اس کے علاوہ بہار میں بھی خلاف توقع نتائج منظرِ عام پر آئے،لالو یادوکے جیل سے باہر نکل کرکیمپیننگ کرنے اورپوری طاقت و قوت کے ساتھ فرقہ پرستی سے مقابلہ کرنے کے نعروں سے یہ اندازہ لگایا جارہاتھا کہ آر جے ڈی۔کانگریس اتحاد کو کم ازکم بیس پچیس سیٹیں ضرور حاصل ہوں گی،اسی طرح صوبے کی تعمیروترقی اورمودی سے براہِ راست لوہالینے کی وجہ سے نتیش کمار کو بھی یہ یقین تھا کہ ان کی پارٹی کا رزلٹ بھی اطمینان بخش ہوگا،مگر جب نتائج سامنے آئے،تو پتا چلا کہ نتیش جی محض دو سیٹوں پر سمٹ گئے،آرجے ڈی کو چار پر منحصر ہونا پڑا،کانگریس دو پر محدود ہوکر رہ گئی ،جب کہ بی جے پی نے ۲۲سیٹوں پر براہِ راست قبضہ کیا اورایل جے پی اور راشٹریہ لوک سمتا پارٹی کے تمام تر امیدواروں کی کامیابی کے ساتھ این ڈی اے بہار کی چالیس سیٹوں میں سے ۳۱پر اپنی فتح کا علم لہرانے میں کامیاب رہا۔اسی طرح حیرت انگیز طورپر بی جے پی نے گجرات اور راجستھان کی تمام تر سیٹوں پر کانگریس سمیت کسی بھی پارٹی کی دال نہ گلنے دی اور ساری نشستیں لے اُڑی۔
یہ تو ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات کے عمومی ریکارڈس تھے،مگر مسلم نمایندگی کی سطح پر بھی یہ الیکشن کم چونکانے والا ثابت نہیں ہوا،آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سب سے زیادہ پارلیمانی سیٹوں والے صوبہ اتر پردیش سے مسلم نمایندگی صفر پر جا ٹھہری؛حالاں کہ اس صوبے میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے سب سے زیادہ مسلم امیدوار اتارے گئے تھے،بی ایس پی نے ۱۹،ایس پی نے۱۳ اورکانگریس نے ۱۱مسلم امیدوار وں کو ٹکٹ دیے تھے،جب کہ محمد ادیب خود ساختہ راشٹروادی سماج پارٹی سے بجنور پارلیمانی حلقے سے اورڈمریاگنج سے ڈاکٹرایوب اپنی پیس پارٹی سے میدان میں تھے،مگر ان میں سے کسی بھی امیدوار کو کامیابی نہیں ملی،گزشتہ لوک سبھاالیکشن میں اس صوبے سے ۷ممبران منتخب ہوئے تھے، مہاراشٹر سے بھی اس بارایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوا،اس سلسلے میں مغربی بنگال اول نمبر پر رہاکہ وہاں سے کل ۸؍مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ منتخب ہوکرآئے،جب کہ بہار سے چار،کیرل سے چار،جموں و کشمیر سے تین، آسام سے دو،جب کہ آندھرا پردیش،تملناڈو اورلکشدیپ سے ایک ایک مسلم امیدوار کامیاب ہوئے،گجرات کا چالیس سالہ ریکارڈ برقراررہا اور وہاں سے ایک بھی مسلم امیدوارمنتخب نہیں ہوا،آخری بار۱۹۸۴ء میں گجرات سے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ احمد پٹیل کی شکل میں منتخب ہواتھا، آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کے تمام لوک سبھا انتخابات میں مسلم نمایندگی کچھ یوں رہی ہے:۱۹۵۲ء کے انتخابات میں۱۱،۱۹۵۷ء میں ۲۳،۱۹۶۲ء میں ۲۰،۱۹۶۷ء میں ۲۵،۲۹۷۱ء میں ۲۸،۱۹۷۷ء میں۳۴،۱۹۸۰ء میں۵۱،۱۹۸۴ء میں۴۲،۱۹۸۹ء میں۲۷،۱۹۹۱ء میں۲۵،۱۹۹۶ء میں ۲۹،۱۹۹۸ء میں ۲۸،۱۹۹۹ء میں ۳۱،۲۰۰۴ء میں ۳۴ اور۲۰۰۹ء میں مسلم ممبران پارلیمنٹ کی تعداد۲۹رہی ہے،ویسے شروع میں لوک سبھا سیٹوں کی کل تعداد بھی اَبھی سے کم تھی اور اس اعتبار سے ان کی نمایندگی بہت زیادہ تشویش ناک نہیں تھی،مگر حالیہ الیکشنوں میں مسلم نمایندگی میں جو غیر معمولی انحطاط آیاہے،اس نے مسلم سیاست و قیادت پر سوالیہ نشان لگاکر رکھ دیاہے،۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا۴ء۱۳فیصدہے یعنی تقریباً ۱۴فیصداور اس اعتبارسے پارلیمنٹ میں ان کی نمایندگی ۸۰کے لگ بھگ ہونی چاہیے،مگر فی الوقت مختلف صوبوں سے جو امیدوارکامیاب ہوکر آئے ہیں،ان کی کل تعداد صرف۲۳ہے،یعنی مطلوبہ تعدادکا ایک چوتھائی حصہ،سولہویں لوک سبھا کی ایک اور حیرت ناک؛ بلکہ افسوس ناک بات یہ ہوگی کہ مودی کی قیادت میں تشکیل پانے والی کابینہ میں ایک بھی مسلم چہرہ نہیں ہوگا؛کیوں کہ بی جے پی نے پورے ملک میں صرف ایک مسلمان شاہنواز حسین کوبہار کے بھاگلپور سے ٹکٹ دیاتھا اوروہ بھی شکست کھاچکے ہیں۔
ایک تو یوں ہی آر ایس ایس کی قیادت و سرپرستی والی این ڈی اے کی حکومت میں ملک کی سالمیت و سلامتی،بالخصوص مسلمانوں کے تحفظ کے حوالے سے کئی قسم کے سوالات ابھر رہے ہیں اور اس پر مستزادپوری حکومت میں ایک بھی مسلم چہرے کے نہ ہونے سے ان میں مزید خدشات اور اندیشے پیدا ہورہے ہیں،بی جے پی نے حسبِ سابق اس بار بھی اپنے انتخابی منشور میں کئی متنازع ایشوز کو جگہ دی تھی،جن میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر،یکساں سول کوڈکا نفاذ،کشمیر سے متعلق آرٹیکل ۳۷۰کی منسوخی جیسی چیزیں شامل تھیں،جنھیں عملی جامہ پہنانے کا اُسے بھر پور موقع مل گیا ہے،صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے،جو این ڈی اے کے بالمقابل حزبِ اختلاف کا بھی رول اداکرنے کی پوزیشن میں ہو،ایسے میں سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت پر آمریت کے خطرات منڈلانے لگے ہیں اوریہ بالکل صحیح بھی ہے؛کیوں کہ بھر پور اکثریت میں ہونے کی وجہ سے بی جے پی حکومت کوئی بھی نیا قانون بنانے یا پرانے قانون میں حذف و اضافہ کرنے کی پوری پوزیشن میں ہوگی اورآئینی طورپروہ کسی کو جواب دہ بھی نہیں ہوگی،اگر مذکورہ ایشوز پرعملی قدم اٹھانے کا تہیہ کرلے،تواسے کوئی روک نہیں سکے گا،اس کے آثار بھی ابھی سے دیکھنے میں آنے لگے ہیں کہ ایک جانب تو وینکیا نائیڈوجیسے بی جے پی کے لیڈران عوام یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہیں کہ حکومت سازی میں آر ایس ایس کا کوئی کردار نہیں ہوگا،جب کہ دوسری جانب راج ناتھ سنگھ سے لے کر نتن گڈکری،جیٹلی اور دیگربڑے بڑ ے لیڈران مسلسل سنگھی ہیڈکوارٹرسے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں،خود مودی اب بھارت ماتا کو بھول کر’’بھاجپا ماتا‘‘کی مالا جپنے لگے ہیں،ارون جیٹلی جیسا ہوش منداور ذی شعور آدمی بھی بابارام دیو جیسے تنگ نظر و تنگ ذہن و دریدہ دہن شخص کاباباے قوم مہاتما گاندھی سے موازنہ کرکے’’ ذرۂ خاک‘‘ کو’’ہمدوشِ ثریا‘‘کرنے کی کوشش کرنے لگاہے،آرایس ایس ہائی کمان بھی اب اپنے منصوبوں کو پاےۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کمر کس چکاہے، اس کے لیڈرایم جی ویدھ نے ۲۱؍مئی کو واضح کردیاہے کہ اب،جب کہ بھاجپا مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے جارہی ہے،اس کے لیے رام مندر،یکساں سول کوڈ اور دفعہ ۳۷۰جیسے امور کو نمٹانا آسان ہوگا اوروہ اس کی جانب توجہ دے گی۔
حالیہ لوک سبھا الیکشن میں سیکولر امیدواروں کے بری طرح ناکام ہونے پرمختلف اعتبار اور الگ الگ ناحیوں سے غور و فکر اور خیال آرائیاں کی جارہی ہیں،اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ بی جے پی نے پورے ملک میں انتخابی تشہیر میں اس حد تک مبالغے اور پروپیگنڈے سے کام لیا کہ وہ عوامی اذہان کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوگئی،اس کی ایڈ کیمپیننگ بھی بڑی غیر معمولی اور منظم تھی اور پرنٹ میڈیا سے لے کرریڈیو،ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیاتک پر اس نے بے پناہ منصوبہ بندی اور منظم پلاننگ کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور اس کا بھی اسے خاطر خواہ فائدہ ملا،اس کے علاوہ یوپی میں مظفر نگر فسادات،جن کے پسِ پشت براہِ راست بی جے پی لیڈران کا ہاتھ تھا،سے بھی اسے فائدہ ہوا ،یوپی میں بی جے پی کی انتخابی کمان سنبھالنے والے امت شاہ اور آر ایس ایس کی مہم جوئی بھی کارگر ثابت ہوئی اور ہندو ووٹ بینک اس کے حق میں محفوظ ہوگیا،باقی کی کسراس کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے ملک بھرمیں طوفانی دوروں اور ان کی شعلہ بیانیوں نے پوری کی اور چوں کہ عوام سابقہ حکومت کی بد عنوانیوں اورغیر معمولی خامیوں سے اوب چکے تھے؛اس لیے مودی کے پیش کردہ ترقیاتی منصوبوں اورصاف شفاف حکومت دینے کے وعدوں نے انھیں اپنی جانب مائل کیااور اس طرح بی جے پی کی جھولی میں بے تحاشا ووٹ پڑے۔بہارمیں عین وقت پر لوک جن شکتی پارٹی کے بھگوائی خیمے میں پناہ گزیں ہوجانے اورآرجے ڈی،جے ڈی یو اور کانگریس میں تال میل نہ ہونے کی وجہ سے سیکولر ووٹ اثر انگیز ثابت نہیں ہوسکا،جب کہ بی جے پی اکثریتی مزاج و مذاق رکھنے والے ہندووں اور رام ولاس پاسوان کے ذریعے دلت ووٹوں میں بھی سیندھ ڈالنے میں کامیاب رہی۔
اور اگر بات کی جائے مسلم امیدواروں کی سطح پر ناکامی و نامرادی کی،تو اس سلسلے میں بھی کئی عوامل کارفرما رہے،اول تو یہ کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی سیاسی پارٹیوں نے مسلم امیدواروں کو کم سے کم ٹکٹ ہی دیا اور اگر ٹکٹ دیا بھی،تو ایسی جگہوں سے،جہاں کسی اورپارٹی سے ان کے بالمقابل مسلم امیدوار ہی کھڑے تھے،دوسری جانب مسلمانوں نے ووٹ دینے سے پہلے کسی قسم کا لائحۂ عمل نہیں بنایا،کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور بجائے اس کے کہ وہ امیدوارکی سطح پر سوچتے اورمتفقہ طورپر کسی مسلم امیدوار کو اپنا نمایندہ منتخب کرنے کا فیصلہ کرتے،انھوں نے ان پارٹیوں کی بکواس و ہفوات پر بھروسہ کیا اورچھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ کراپنے ووٹوں کو مکمل طورپرمنتشرکردیا،نتیجتاً یوپی اور بہار کی بیشتر سیٹوں پر ایسا ہوا کہ کئی ایک مسلم امیدواروں میں ان کا ووٹ تقسیم ہوگیااور بی جے پی بازی مارنے میں کامیاب ہوگئی،صرف بہار کے سیمانچل کے مسلمانوں نے دانش مندی کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کیا؛چنانچہ وہ اس خطے کو بی جے پی کے اثر و رسوخ سے محفوظ رکھنے میں کامیاب بھی رہے اورکشن گنج سے کانگریس کے امیدوار مولانا اسرارالحق قاسمی، کٹیہار سے این سی پی کے طارق انور،ارریاسے آرجے ڈی کے تسلیم الدین،پورنیہ سے جے ڈی یو کے سنتوش کمارنے کامیابی حاصل کی۔
مسلم ووٹوں کی تقسیم اورانتشار میں ایک اہم رول ہمارے ملی قائدین کی غلط رہبری نے بھی اداکیا،مختلف تنظیموں اوراداروں کے سربراہان کے اخباری اشتہارات،پیغامات،بیانات اور اپیلوں نے مسلمانوں کو بہت حد تک کنفیوژ ڈکرنے کاکام کیا اوروہ یا توکچھ سمجھ ہی نہیں پائے یا پھراپنے رہنماؤں کے جھانسے میں آکروقت کی نزاکت اور تقاضوں کو سمجھے بغیرغلط فیصلہ کر بیٹھے۔
خیر اب تو جو کچھ ہونا تھا،وہ ہوچکا،مگر اب وقت ان غلطیوں پر کفِ افسوس ملنے کا نہیں،ان کی تلافی کی تدبیریں کرنے کاہے؛تاکہ آیندہ ایسا نہ ہو،نام نہاد جمہوری پارٹیوں کے نعروں اور دعووں اورخود ساختہ قسم کے قائدین کی اندھا دھند پیروی قطعاً ہمارے نقصانات کو دور نہیں کر سکتی،اگر ہم مسلکی اعتبارسے متحد نہیں ہو سکتے اورکتاب و نبی کے ایک ہونے کے باوجودہمارے کچھ خاص تشخصات و امتیازات ہیں،جنھیں ہم حرزِ جاں بنائے رکھنا چاہتے ہیں،تو کم ازکم سیاسی پلیٹ فارم پر تو ہمیں اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنا ہی ہوگا،اگرپارلیمانی انتخابات سے قبل مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکرکے سربراہان سر جوڑ کر بیٹھتے اور مسلمانوں کے لیے ایک خاص لائحۂ عمل تیار کرتے اور اسی کے مطابق عمل کرتے،تو کیا عجب تھا کہ این ڈی اے کے اکثریت حاصل کرنے کے باوجود پارلیمنٹ میں ہماری نمایندگی اطمینان بخش ہوتی؟
آیندہ پانچ سالوں کے اندرہی دو اہم صوبوں بہار اور یوپی میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں،ان مواقع پرجہاں ملک کی سیکولر پارٹیوں کو مضبوط لائحۂ عمل کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا،وہیں مسلمانوں کوبھی بے شعوری و خفتگی کی کیفیت سے نکل کرحساسیت،تیقظ اور بیداری کا ثبوت فراہم کرنا ہوگااوراس کے لیے ابھی سے غوروفکراورماضی کی چوک کی تلافی کرنے کی تدبیریں کرنی شروع کردینی چاہیے۔
جواب دیں