تحریر ۔ سید احمد ایاد ہاشم ندوی مجھے کچھ دنوں سے والد ماجد کا مسلسل یہ حکم مل رہا ہے کہ بیٹا! مضامین لکھنے کی عادت ڈالو،اپنی مافی الضمیر کو اچھے اور سلجھے ہوئے اسلوب میں اداکرنے کی کوشش کروبالخصوص حالاتِ حاضرہ کے پس منظر مختصر پیغامات سپردِ قرطاس کرو! جس حکم کی تعمیل […]
مجھے کچھ دنوں سے والد ماجد کا مسلسل یہ حکم مل رہا ہے کہ بیٹا! مضامین لکھنے کی عادت ڈالو،اپنی مافی الضمیر کو اچھے اور سلجھے ہوئے اسلوب میں اداکرنے کی کوشش کروبالخصوص حالاتِ حاضرہ کے پس منظر مختصر پیغامات سپردِ قرطاس کرو!
جس حکم کی تعمیل میں کاپی اور قلم لے کر بیٹھ گیا،مگر قلم لکھتے وقت اسی طرح رک رک کر الفاظ کو حوالہ قرطاس کر رہا ہے جس طرح کہ اب دنیا کورونا وائرس کے بحران سے لڑنے کے لئے آہستہ آہستہ اپنی رکی ہوئی معیشت کو حرکت دینے کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔
میرا یہ ورق یہ جملے اور یہ الفاظ پڑھنے والوں کے ہاتھ میں کب پہنچیں؟ اور اس وقت دنیا کا کیا حال ہو؟ اور دنیا اس وقت کن کن آفات اور مصیبتوں سے دوچار ہو چکی ہو ، اسے خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔
لیکن یہ ورق جس کے ہاتھ میں جب بھی پہنچے وہ ضرور غور کرے گا کہ کورونا وائرس (کووڈ 19) نے کس طرح تمام بتوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے! اور کس طرح اس وبائی مرض نے پوری دنیا کو خوف و ہراس کی حالت میں ڈراکر اپنے اپنے کاموں اور شبانہ روز مصروفیتوں سےیکسر رکا دیا ہے؟ یا اس وقت قارئین میں وہ احباب بھی ہوں گے جو اس بیماری کے پیچھے ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کرنے میں لگے ہوں گے یا وہ ان کوبے نقاب کر چکے ہوں گے، اور وہ سب جان چکے ہونگے کہ "نئی سہولیات کا ارتقاء پوری دنیا کو کس طرح سے برباد کرسکتی ہے، اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے میں جتنی آسانیاں تھیں اب اتنی ہی تکلیفوں اور خسارے کا باعث بھی بن چکی ہیں۔
بہر کیف کورونا کی وجہ سے کیا شر کے پہلو سامنے آئے اور کیا کیا خیر کے، اس کا فیصلہ تو آنے والا مؤرخ اور تجزیہ نگار ہی کر سکے گا، البتہ اس مناسبت سے مجھے عالمِ اسلام کے مشہور ادیب علی طنطاوی علیہ الرحمہ کا وہ مشہور جملہ یاد آرہا ہے جسےانہوں دوسری بار حج بیت اللہ ہوائی پرواز سے سفرکرنے کے بعد کہاتھا ،اس لیے کہ وہ اس سے پہلے ایک مرتبہ سمندری راستے سےحج بیت اللہ کا سفر کر چکے تھے۔ دوسری بار ہوائی جہاز سے سفر کرنے کے بعد آپ نے اپنا وہ تاثراتی اور تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ(ربحنا الوقت وخسرنا العاطفة) یعنی ہم نے وقت کی بچت کر نے سے تو فائدہ اٹھایا مگر روحانی اندرونی کیفیات اور جذبات کا نقصان کیا۔
وقت سے فائدہ اٹھایا ، مسافت مختصر ہوگئ اور گھنٹوں میں کعبۃ اللہ حاضری ہوئی، لیکن پہلی بار سمندی جہاز سے آنے میں یقینا ہفتے سفر میں گزرے مگر جو شوق اور جذبات دلوں میں پنہاں تھےوہ کچھ الگ ہی تھے جو اب مفقود ہوگئے،جو تمنائیں آرزوئیں پہلی بار تھیں وہ اب نہیں رہیں، دعاؤں کے الفاظ کے ساتھ جو روحانی کیفیات تھیں وہ اب گویا ناپید سی ہو گئیں۔
شیخ علی طنطاوی کے انہی الفاظ کو ذرا بدل کر اب اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ
(ربحنا الوقت وخسرنا الدنيا) یعنی ہم نے وقت سے تو فائدہ اٹھایا مگردنیا کا خسارہ کردیا، وقت مل گیا، تجارتیں بند ہو گئیں تو گھروں میں محصور ہو گئے، بازار بند ہو گیا تو ملازم بھی باہر نہیں نکل سکے، جو سالہا سال سے اپنی تجارتوں میں مشغول رہ کر گھروں کے نظام اور معاشرتی ذمہ داریوں کو نباہنے میں کوتاہیاں کر رہے تھے، اب انھیں گھر میں کچھ وقت رہنے کا وقت مل گیا، بے شک دنیا کا کچھ خسارہ ہوا مگر اپنے ماں باپ کی صحبت اور ان کی خدمت سے فائدہ اٹھا یا، سہی کے ملازمت میں نہیں جا سکے مگر بیوی بچوں کے ساتھ کچھ ایام گزار لیے، ان کی تربیت کی طرف توجہ رہی، گھروں میں دینی اعمال کو زندہ کرنے کا موقعہ ہاتھ آیا اور خوف وہراس کے اس ماحول میں بھی کچھ دن اور کچھ ہفتے لطف اندوز ہونے کا موقعہ ملا، جس کی گواہی ہر ایک نے دی ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں