کوئی جھوٹ بول دے کوئی منھ چرالے

انہوں نے کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومتوں میں ہمارے لوگ ہیں لیکن میں سچ کہہ رہا ہوں کہ بی جے پی ایک آزاد اور خودمختار پارٹی ہے۔ اور جیسا میڈیا کہتا ہے ایسا کوئی ریموٹ ہمارے پاس نہیں ہے۔
ایک تو پاک پروردگار کا حکم ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی اور کی پرستش کرتے ہیں تم ان کو برا نہ کہو۔ اس لئے کہ وہ جواب میں اللہ تعالیٰ کی شان میں انجانے میں گستاخی کردیں گے۔ (آزاد ترجمہ) دوسری بات یہ کہ حدیث شریف میں بھی حکم دیا گیا ہے کہ ’’اکرموکریم قومٍ‘‘ کسی بھی قوم کے بڑے اور محترم کا تم بھی اکرام کرو۔ اور جس گود میں پرورش ہوئی ہے اور جن کی تربیت میں ناخلفی کے باوجود کچھ نصیب ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ ’’انہوں‘‘ نے غلط کہا ہے۔ لیکن ہمیشہ یہی کہا کہ ان سے دوسروں نے غلط کرالیا وہ ایسا نہیں کرسکتے۔
موہن بھاگوت صاحب کریم قومٍ کے زمرے میں آتے ہیں وہ ملک کے کروڑوں ہندوؤں اور صاحب اقتدار حاکموں کے محترم مکرم ہی نہیں آقا ہیں۔ اس لئے بڑی مشکل سے ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ سچ نہیں کہہ رہے ہیں۔ یہ بات بھی غلط اور بالکل غلط ہے کہ بی جے پی آزاد اور خودمختار پارٹی ہے۔ وہ اس سے کہیں زیادہ ان کی غلام ہے جتنی کانگریس سونیا کی، بی ایس پی مایاوتی کی، سماجوادی ملائم سنگھ کی۔ اس لئے کہ اور کسی پارٹی کا کوئی ورکر سر اُٹھائے تو زیادہ سے زیادہ اسے پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن آر ایس ایس سے جڑی ہوئی تنظیموں میں سے کوئی ایسی ہمت کرے تو وہ اوپر پہونچا دیا جاتا ہے۔
کیا بھاگوت صاحب اس سے انکار کرسکتے ہیں کہ نتن گڈکری کو بی جے پی کا صدر بناتے وقت انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اور کوئی اس قابل نہیں ہے؟ کیا یہ حکم نہیں دیا تھا کہ دستور میں تبدیلی کردو اور گڈکری دوبار صدر رہیں گے؟ اور جب بدنامی دھوکہ اور فریب کھلا تو کہا انہوں نے ہی راج ناتھ سنگھ کو یہ کہہ کر صدر بنانے کا حکم نہیں دیا تھا کہ دوسروں کے مقابلہ میں آر ایس ایس کے سب سے زیادہ بھروسے کے راج ناتھ سنگھ ہی ہیں؟ اور کیا پرچار کمیٹی کا کنوینر اور وزیر اعظم کا امیدوار مودی کو آپ نے نہیں بنایا تھا؟ اور جب دوبار اڈوانی جی ناراض ہوکر گھر بیٹھ گئے اور تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تو کوئی دوسرا تھا جس کے حکم سے انہوں نے گردن ڈال دی؟ یہ صرف موہن بھاگوت صاحب نہیں آر ایس ایس کی فوج کے کمانڈر انچیف کی طاقت ہے جو اس وقت بھاگوت صاحب ہیں دن کے بارہ بجے سے زیادہ روشن سچائیوں کی روشنی میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ سچ نہ اب بول رہے ہیں اور نہ پہلے بولے ہیں۔ مرکز اور ریاستی حکومت میں جو اُن کے آدمی ہیں ان کی طاقت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سے زیادہ ہے اور یہ سب نے اس وقت دیکھا ہے جب کشمیر میں حکومت بن رہی تھی اور بی جے پی کے وزیر اور لیڈر صرف پنکھا جھل رہے تھے اور شری رام مادھو معاملات طے کررہے تھے۔ جو برسوں سنگھ کے ترجمان رہ چکے تھے اور اب آپ نے انہیں پارٹی کی اندرونی قیادت سونپ دی تھی۔
بھاگوت صاحب نے گائے کے متعلق کہا ہے کہ کینیا (افریقہ) میں لوگ زندگی بچانے کے لئے گائے کا خون تو پیتے ہیں مگر اسے مارتے اور کھاتے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خشک سالی جیسے حالات میں زندگی کی حفاظت کے لئے گائے کا خون پیتے ہیں لیکن کھاتے نہیں کیونکہ وہاں پابندی ہے۔ خشک سالی اور انسانی زندگی کے لئے گائے کے خون کے فلسفہ کو بھاگوت صاحب ہی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہ جانوروں کے علاج کی ٹریننگ حاصل کرچکے ہیں۔ حیرت ہے کہ مہاراشٹر کی خشک سالی سے پریشان جو کسان خودکشی کررہے ہیں انہیں مودی صاحب نے کیوں گائے کا خون پینے کا مشورہ نہیں دیا؟ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم انہیں بتادیں کہ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر خون، مردہ جانور، سور کا گوشت اور بلی چڑھایا ہوا جانور حرام کردیا ہے۔ اس لئے چاہے سارا ملک خوشحالی سے پھٹ جائے مسلمان گائے کا خون نہیں پی سکتا۔ ہاں گوشت اگر کہیں ملے تو کھا سکتا ہے۔ جیسے روس میں جائیں تو ہر ہوٹل میں زیادہ گوشت گائے کا ملے گا۔
سابق نیوی چیف ایڈمرل رام داس نے جو کھلا خط صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کے نام لکھا ہے اس میں کہا ہے کہ دلتوں اور پے در پے اقلیتوں پر ہورہے حملوں نے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگ اس طرح کے واقعات کی مذمت بھی نہیں کررہے ہیں۔ ایڈمرل رام داس صاحب نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبر کابینی وزیر اور ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بیان بازی میں تو خود کو آگے رکھ رہے ہیں۔ لیکن ایسے واقعات پر روک لگانے لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے کوئی سخت ایکشن نہیں لے پارہے ہیں۔
مسٹر رام داس نے معلوم کیا ہے کہ آج معاشرے میں ایسے واقعات کیوں بڑھ گئے ہیں، کیوں اقلیتوں اور دلتوں پر حملے ہورہے ہیں؟ انہوں نے سنگھ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی گھناؤنی حرکات آر ایس ایس کی سوچ میں ہیں جو ہندو راشٹر پر کام کررہا ہے۔ یہ خیال معاشرے کو تقسیم کررہا ہے۔ آخر میں انہوں نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ آج مسلمانوں سے وفاداری کے ثبوت مانگے جارہے ہیں۔ ان کے مذہبی مقامات پر حملے کئے جارہے ہیں۔ ان کی کھانے پینے کی عادات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جبکہ یہ چیزیں بنیادی آزادی میں آتی ہیں۔ اس معاملہ میں وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کی ناکامی صاف جھلک رہی ہے۔
مسٹر رام داس کا یہ خط ایک آئینہ ہے۔ ہمارے نزدیک ہریانہ میں دو معصوم بچوں کا زندہ جل کر مرجانا اور اس کے باپ کے دونوں ہاتھ جل کر ناکارہ ہوجانا اتنا شرمناک واقعہ ہے جس کے بعد کم از کم وزیر اعلیٰ کو خود مستعفی ہوجانا چاہئے تھا۔ اس لئے کہ وہ صرف سنگھ کے پرچارک رہے ہیں۔ انتظام اور حکومت کا انہیں کوئی تجربہ نہیں ہے اور جب ریاست کے افسر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ مکھیا منتری اے بی سی ڈی بھی نہیں جانتے تو وہ ان کا ایسا ہی حشر کرتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ راج ناتھ سنگھ جو بی جے پی کے صدر تھے تو پہلی آواز پر پہونچ جاتے تھے۔ اب داخلہ کے وزیر ہیں تو رپورٹ منگوا رہے ہیں؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ ڈی ایم، ایس ڈی ایم سے کہیں گے وہ تحصیلدار سے کہیں گے۔ وہ نائب سے کہے گا۔ وہ قانون گو سے کہے گا اور وہ لیکھ پال کے سر پر ڈال دے گا۔
ڈی ایم جو رپورٹ بھیجیں گے وہ وہی رپورٹ ہوگی جو لیکھ پال دے گا اور لیکھ پال کے ہاتھ میں 100 روپئے کا نوٹ رکھ کر اس سے جو جی چاہے لکھوایا جاسکتا ہے۔ اسے راج ناتھ سنگھ بھی جانتے ہیں وزیر اعظم بھی اور ہم بھی۔ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ کتنے مجبور ہیں۔ اور ایسی ہی رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ آخری درجہ کے ظلم کے الزام کو باہمی تنازعہ کہہ دیا گیا جس کی کوئی ذمہ داری نہ پولیس پر ہے نہ سرکار پر اور اس کا نتیجہ ہے کہ پولیس والوں کو معطل کردیا گیا۔ یعنی عیش کرو آدھی تنخواہ اس وقت لو باقی تین مہینے کے بعد جب بحال ہوجانا تو لے لینا۔ جبکہ دادری، مین پوری، ہمانچل، ہریانہ وغیرہ وغیرہ میں اگر پولیس والوں کو 302 کا ملزم بناکر جیل بھیجا جاتا اور ان پر ان واقعات کی ذمہ داری ڈالی ہوتی تو کوئی نتیجہ نکل بھی سکتا تھا۔ پولیس پر کوئی حکومت اس لئے ہاتھ نہیں ڈالتی کہ وہ بھی آر ایس ایس کا حصہ بن گئی ہے۔
وزیر اعظم کی من کی بات پورے ملک میں انتہائی توجہ سے سنی جاتی ہے۔ اب جو انہوں نے کہا ہے یہ وہ وقت ہے جب ملک کا دانشور طبقہ جسے کریم کہا جاتا ہے وہ دل برداشتہ ہوکر اپنے ایوارڈ واپس کررہا ہے اور انعام بھی۔ اور سابق نیوی چیف ایڈمرل رام داس نے اپنے خط میں مودی سرکار اور سنگھ کو ذمہ دار بتایا ہے۔ ایسے میں من کی بات میں انتہائی شرمناک اور دنیا میں ملک کو بدنام کرنے والی حرکتوں پر قوم سے کوئی بات کہنے کے بجائے اس سے یہ کہنا کہ اپنا سونا بینک میں جمع کردو اور چھوٹی نوکریوں کے لئے انٹرویو ختم ہوجائے گا۔ حالات سے منھ چرانا نہیں تو اور کیا ہے؟

«
»

دوقدم تم بھی چلو۔۔۔

بے چارہ گائے کاہتھیارہ کیوں ماراگیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے