوتی ہو، اور اسکول کے منتظمین سے رابطہ کر کے ان سے گزارش کریں بلکہ جہاں تک ہو سکے ان پر دباؤ ڈالیں کہ ہمارے بچوں کے لیے اردو زبان اور دینی تعلیم کے لیے الگ سے کوئی بندوبست کریں۔ اگر ایسا ہو جائے تو بہت بہتر، ورنہ خود آپ کو چاہیے کہ ان کے لیے اردو زبان اور اسلامی تعلیم کے لیے الگ سے کوئی بندوبست کریں، ٹیوشن لگائیں، یا پاس کی مسجد یا مدرسے میں بھیج کر انھیں اردو زبان سکھائیں اور اسلامی تعلیم دلوائیں۔

 

آپ آج اپنے معاشرے کے مسلم افراد کا جائزہ لیں، بوڑھوں اور عمر رسیدہ افراد کو تو چھوڑ دیں، آپ کو  نوجوانوں کی ایک بھاری تعداد ایسی ملے گی جو اردو زبان سے نا بلد ہے۔ یہ نوجوان اردو بول اور سمجھ تو لیتے ہیں لیکن انھیں اردو پڑھنا، لکھنا نہیں آتا ہے۔ اردو زبان سے نا آشنائی کی وجہ سے وہ خواہش کے باوجود دینی معلومات سے حسبِ ضرورت بہرہ ور نہیں ہو پاتے ہیں اور یک گونہ احساس کمتری کے بھی شکار رہتے ہیں اور اپنی شخصیت کے اس نقص کے لیے زندگی بھر اپنے ماں باپ یا سر پرست کو مورد الزام گردانتے ہیں۔ 

 

آج انٹرنیٹ کا دور ہے، اسلامی کتابیں نیٹ پر اپلوڈ ہیں، گوگل پر سرچ کر کے ہر طرح کی جان کاری حاصل کی جا رہی ہے، اہلِ علم سوشل میڈیا کے ذریعے دین کی خدمت کر رہے ہیں اور لوگوں کو دینی تعلیمات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ اور یہ سارا کام اردو، عربی، انگریزی وغیرہ مختلف زبانوں میں ہو رہا ہے۔ 

 

اسلامی معلومات کا سب سے بڑا زخیرہ عربی زبان میں ہے، خود قرآن و احادیث کی زبان عربی ہے۔ لیکن یہ ہندوستانی مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ ان کے معاشرے میں عربی زبان کی تعلیم و تعلم کا نظم تقریباً مفقود ہو چکا ہے۔ اس وقت صرف دینی مدارس اور یونیورسٹیز ہی ہیں جہاں اس کا انتظام ہے لیکن وہاں بھی عربی پڑھنے اور سیکھنے والوں کی تعداد محدود ہے۔

 

ہندوستانی مسلمانوں میں اکثریت ہندی لکھنے اور پڑھنے والوں کی ہے، لیکن ہندی زبان میں اسلامی معلومات کا زخیرہ بہت محدود ہے جو مسلمانوں کو اسلامی معلومات سے روشناس کرانے کے سلسلے میں کافی نہیں ہے۔ کچھ یہی حال انگریزی زبان کا بھی ہے۔ اور پھر ہندوستانی مسلمانوں میں انگریزی پڑھنے، لکھنے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔

 

اب رہ جاتی ہے اردو زبان جو ہندوستانی مسلمانوں کی وہ اکیلی زبان ہے جسے وہ سمجھ بھی لیتے ہیں اور بول بھی لیتے ہیں، بس خامی یہ ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہیں جو بول اور سمجھ لینے کے باوجود لکھنے، پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے اندر لکھنے، پڑھنے کی صلاحیت پیدا کر دی جائے تاکہ وہ اس زبان کو دینی معلومات کے حصول کا ذریعہ بنا سکیں، اردو زبان میں لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کر سکیں، سوشل میڈیا میں اپلوڈ ہونے والی اردو کی تحریروں کو پڑھ اور سمجھ سکیں اور اپنی معلومات دوسروں تک پہنچانے اور تبلیغ دین کے لیے اس زبان کو وسیلہ بنا سکیں، غرض ہر طرح اس زبان سے فائدہ اٹھا سکیں۔

 

مسلم معاشرے کا ایک زبردست افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں آج بھی بہت سی بستیاں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کے اپنے اسکول یا تو نہیں ہیں یا ہیں تو لیکن بہت کم ہیں جو مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں ہی کے ایسے اسکول بھی ہیں جہاں دینی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ جب کہ ان کی غیرت ایمانی کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اپنے اسکولوں میں بنیادی اسلامی تعلیم کا بندوبست ضرور کرتے اور اسلامی تعلیم کے فروغ کے حوالے سے اپنی فرض شناسی کا ثبوت پیش کرتے، لیکن افسوس کہ انھوں نے ایسا نہ کیا۔

 

ایسے مسلمان بھائیوں سے ہماری اپیل ہے کہ ان سے جو غفلت ہوئی ہے اس کا اب مداوا کر لیں اور اپنے اسکولوں میں اردو زبان اور دینی تعلیم کا شعبہ بھی قائم کریں۔ ساتھ ہی ہر بستی اور ہر علاقے کے صاحب استطاعت مسلمانوں اور ملی تنظیموں سے گزارش ہے کہ ہر بستی میں ایسے اسکول قائم کریں اور کافی مقدار میں قائم کریں اور اردو زبان اور اسلامی تعلیم کا شعبہ ضرور رکھیں۔

 

[ ہم آگے چل کر اسلامی تعلیمات پر مشتمل اسکول کالج کی ضرورت و اہمیت پر تفصیلی گفتگو کریں گے إن شاء الله۔ ]

تو کیا سوچا آپ نے؟ ہماری باتوں پر ایک بار سچے مَن اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کریں، ضرور آپ ہماری باتوں کی تصدیق کریں گے اور اسی نتیجے پر پہنچیں گے جو ہم نے بیان کیا ہے۔

تو پھر دیر کس بات کی؟ آپ کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے، اس لیے وقت نکال کر غور کر لیں اور اطمینان ہو جانے پر اپنے آس پاس یا اپنی بستی میں واقع اسلامی تعلیم کا شعبہ رکھنے والے کسی اسکول سے رابطہ کریں اور اپنے بچوں کا داخلہ وہیں کرا دیں، اللہ آپ کو آپ کے حسنِ نیت کا بہتر صلہ ضرور عطا کرے گا، ارشادِ نبوی ہے : " أنا عند ظن عبدي بي " 

یعنی اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے کا میرے تعلق سے جیسا خیال ہوتا ہے بندے کے ساتھ میرا سلوک بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔  ( جاری…………)

«
»

دہلی فسادات میں کجریوال حکومت کا مایوس کن رول اور رویہ

پھر سے اْجڑی دِلّی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے