کچھ کر گزرئے اس سے پہلے کے آپ کا نمبر آئے

ذوالقرنین احمد

تبریز انصاری کی موت کا ذمہ دار اس لاچار سسٹم، یا ملی تنظیموں کو ٹھہرانے سے کچھ نہیں ہونے والا یہ دیکھے میں اور آپ سوشل میڈیا کے علاوہ زمینی سطحی پر کیا اقدامات کر رہے ہیں، ایک سیکھ پر حملہ ہونے پر ساری سکھ برادری نے پولس کو مجرم ٹھہرایا اور زبردست احتجاج کیا جس میں  کچھ پولس والوں کو عہدے سے مستعفی کردیا گیا۔ وہاں تو صرف زد و کوب کیا گیا تھا۔ لیکن ہمارے سامنے اخلاق سے لیکر  تبریز جیسے درجنوں بے گناہوں کو ہجومی تشدد کے زریعے قتل کردیا گیا، ہم صرف سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ نام کے ساتھ ہیش ٹیگ لگا کر میسج فارورڈ کریں گے۔ دو چار پانچ ریلیاں نکالے گئے۔ بڑے شہروں میں اندولن کریں گے۔ ایک دو میمورنڈم کلکٹر کو دے گے۔ جس میں مقتول کو انصاف کی مانگ کی ہوئی ہونگی اور ایک سرکاری نوکری  کا مطالبہ چند لاکھ روپے کیا یہی مسلمانوں کے خون کی قیمت ہیں۔

 اور پھر اگلے نمبر کا‌‌ انتظار کریں گے۔ پھر وہی سب دہرائے گے۔ نہ حکومت کوئی قانون سازی کر رہی ہے۔ نہ ہم دفاعی نظام یا اقدامات کیلے کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کی فکر کر رہے ہیں۔ صرف ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے میں لگے ہوئے ہیں۔

 اس لیے اپنے نمبر کا انتظار کیے بغیر سر جوڑ کر بیٹھے شہر کے سنجیدہ غیور سمجھدار نوجوانوں اور باشعور افراد کو لے کر سوچیے کوئی پالیسی بنائیے، دفاعی نظام سے لیکر اقدامات کی تیاری کریں۔ سب سے پہلے اپنے طور پر حفاظتی اقدامات جاری رکھتے ہوئے حکومت پر دباؤ بنائیے سسٹم کو ہوش میں لائے، پولس کو فوری طور پر ایسے افراد کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنے کیلے دباؤ ڈالے اور ایسے حادثات جہاں کہی بھی ہوتے ہیں تو وہاں پولس کو فوری پہچنے کیلئے کوئی سسٹم کو قائم کرنے کیلئے پالسی اختیار کرنے کیلئے کہے۔  ایسے حالات میں اپنی حفاظت کیلے کیا کرنا چاہیے اس کیلئے پولس ڈپارٹمنٹ سے قانونی طور پر کیسے دفاع کیا جاسکتا ہے۔ اپنی جان بچانے کیلے مجرم کو کیسے روکا جا‌سکتا ہے اس کیلئے بیداری پیدا کریں پروگرم منعقد کریں‌۔ اپنے گھر کے ہر فرد کو صحت مند رکھنے کیلئے ورزش کرنے کی تلقین کریں۔ ہر برے سے برے حالات سے‌نمٹنے کیلئے خود کو تیار رکھے۔ اور تفرقوں،  جماعتوں کے اختلافات کو بلائے طاق رکھتے ہوئے ملی غیرت و حمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں جس حد تک ممکن ہو اگر آپ مالی طور پر امداد کر سکتے ہیں، یا آپ طاقتور ہے ،تو کسی مسلمان کے مشکل کام میں ہاتھ بٹائے، اگر آپ وقت دے سکتے ہیں تو ملی کاز کیلے اپنا وقت دے۔ خالی وقت کا صحیح استعمال کریں۔ ایسے  غیر مسلم جن سے لین دین ہے روزانہ ملتے ہیں دیکھتے ہیں۔ تو  اپنے کام کاج کو اسلامی شریعت کے مطابق انجام دے کر اپنے  اخلاق و کردار سے متاثر کریں، انہیں اسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرائے۔ انکے ہر خوشی و غمی کے موقع پر شریک رہے۔ خاص طور سے غریب غیر مسلم طبقات کے ساتھ ہمدری کا رویہ اختیار کریں۔ آدیواسی علاقوں میں جا کر مفت طبی کیمپ لیکر ان کے سامنے اسلامی تعلیمات بھی پیش کریں۔ جو جماعتیں اور تنظیمیں قومی یک جہتی کے پروگرام منعقد کر رہی ہیں انہیں چاہیے کہ اس میں زیادہ پیسوں کو صرف کرنے کے بجائے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کیلے اسکول و کالج کا قیام کریں۔ چھوٹی چھوٹی کمپنیاں قائم کریں۔ اور مسلمانوں کو معاشی طور پر مضبوط کریں ایڈمنسٹریشن و دیگر پرائیوٹ سیکتر پر اتنا زیادہ زور دیں کے کچھ ہی عرصے میں منظم طریقے سے معاشی طور پر مسلمان مستحکم ہوجائے۔ اور غیر انکے دست نگرانی میں کام کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ جب یہ لوگ معاشی طور پر کمزور ہو گے تو ایسے ہجومی تشدد کرنے سے پہلے اور اسلامی شریعت کے خلاف زہر گھولنے سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور ہوگے،  کیونکہ انکا  معاشی نظام مسلمانوں کے دسترس میں ہوگا۔ 

میری یہ بات شاید کسی کو خواب و خیال لگے لیکن ایسے حالات میں مسلمانوں کو کچھ کر گزارنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اس لیے اپنے آپ کو اپنے گھر والوں کو ہر لحاظ سے مستحکم بنائے ہر محاذ کیلے تیار کریں انکے ایمان کو مضبوط کرنے کیلے گھروں میں درس قرآن و درس حدیث کا اہتمام کریں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قربانیوں کو انکے سامنے بیان کریں۔ بہادر شخصیات کی تاریخ سے انہیں روشناس کرائے۔  کہ اگر موت کا سامنا کرنا پڑیں تو آخری الفاظ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو۔ کسی کے دباؤ اور ظلم سے ہمارے ایمان میں تضاد پیدا نہ ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ) 

25جون2019(فکروخبر)

«
»

مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات

چمکی بخار کا قہر اور ہمارا نظام صحت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے