’’کن فیکون‘‘

آہستہ بولیں، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں،کہیں موت کافرشہ نہ سن لے۔ مظلوم کی شب بیداری،آہیں، سسکیاں اوربددعائیں بجاسہی لیکن الجبار والقہار کی رسی کی ڈھیل کو ’’کن فیکون‘‘کی جنبش کاانتظارہے۔ رسی کی ڈھیل آخرکب تک؟
برامکہ خاندان جونہایت خطرناک مشہورتھا،بغدادمیں ہارون الرشید کی وزارت کی کرسیاں انہی کے ہاتھ میں تھیں۔یہ لوگ عوام کے خزانہ پر عیش وعشرت کرتے رہے۔ عوام پرمظالم ڈھاتے رہے۔ سرکشی اور بغاوت کوجنم دیا۔ خوف خدا سے غافل تھے جبکہ اللہ تعالیٰ کااپنا نظام ہے۔ رسول اکرمﷺ نے سچ فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ ظالم کوڈھیل دیتارہتاہے مگرجب اسے پکڑلیتاہے تواسے قابل عبرت بنادیتاہے۔‘‘اللہ تعالیٰ سورۃ ہود میں فرماتے ہیں کہ ’’وَکَذٰ لِکَََ اَخْذُ رَبِّکَِ اِِ ذَآ اَخَذَ اُلْقرَیٰ وَہِیَِ ظَلِٰمۃُُ اِنَّ اَخْذَہُٓ اَلِیْمُ شَدِیْد‘‘
تیرے پروردگار کی پکڑ کایہی طریقہ ہے جبکہ وہ بستیوں میں رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے ۔بے شک اس کی پکڑ تکلیف دینے والی نہایت سخت ہے۔‘‘خلیفہ کوگمراہ خاندان کی عیاشیوں اور مظالم کی خبرہوئی تواس نے ان لوگوں کی پیٹھ پرکوڑے برسائے۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے۔ انہیں قتل کروادیا۔ اسی خاندان کاایک عمررسیدہ شخص تھاجس پرکوڑوں کی بارش ہورہی تھی اور وہ مسلسل رو رہاتھا۔ اس سے ایک غلام نے دریافت کیا کہ آخریہ کیسی مصیبت تم لوگوں پر آپڑ ی ہے؟ بوڑھے نے جواب دیا’’کسی مظلوم کی بد دعا راتوں رات ہمیں لگ گئی ہے،ہم غفلت میں پڑے سورہے تھے لیکن اللہ اس سے ہرگزغافل نہیں تھا۔ اللہ نے برحق فرمایا’’تم محوخواب ہو جاتے ہوجبکہ مظلوم کونیند نہیں آتی ۔وہ تمہارے لئے بددعا کرتاہے۔ جان رکھو!اللہ کی آنکھ نہیں سوتی۔‘‘ رسول اکرمﷺ نے فرمایاکہ ’’مظلوم کی دعا اور بددعاکواللہ تعالیٰ بادلوں کے اوپراٹھاتاہے،اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے ،میری عزت کی قسم!میں تیری ضروراور بالضرور مدد کروں گااگرچہ کچھ مدت بعدہی سہی۔‘‘ حضورﷺنے فرمایاکہ’’مظلوم کی بددعاسے ڈروکیونکہ اس کی دعااوراللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔‘‘
بلائیں اورآفتیں جب نازل ہوتی ہیں تووقت سے پہلے لوگوں کے دل دھڑکنے لگتے ہیں۔دروازوں کے کواڑذرا سے ہلیں توکسی غیرمرئی چیز کی آمد کااحساس ہوتاہے۔ذرا سی تیز ہوا ہوتوخوفناک آندھی کاگمان ہونے لگتاہے۔اچانک کوئی غیرمعمولی واقعہ بار بار ہونے لگے تو بدشگونیاں نکالی جاتی ہیں۔انسان مدتوں سے بلکہ جب سے اس نے اس کائنات میں ہوش سنبھالاہے ‘آفتوں اور بلاؤں کے خوف سے آزادنہیں ہوسکا۔نصیب اور بدنصیبی ایک ایساگورکھ دھنداہے جسے انسان ازل سے آج تک حل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ہردفعہ بدنصیبی کی کوئی نہ کوئی تعبیرضرور ہوتی ہے۔ کوئی اسے کسی ظلم ،بربریت اوردرندگی کاشاخسانہ سمجھتاہے توکہیں اسے ظلم پرطویل خاموشی اورچپ کی وجہ سے ایک سزاتصور کیاجاتاہے۔مدتوں لال آندھی کامطلب یہ سمجھاجاتاتھاکہ کہیں قتل ناحق ہوگیاہے۔
اب توہماری گلیوں ،بازاروں اورچوراہوں پراتنے ناحق لوگ قتل کئے جانے لگے ہیں کہ لال آندھی نے بھی شرمسار ہوکر نکلناچھوڑدیاہے۔مدتوں بڑے بوڑھے کسی شخص یا خاندان کے اجڑنے کی کہانی سناتے توبتاتے کہ اس خاندان کے فلاں شخص نے کسی پرظلم کیا۔ کسی کاحق مارا،کسی یتیم کامال کھایا یا کسی مظلوم اور بے آسرا شخص کاخون کیا۔ایک ایسے ڈاکو اور قاتل کی کہانی میرے اپنے بچپن میں میرے شہر میں زبان زدعام ہوئی جسے پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔ اس کی لاش گھرپہنچی تواس کے خاندان کے لوگوں نے حیرت میں ڈال دینے والی داستان بیان کی۔ اس کے والد نے پلوسے پسینہ پونچھتے ہوئے کہاکہ جب اسے پھانسی کی سزاہوئی تومیں اس کے پاس گیا۔میں نے اسے کہاکہ تم قرآن پرقسم کھاکرکہو کہ یہ قتل تم نے کیاہے یانہیں۔اس لئے کہ اگر تم نے قتل نہیں کیاتومیں اللہ کے کسی نیک بندے کے پاس جاکر عرض کروں کہ وہ تمہارے لئے دعاکرے تاکہ تم بے گناہی کے جرم اور سزا سے بچ جاؤ۔اس نے قرآن پر ہاتھ رکھااور کہاکہ میں نے بہت قتل کئے،چوریاں کیں،مال لوٹا لیکن جس قتل میں مجھے سزا ہو رہی ہے وہ میں نے نہیں کیا۔
باپ نے کہاکہ میں وہیں سے اٹھااورایک صاحب بصیرت اللہ کے نیک بندے کے پاس چلاگیا۔ اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے چاہے توپھرجھٹک دئیے اورکہاوہ گائے کی بچی بہت تنگ کررہی ہے۔ وہ بہت بلبلا رہی ہے۔ میں نے پوچھا حضرت یہ کیا کہہ رہے ہیں؟کہنے لگے یہ تم اپنے بیٹے سے پوچھ لو۔وہاں جاکر پوچھا تو اسے یاد آیاکہ ایک دفعہ وہ کسی گاؤں سے ایک گائے چوری کرکے ساتھیوں کے ساتھ بھاگ رہا تھاکہ اس گائے کے پیچھے پیچھے ایک اس کی دودھ پیتی گائے کی بچی بھی آرہی تھی۔ گائے اسے مڑمڑ کر دیکھتی اور اپنے پاؤں زمین میں گاڑ دیتی۔ جس سے ہمیں اسے کھینچنا مشکل ہورہاتھا اور پکڑے جانے کاخوف دامن گیرہوگیا۔ میں نے بندوق نکالی اور اس گائے کی بچی کوفائر کرکے ماردیا۔ تھوڑی دیر تڑپ کربچی مرگئی۔گائے خاموش سی رہی لیکن ایک دفعہ کچھ دیر آسمان کی طرف دیکھااور ہمارے ساتھ چل پڑی۔ باپ نے کہا بس میں اٹھ کر آگیا کیونکہ فیصلہ اس مالک کائنات کی طرف سے ہوچکاتھا جودکھی دلوں کی فریاد سنتاہے۔ مجھے یقین تھاکہ اب اسے کوئی پھانسی سے نہیں بچاسکتا۔
گزشتہ چنددنوں سے جوخوف سراسیمگی میں اپنے اردگرددیکھ رہاہوں،لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے پھرتے ہیں کہ کیا ہونے والاہے۔ ہرکوئی آنے والے دنوں سے پریشان ہے جس صاحب نظر سے ملووہ کہتاہے بلائیں نازل ہونے والی ہیں،آفتیں گھیر چکی ہیں۔ کوئی کہتاہے صفائی کاوقت ہے توکسی کی زبان پریہ لفظ ہیں کہ دوبہت بڑے سانحے ہمارے انتظارمیں ہیں۔اس ساری بے یقینی اور سارے خوف کے عالم میں یوں لگتاہے کہ میری حالت بھی اس باپ کی طرح ہے جوپوچھتاپھررہاہوکہ کوئی توقسم اٹھاکر کہہ دے کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔کسی ظلم پربے حسی اور خاموشی اختیارنہیں کی لیکن ہمارے صاحبان اقتدار اورطاقت کے نشے میں بدمست حکمرانوں کے نامۂ اعمال پرتونجانے کون سے نامعلوم اوربے گناہ انسانوں کے ساتھ روارکھے ہوئے ظلم وستم کے ایسے دھبے ہیں کہ ڈرتا ہوں کہ آفتیں اوربلائیں یہاں گھر نہ کرلیں۔ 
یوں لگ رہاہے جیسے موجودہ حکومت کی ہتھیلی کی لکیروں میں عبرت کی سلوٹیں روزبروز سکڑرہی ہیں۔حتّٰی کہ اسے اپنی ہی مٹھی چٹخ دینے کوہے۔کیاپچھلے تین ماہ سے زائدان دھرنوں اور جلسوں کابدلہ لینے کیلئے ان مجبورومقہورافرادکاساتھ یہ سلوک کیاگیایاپھر دھرنے دینے والوں کویہ پیغام دیاگیاہے۔اسی لاہورکے ماڈل ٹاؤن میں جیالی پولیس کے کارنامے کی لعن طعن کے بادل ابھی سرپرموجودہیں کہ اب یہ نئی لعن طعن جویقیناانتقام کاروپ اختیار کرگئی ہے ،اس کامداواکیسے کرسکیں گے؟خوداپنے ہی ہاتھوں ایک ایک کرکے تمام راستے بندکررہے ہیں توپھریقیناًآپ کوکسی دشمن کی ضرورت نہیں۔مجھے تویوں محسوس ہورہاہے جیسے ’’عبرت‘‘ کی ٹک ٹک سے مظلوموں کو’’کن فیکون‘‘ کاگمان ہونا شروع ہوگیاہے۔ ان کی بد نصیبی اوربے بسی کایہ حال ہے کہ اپنے ان کے خلاف ہورہے ہیں۔ ان کے اعمال پردکھی اورشرمندہ ہورہے ہیں۔ انہیں نشان عبرت بنتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
کھلے کانوں سے ان صداؤں کوبھی سن لیں’’ تمام راستے بند کردو،ایک ایک خون کاگن گن کرحساب لواوراب اٹھارہ کروڑ کی گونج للکار میں بدلتی جارہی ہے۔دھواں اب آتش فشاں بن چکاہے۔ مظلوم رات بھرنہیں سوتا ۔ بددعاؤں اوراللہ کے درمیان کوئی پردہ بھی حائل نہیں۔ دشمن بھی ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ’’اللہ تعالیٰ ظالم کوڈھیل دیتارہتاہے مگر جب اسے پکڑ لیتاہے تواسے قابل عبرت بنادیتاہے ۔ ‘‘ پھردیرکہاں ہے؟ دیرہے لیکن اندھیر نہیں۔آخرکب تک وفاشعار اپنی گردنیں کٹاتے رہیں گے اورغداروطن ان پرمحل تعمیر کرتے رہیں گے، پاکستان کی تقدیرسے کھیلنے والوں کے لئے بڑا سوالیہ نشان ہے؟؟
پتہ نہیں کس کے آنسو اور کس کی بے کسی اس رب کائنات کے غضب کاباعث بنی ہے کہ ہرکوئی ایک دوسرے سے سوال کرتا پھررہا ہے،کیاہونے والاہے،آفت کے آثار کیوں ہیں ، بلاؤں کاخوف کیوں ہے؟ہواؤں کے فیصلے کوٹالنے کاایک ہی راستہ میرے اللہ نے بتایاہے،گڑگڑا کر،آنسو بہا کر،عجزوانکسارکے ساتھ پوری قوم معافی کی طلبگار ہوتو غضب رحمت میں بدل جاتاہے لیکن قوم کویہ درس کون دے جودرس دے سکتاہے وہ توحالات کوخودبدلنے کے دعوے کررہے ہیں۔
محشر بدایونی کا شعر یادآرہاہے
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دئیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

«
»

کیا ہندوستان فاشزم کے راستے پر جارہا ہے؟

مسلمان صحابۂ کرام کو نمونۂ عمل بنائیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے