کویت کاکل رقبہ سات ہزار مربع میل سے بھی کم ہے اور2007کے مطابق اس ملک کی کل آبادی ستائیس لاکھ کو چھورہی ہے۔کویت اگرچہ دنیاکے خشک ترین صحراکا حصہ ہے لیکن دولت کی ریل پیل اور وقت کی بڑھتی ہوئی رفتار کے ساتھ اس ملک نے بے پناہ ترقی کی ہے اور اب کویت شہر دنیاکے جدیدترین شہروں میں شمار ہوتا ہے جہاں دنیاکی ہر اہم و غیر اہم سہولیات و تعیشات تک بآسانی میسر ہیں اوراونچی اونچی عمارتیں ،لمبے لمبے بازاراورعالی شان مساجد آج اس ریاست کی پہچان ہیں۔اس ریاست کی زیادہ تر آبادی شہر میں ہی مقیم ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیاکی ایک منفرد مملکت ہے۔اس صحرائی ملک کے کچھ حصوں میں نخلستان واقع ہیں ۔کویت صحرا کے باعث انتہائی گرم آب و ہواکا ملک ہے اسکے دن کا درجہ حرارت 44سے 54ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتاہے۔سالانہ بارشوں کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ،سالانہ ایک سے سات انچ تک بمشکل بارشیں ہوتی ہیں،جس سال بارشیں زیادہ ہوجائیں تو صحراکا درجہ حرارت کچھ کم رہتا ہے بصورت دیگر گرمی ناقابل برداشت حد تک بڑھ جاتی ہے،شاید اسی وجہ سے کویت میں ندی ،نالے ،جھیلیں،آبشاریں اور دریانام کی کوئی چیزنہیں ہے۔پانی اور سبزہ نہ ہونے کے باعث جانور بھی بہت کم تعداد میں پائے جاتے ہیں۔کویت میں زیرزمین پانی بھی نایاب ہے ،کہیں کہیں بہت گہرائی میں پانی میسر بھی ہے تو اتنا کھارا کہ پینے کے قابل بنانے کے لیے اسے کئی مرحلوں سے گزارناپڑتا ہے،کویت سمیت پورے مشرق وسطی میں صرف ایک ہی میٹھے پانی کا چشمہ ہے اور وہ چشمہ ایک نبی کے پاؤں سے پھوٹنے والاکعبۃ اﷲ کے زیرسایہ بہنے والازم زم ہی ہے۔حکومت کویت نے زراعت کے انتظام کے لیے اب مصنوعی طور پر آبپاشی کا انتظام کیاہے جبکہ پینے کے پانی کے لیے بڑے بڑے پلانٹ لگائے جاتے ہیں یاپھر باہر سے درآمدکیاجاتاہے۔
تاریخ میں کویت ایک تجارتی شاہراہ کی حیثیت سے جانا جاتاتھا،مشرق بعید سے حج کے لیے جانے والے قافلے کویت سے گزرتے تھے ۔لاکھوں حاجیوں کے قافلوں کی یہ گزرگاہ بعض اوقات ڈاکؤں کی آماجگاہ بھی بن جاتی۔انیسویں صدی کے آخر میں کویت کے امیر عبداﷲ ثانی نے عثمانی ترک حکمرانوں سے سفارتی تعلقات قائم کیے اور ان سے گہرے روابط بڑھانے شروع کیے لیکن امیر کے بھائی امیر مبارک نے کویتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیااور اپنے بھائی کی بادشاہت ختم کردی اور خلافت عثمانی سے قطع تعلقی کرتے ہوئے تاج برطانیہ سے تعلقات استوار کرنا شروع کر دیے۔اس پر سلطنت عثمانیہ نے امیر کو ایمانی غیرت بھی دلانا چاہی لیکن بے سود اور 1899ء کے ایک معاہدے کے تحت کویت نے اپنی خارجہ پالیسی حکومت برطانیہ کے پاس گروی رکھ دی۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ جس زمانے میں دنیا کی اقوام اپنی آزادی کی جدوجہدکر رہی تھیں عین اسی زمانے میں کویتی امراء باقائدہ معاہدے کے تحت عیسائیوں کی غلامی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈال رہے تھے۔استعمار مکڑے کے جالے کی طرح آہستہ آہستہ خوبصورت چالوں میں اپنے شکارکو پھانستاہے اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے دوران امیر کویت نے سلطنت عثمانیہ جیسی مسلمان ریاست کو چھوڑ کر تو تاج برطانیہ کی مسیحی طاقت کو اپنے دفاع کی ذمہ داری سونپ دی۔دوسری جنگ عظیم میں سامراجی افواج کی کمزوری کے باعث 19جون 1961میں کویت کو برطانیہ سے آزادی میسر آ گئی اور اب یہ دن کویت میں قومی دن کے طور پر منایاجاتاہے۔
کویت کی مقامی آبادی اپنی ہی ملک میں اقلیت کا شکار ہے اور کم و بیش دوتہائی آبادی باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی ہے جو دیگر عرب ممالک سے اور زیادہ تر جنوبی ایشیاسے آئے ہوئے مزدور پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے۔یہ باہر سے آئے ہوئے لوگ کویت کی شہریت اور یہاں کے تمدنی،سیاسی و معاشی حقوق حاصل نہیں کرسکتے ،یہ حقوق صرف مقامی کویت کے لوگوں کو ہی میسر ہیں جو 1920سے قبل تک اپنی کویتی حیثیت کو ثابت کرسکتے ہیں۔اگرچہ کویت عربوں کا ملک ہے لیکن کچھ فارسی بان قبائل بھی یہاں صدیوں سے مقیم ہیں اگرچہ بہت کم اور صرف سرحدی علاقوں تک ہی محدود ہیں۔عربی یہاں کی سرکاری زبان ہے اور خاص خلیج کے لہجے کی جدیدعربی میں یہاں تعلیم فراہم کی جاتی ہے،انگریزی کو ثانوی زبان کی اہمیت حاصل ہے۔کویت کے شہری سب ہی مسلمان ہیں اور 1981کے قوانین کے مطابق کوئی غیر مسلم کویت کی شہریت حاصل نہیں کرسکتا۔عراق کویت بحران سے قبل فلسطینی یہاں پر سب سے بڑی اقلیت تھے لیکن عراق کی حمایت کرنے کے ’’جرم‘‘میں کویت کی حکومت نے اکثرفلسطینیوں کو وہاں سے نکال دیاہے کیونکہ عراق کی حمایت دراصل امریکہ کی مخالفت تھی۔آسمان یہ دن بھی دیکھ رہاہے کہ مسلمان حکمرانوں کو اپنے ملک میں سامراجی و استعماری افواج کے اڈے اور انکی سپاہ برداشت ہیں لیکن فرزندان توحید برداشت نہیں ہیں۔کویت میں ریلوے لائین نہیں ہے لیکن دنیاکابہترین شاہراہی نظام یہاں موجود ہے اور سب ہمسایہ ممالک کے لیے تیزرفتار سڑکیں میسرہیں اور ہوائی سفرکی سہولت اس پر مستزاد ہے۔
ایک زمانے میں محض مچھلی کی صنعت پر کویت کے لوگوں کا معاشی دارومدار تھا،غربت نے یہاں گھرکیاہواتھااور جس کا اونٹ بیمار ہوتا تھا اس کے گھر کے باہر دیگر افراد بڑی بڑی تسبیحیں لے کر اس انتظار میں بیٹھ جاتے تھے کہ کب وہ اونٹ ذبح ہوگا اور انہیں بھی کچھ کھانے کو ملے گا۔صحراکے بدؤں کی قسمت کھلی اور1970میں یہاں کی زمین نے اپنے خزانے اگلناشروع کردیے اور تیل کی دولت امڈ امڈ کر اس ملک پر برسنے لگی۔دنیابھرمیں تیل کے ذخائر کا دس فیصد صرف کویت کی زمین میں پنہاں ہے اور ایک اندازے کے مطابق اگلے ڈیڑھ سوسالوں تک ان ذخائر کے اختتام کاکوئی امکان نہیں۔تیل کے ساتھ گیس بھی یہاں وافر مقدار میں موجود ہے ان دو کے علاوہ اس لق و دق صحرا میں اور کوئی معدنیات ابھی تک دریافت نہیں ہوئیں۔اس تیل کے سیال مادے کے باعث اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدن کویت کی شمار کی جاتی ہے۔تیل کے سواباقی تمام صنعتیں ،پیداواراور زراعت نہ ہونے کے برابر ہے۔
1961میں برطانیہ سے آزادی کے بعد الصباح خاندان کاامیریہاں پر حکومت کرتاہے،اسکے ساتھ وزراکی ایک مجلس بھی ہوتی ہے لیکن اسی کے خاندان میں سے کیاخوب نظام ہے کہ ان وزراکا تقرربھی وہ خود ہی کرتاہے۔قانون کے مطابق پچاس منتخب ارکان پر مشتمل ایک پارلیمان بھی ہونی چاہیے ۔سیاسی جماعتوں پر مکمل پابندی ہے،صرف کویت کے مقامی لوگوں کو اکیس سال کی عمرمیں ووٹ کاحق ملتاہے لیکن ملازمت پیشہ لوگ اور پولیس کا محکمہ اس حق سے بھی محروم ہے،ان شرائط کی بنیاد پر آبادی کابمشکل دسواں حصہ ہی ووٹ ڈال سکتاہے ۔اس سب کے باوجود بھی پارلیمان جب بھی بنتی ہے توڑ دی جاتی ہے۔چھوٹی سطح پر عدالتیں بھی ہوتی ہیں لیکن بڑی سطح پر امیر ہی اپیلوں کی سماعت کرتاہے۔اکیسویں صدی کی دہلیز پر جب ایک دنیا سیاسی حقوق،خودمختار عدلیہ اور آزادی رائے کے مزے لوٹ رہی ہے ،کویت جیسے ملک کی عوام اس سے محروم ہیں۔ ایک زمانے تک کویت کادفاع برطانیہ کے ذمے رہاہے ،آزادی کے بعد اسرائیل جیسی ریاست کے لیے فوج کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کیونکہ وہ ایک یہودی ملک ہے جبکہ عراق کے خلاف گزشتہ صدی کے آخر میں بہت بڑی فوج تیار کرلی گئی ہے کیونکہ وہ ایک مسلمان ریاست ہے۔،کویت کی فوج ایک اندازے کے مطابق دنیاکی سب سے مہنگی فوج ہے کویت کے کئی ملکوں سے دفاعی معاہدے ہیں ان میں کوئی ملک مسلمان نہیں ہے ،امریکہ،برطانیہ،فرانس اور روس ان میں سرفہرست ہیں جبکہ امریکہ کی فواج گزشتہ صدی کے آخر سے وہاں ڈیرے ڈالی ہوئی ہیں،وہ کب تک وہاں رہیں گی اور امت مسلمہ کے وسائل کب تک اس سیکولر مسلم دشمن فوج پر خرچ ہوتے رہیں گے ؟؟اﷲ تعالی ہی بہتر جانتاہے۔
کویت کے عوام بہت خوشحال ہیں،حکومت ان کیے صحت،تعلیم،رہائش اور کاروباروغیرہ کے لیے آسان قرضوں سمیت بہت سی مراعات دیتی ہے۔خواندگی کا تناسب اسی فیصد کے لگ بھگ ہے،ابتدائی تعلیم مفت اور لازمی ہے ،جس کے لیے حکومت کی طرف سے کتابیں،آمدورفت کی سہولت ،مدرسے میں کھانے پینے کی فراہمی اور دوران تعلیم علاج کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔لیکن یہ سب رعایات مقامی لوگوں کے لیے ہی ہیں ۔باہر سے آئے ہوئے لوگ اپنے بچوں کونجی اسکولوں میں داخل کراتے ہیں اور دیگر سرکاری رعایات سے بھی تقریباََ محروم ہیں۔اپنی عمر کا بہترین حصہ کویت کی خدمت کرنے کے باوجود بھی باہر سے آئے ہوئے لوگ یہاں پر غیر ہی سمجھے جاتے ہیں۔
جواب دیں