اگر وہ سچ بولتے تو اس واقعہ میں ملائم سنگھ کا ذکر ہی نہ کرتے ملائم سنگھ تو 1990 ء میں اپنا فرض ادا کرچکے تھے 1992 ء میں تو بی جے پی کی حکومت تھی جس کا وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ تھا۔ اس نے ہی سپریم کورٹ میں جھوٹا حلف نامہ داخل کیا تھا کہ آنے والے کتنے ہی آجائیں مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہونچے گا۔
ایک ہفتہ کے بعد پھر 6 دسمبر آرہی ہے اور مسلمانوں میں پھر یوم غم منانے کے پروگرام بن رہے ہیں۔ اسی سلسلہ کی ایک خبر سامنے ہے کہ مالے گاؤں میں 6 دسمبر کو یوم سیاہ منانے کے لئے لوک سنگھرش سمیتی دس ہزار کالے غبارے اُڑاکر احتجاج کرے گی۔ بابری مسجد کی شہادت کا جس مسلمان کو غم نہ ہو اُس کے مسلمان ہونے میں شک کیا جائے گا لیکن غم منانے کے طریقہ کے اوپر عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ ہم دس ہزار کے بجائے دس لاکھ سیاہ غبارے اُڑا دیں تب بھی کسی پر کیا اثر ہوگا؟ ہائی کورٹ نے اس مقدمہ کا جو فیصلہ کیا تھا اسے سب نے مذاق سمجھا اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اب پورا مسئلہ سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے جہاں ایک نہیں دس کلیان سنگھ اور دس نرسمہاراؤ بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ ہوگا وہ جو وہ چاہے گا جس کا وہ گھر تھا وہی ان ججوں کے دماغ میں وہ ڈالے گا جو اُس کے سامنے سر جھکانے والوں کے لئے مفید ہوگا۔
مالے گاؤں مہاراشٹر کا ایک ایسا شہر ہے جس سے ہمارا قلبی تعلق ہے آدھی صدی پہلے جب ہم ہفت روزہ ندائے ملت نکال رہے تھے اخباری دنیا سے وابستہ لوگون کو حیرت ہوگی کہ مالے گاؤں کی ایجنسی 300 کاپیاں منگواتی تھی اور جب ہم 9 مہینے جیل میں ہندو افسروں کا کلیجہ ٹھنڈا کرکے واپس آئے اور آکر ہم نے گرفتاری اور جیل کی روداد۔ ’’رودادِ قفس‘‘ قسطوں میں لکھنا شروع کی تو چند قسطوں کے بعد ہی سب سے زیادہ زوردار طریقہ سے بلانے والوں میں مالے گاؤں کے مسلمان تھے۔ پھر ہم جب ان کے تقاضوں سے مجبور ہوکر گئے تو وہاں کے غیرت مند مسلمانوں نے وہ عزت افزائی کی اور اس خلوص کا مظاہرہ کیا کہ آج پچاس سال کے بعد بھی ہم نہیں بھول سکے ہیں۔
مالے گاؤں میں ماشاء اللہ دین بھی خوب نظر آیا اور دنیا بھی اور ملت کا درد بھی۔ یہ فخر مالے گاؤں کو ہی حاصل ہے کہ لڑکیوں کے دینی مدرسے کی بنیاد سب سے پہلے مالے گاؤں میں ہی رکھی گئی اور یہ اسی کا فیض ہے کہ صرف لکھنؤ میں کم از کم ہمارے علم میں دس مدرسے لڑکیوں کے چل رہے ہیں اور شاید ہی کوئی شہر یا قصبہ ایسا بچا ہو جس میں مسلمانوں کی معقول تعداد ہو اور وہاں لڑکیوں کا دینی مدرسہ نہ ہو۔ اسی وجہ سے مالے گاؤں سے ہمیں بہت محبت ہے اور ہندو انتظامیہ کے کلیجوں میں ان کی دینداری اور ملت سے محبت ہی چھریوں کی طرح چبھتی ہے۔ یہ وہی مسلم دشمنی ہے جس کے نتیجہ میں ہندوؤں کے بم دھماکوں کا الزام بھی مسلمانوں پر لگا اور ایسا مضحکہ خیز کہ مسجد مسلمانوں کی قبرستان مسلمانوں کا اور بم دھماکوں کا الزام بھی مسلمانوں پر۔ اگر ہیمنت کرکرے پردہ نہ اُٹھاتے تو یہ داغ عمر بھر مالے گاؤں کے لگا رہتا۔ اور کبھی بھی کوئی ہندو گرفت میں نہ آتا۔
جذبات نے قلم کو دوسرے راستے پر ڈال دیا لکھنے یہ بیٹھے تھے کہ ہم اپنی محبت کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں کہ خالص دینی مسئلہ میں گھٹیا قسم کی دنیاداری کا مظاہرہ اچھا نہیں لگتا۔ ہم تائید کریں گے ہر اُس مسلمان کی جو 6 دسمبر کو یوم غم یا یوم سیاہ منائے لیکن احتجاج، دھرنا، جلوس اور نعروں کے بجائے اس دن روزہ رکھے اور زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گذارے نفل پڑھے اور دعا کرے کہ پروردگار بابری مسجد کے مقدمہ کا فیصلہ ایسا کرنے کی توفیق دے کہ کوئی ہندو سر اُٹھانے کے قابل نہ رہے اور یہ بھی دعا کریں کہ اے پروردگار اگر شہنشاہ بابر کے صوبہ دار میرباقی نے واقعی کسی مندر کو گراکر اس کی زمین پر مسجد بنائی ہو تو فیصلہ مسلمانوں کے خلاف کردے تاکہ ہم اسے تسلیم کرکے دنیا کو دکھا دیں کہ ہم انصاف کے ماننے والے ہیں۔
مالے گاؤں میں دو بار ایسا ہوا ہے کہ حرکت ہندوؤں نے کی ہے اور گرفتار مسلمان ہوئے ہیں یہ اس زمانہ میں ہوا ہے جب حکومت کانگریس کی تھی مرکز میں بھی کانگریس تھی اور صوبہ میں بھی کانگریس اور نیشنل کانگریس کی تھی جبکہ آج پوزیشن یہ ہے کہ مرکز میں مودی کی حکومت ہے جسے آر ایس ایس کے مکھیا موہن بھاگوت اور 40 ملکوں کے پندرہ سو ہندو نمائندے ہندو حکومت کہتے ہیں جو آٹھ سو سال کی غلامی کے بعد ملی ہے اور صوبہ میں بی جے پی کی حکومت ہے جو شاید 6 دسمبر کے آتے آتے شیوسینا کو شامل کرکے دو آتشہ ہوچکی ہوگی۔ اس لئے صرف یہ کہنا کہ ہم گاندھیائی طرز پر پرُامن احتجاج کریں گے کافی نہیں ہے۔ اس لئے کہ مالے گاؤں والوں کو کون بتائے کہ انہوں نے تو احتجاج بھی نہیں کیا تھا اور مسجد سے اُنہیں پکڑکر لائے اور مکوکا لگا دیا۔
ہم اپنی اس محبت کا واسطہ دے کر کہہ رہے ہیں جو ہمیں مالے گاؤں سے ہے اور اس وقت بھی اسی مالے گاؤں کی بنی ہوئی لنگی پہنے بیٹھے ہیں جس کی فکر ہے کہ غبارے اُن کی دینی حمیت کے خلاف ہیں کیونکہ یہ اصراف ہے اور مالے گاؤں کی لڑکیاں بھی جانتی ہیں کہ ’’انّ اللہ لایحب المصرفین‘‘ بات صرف مالے گاؤں کی نہیں ہم ہر اُس گروہ سے عرض کررہے ہیں جو اسی احتجاج کا پروگرام بنا رہا ہے کہ سب روزہ رکھیں زیادہ وقت مسجد میں گذاریں اور سب مل کر مسجد میں ہی افطار کریں اور دعا کریں کہ فیصلہ ایسا ہو جو مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو۔ آمین
جواب دیں