تحریر: جاوید اختر بھارتی
ہم بڑے جذباتی ہوتے ہیں، فوراً کوئی فیصلہ لے لیتے ہیں،جب جسے چاہتے ہیں تنقید کا نشانہ بنا دیتے ہیں، دینی، سیاسی، سماجی غرضیکہ ہر میدان میں جذبات سے کام لیتے ہیں اور بہت جلد پرانی روایات پر واپس آجاتے ہیں ابھی کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے عائشہ نامی لڑکی نے جہیز کے مطالبے اور شوہر کے ظلم و ستم سے تنگ آکر سابر متی ندی میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کو ندی کے موجوں کے حوالے کردیا،صاف اور واضح لفظوں میں یہ ہے کہ اس نے خودکشی کرلیا ، اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ابھی چند روز ہی گذرے تھے کہ پھر خبر آئی کہ ایک لڑکی کی ڈولی اٹھنے والی تھی، ہاتھوں میں مہندی لگنے والی تھی ، وہ کسی کا گھر بسانے والی تھی، مانگوں میں سیندور سجانے والی تھی کہ وہ جس آنگن میں سج سنور کر جانے والی تھی اس آنگن کا سرپرست عمر کے اعتبار سے ضعیف تھا لیکن حرص و ہوس اور لالچ کے میدان میں جوان تھا اس نے اپنے بازوؤں کی طاقت کے بل بوتے پر کچھ بنایا تھا کہ نہیں مگر اپنے بیٹے کو وہ ڈالر سمجھتا تھا اور اس بے غیرت باپ کا یہی خواب تھا کہ میرا بیٹا دینار و درہم اور ڈالر سے کم نہیں،، میں اس کے سر پر سہرا سجاؤں گا، اسے دولہا بناؤں گا، پھر مسجد میں لیوا کر جاؤں گا، دو رکعت شکرانہ کی نماز پڑھواؤں گا، اسے گھوڑے پر بیٹھاؤں گا اور اسے اس کی سسرال لے کر جاؤں گا پھر کہوں گا کہ مجھے اپنے بیٹے کی ضروریات زندگی کے سارے سازوسامان کے ساتھ نقدی رقم بھی چاہیے، تاکہ میرا بیٹا کوئی بزنس کر سکے باراتی کی زبردست خاطر بات ہونی چاہیئے، آپ ہمارے سارے مطالبات پورے کریں گے تو یہ شادی بڑے دھوم دھام سے ہوگی، جب آپ کی بیٹی جہیز کے ساتھ ہماری دہلیز پر قدم رکھے گی تو بھلے ہی اکیس توپوں کی سلامی ہم نہ دے سکیں لیکن ہزاروں روپے کے پٹاخے ضرور پھوڑیں ، رنگ برنگی آتش بازی ضرور کریں گے اور وہ رنگ برنگی روشنیوں سے آپ کو بھی یقین ہو جائے گا کہ ہماری بیٹی بہت آرام سے رہے گی،، لڑکی کو جب اس بات کی خبر لگی تو اس کی زندگی میں اندھیرا چھا گیا ، اپنا مستقبل تباہ نظر آنے لگا، وہ اپنے آپ کو اپنے باپ کے لئے بوجھ سمجھنے لگی اسے اس بات کی فکر تھی کہ آخر میرا غریب باپ کہاں سے اور کیسے میری سسرال والوں کے مطالبات کو پورا کرے گا اور کسی سے قرض لے کر کسی طرح سب کچھ کر ہی دیا تو پھر بعد میں وہ کیسے قرض چکائے گا وہ تو قرض کے بوجھ تلے مر ہی جائے گا بالاآخر اس نے اپنے سر سے دوپٹہ اتارا اور اسی کو موت کا سامان بنایا اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا اخباری رپورٹ کے مطابق اس کے پاس سے جو کاغذ برآمد ہوئے اس پر یہی لکھا تھا کہ اے میرے ابو دنیا کہتی ہے کہ بیٹیاں زحمت نہیں بلکہ رحمت ہیں،، یہ بات یہ نظریہ آج کے دور میں بس زبانی ہے،، آج لڑکے والے لڑکی کے باپ کو یہ تأثر دیتے ہیں کہ ہم اپنے بیٹے کا رشتہ تمہاری بیٹی سے کررہے ہیں تو سمجھو یہ تمہارے اوپر ہمارا احسان ہے،، یہی وجہ ہے کہ آج ہر بیٹی چاہتی ہے کہ میرے باپ کے پاس اتنی دولت ہو کہ وہ میری شادی میں تمام رسم و رواج کو بخوبی انجام دے سکے اور اسے کسی سے قرض نہ لینا پڑے اور اے ابو جان آپ ضعیف ہوچکے ہیں اور غریب بھی ہیں قرض آپ کو کون دیگا؟ مجھے لگتاہے کہ میری شادی اور میری سسرال والوں کے مطالبات کی فہرست کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں آپ کی کمر ٹوٹ جائے گی اور آپ کھڑے نہیں ہو پائیں گے،، میں آپ کے درد کو سمجھتی ہوں اور آپ کو آزاد کرتی ہوں میں آپ کے لئے بوجھ نہیں بنوں گی بلکہ میرا آخری سلام لیجئیے اور مجھے معاف کرئیے میں دنیا سے رخصت ہوئی،، یوں تو آئے دن اخبارات کے صفحات پر خودکشی کی خبریں شائع ہوتی ہیں لیکن حال ہی میں شادی بیاہ، جہیز کے نتیجے میں جو خودکشی کے واقعات رونما ہوئے تو اس نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اب کیا تھا فیس بک پر، واٹس ایپ پر، ٹوئٹر پر پوسٹ لگنا شروع ہو گئی کہ جہیز ناسور ہے، جہیز لعنت ہے، شعراء نے اپنے کلام میں مذمت کرنا شروع کردیا، صحافیوں نے قلمکاروں نے مضامین لکھنا شروع کردیا، بعض مقررین نے آتش فشاں نما تقریریں کرنا شروع کردیا، چوراہوں پر، شاہراہوں پر، چائے خانوں میں تبصرہ شروع ہو گیا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ واقعی میں اب جہیز کا خاتمہ ہو ہی جائے گا اور بارات کا سلسلہ بند ہو جائے گا، شریعت اور سنت کے مطابق نکاح کا سلسلہ شروع ہو جائے گا بعض مقامات پر کمیٹیاں بھی تشکیل پا گئیں لیکن کہیں سے یہ آواز نہیں آئی کہ میں جہیز نہیں لوں گا، میں اپنے بیٹے کی بارات لے کر نہیں جاؤں گا بس ہر کوئی یہی چاہتا تھا اور چاہتاہے کہ دوسرے لوگ عمل کریں، بارات نہیں لے جانا چاہئے ، فضول رسم و رواج کا انعقاد نہیں کرنا چاہیے کاش کسی نے یہ کہا ہوتا کہ مجھے کوئی بارات جانے کے لئے بھی کہے گا تو میں انکار کردوں گا مگر کہیں ایسا کچھ نہیں،، یہی وجہ ہے کہ اب دھیرے دھیرے سب کچھ حسب معمول ہونے لگا ،، بارات جانے لگی، صرف شادی کارڈ پر نکاح مسنون لکھ کر پیچھا چھڑایا جانے لگا، اور پوری تقریبات میں سنت کی دھجیاں اڑایا جانے لگا،پٹاخہ پھوڑا جانے لگا، جہیز کا مطالبہ کیا جانے لگا اب نہ سابر متی ندی یاد آتی ہے نہ عائشہ کی خودکشی کا ذکر ہوتا ہے اسی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم بہت جذباتی ہوتے ہیں اور ہر فیصلہ جذبات کی رؤ میں اپنے آپ کو بہا کر لیتے ہیں اسی لئے ہمارا فیصلہ ٹکاوں نہیں ہوتا ہے بعض مقامات پر یہ فیصلہ ضرور کرلیا گیا کہ بارات آئے گی تو ہم نکاح نہیں پڑھائیں گے لیکن شاید یہ فیصلہ نہیں لیا گیا کہ ہمارے علاقے سے بھی بارات نہیں جائے گی،، یہ فیصلہ کہیں کہیں ضرور لے لیا گیا کہ اگر بارات آئے گی تو جو نکاح پڑھائے گا تو اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا لیکن شاید یہ فیصلہ نہیں لیا گیا کہ ہمارے علاقے سے بھی کوئی بارات جائے گی تو اس بارات کا اہتمام کرنے والے کا بائیکاٹ کیا جائے گا، بارات کے شرکاء کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا کیا اس طرح کے دوہرے معیار کے مطابق لیا گیا فیصلہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے؟ میں ( جاوید بھارتی) ڈنکے کی چوٹ پر تحریر کرتا ہوں کہ صرف مفاد پرستی کی بنیاد پر لیا گیا کوئی بھی فیصلہ معاشرے کی اصلاح کے لئے قطعی کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا عملی اقدامات کے لئے دوسروں سے اپیل کرنے سے پہلے ہمیں خود اپنے اوپر نافذ کرنا ہوگا تب جاکر کہیں بات بن سکتی ہے،، لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا گیا ہمارے اندر تبدیلی آتی گئی اب ہم کہتے ہیں کہ شادیوں میں غیر شرعی کام ہوں گے تو ہم نکاح نہیں پڑھائیں گے،، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بارات لے کر لڑکی کے باپ کے دروازے پر جانا غیر شرعی نہیں ہے؟ کیا لڑکی کے باپ کے وہاں ولیمہ کا اہتمام کرانا غیر شرعی نہیں ہے؟ کیا کاروں کا قافلہ لے کر جانا اور انہیں بھی بارات والا ہی ناشتہ کرانا اور کھانا کھلانا پھر بھی کہنا کہ ڈرائیور کو بارات میں شمار نہیں کیا جاتا کیا یہ غیر شرعی نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے کام غیر شرعی ہیں اور اس غیر شرعی کام میں سیاسی لیڈر بھی شریک ہوتے ہیں، سماجی نمائندے بھی شریک ہوتے ہیں، علماء کرام بھی شریک ہوتے ہیں ارے جب یہ غیر شرعی ہیں تو کیوں نہیں سیدھے سیدھے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اب تک جتنا ہوا سو ہوا اب نہیں ہوگا،،اب بارات اور لڑکی والے کے وہاں ولیمہ بند،، ہاں لڑکے والے اپنی وسعت کے مطابق ولیمہ ضرور کریں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خرافات، نئی رسم نیا رواج اگر ابتدائی دور میں نہیں روکا گیا تو آگے چل کر وہ ایسا روپ لیگا کہ اسے روکنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے مسلمانوں کو تو ساڑھے چودو سو سال پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ ہر وہ ناقص طریقہء کار جس سے دین و مذہب کی شبیہ بگڑے اسے فوراً روکو ورنہ آگے چل کر وہ مشکلات کا باعث بنے گا اور فتنے کا بھی سبب بنے گا اور آج اسی کا ہم سامنا کررہے ہیں،، کیا نہیں ہوا ہمارے معاشرے میں،، والدین سمیت نو (9) بیٹیوں کا جنازہ ایک ساتھ اٹھ چکا ہے مسلم معاشرے میں ، قرض لے کر بیٹی کی شادی ایک باپ نے کی داماد اسے شریک حیات سمجھ کر رکھنے کے بجائے فائیو اسٹار ہوٹل میں فروخت کردیا بیٹی نے باپ کو خط لکھا کہ اے میرے پیارے ابو آپ سمجھ رہے ہونگے کہ میرا داماد بہت اچھا ہے میری بیٹی بہت خوش ہوگی مگر اے ابو جان آپ کا داماد شکل انسان میں شیطان ہے،، اس نے مجھے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں فروخت کردیا ہے،، میں جانتی ہوں کہ آپ کو یہ معلوم ہونے پر بہت رنج و غم ہوگا ، آپ مجھے چھڑانے کی کوشش کریں گے لیکن اے ابو جان اس ہوٹل والے کی پہنچ بہت اوپر تک ہے ان کا نیٹورک بہت مضبوط اور بہت وسیع ہے آپ گھر بار بیچ کر بھی کچھ نہیں کر پائیں گے،، اور میں سماج میں کس منہ سے آؤں گی میں سماج اور معاشرے میں رہنے کے بھی قابل نہیں رہی میں خون کے آنسو بہاتے ہوئے یہ خط لکھ رہی ہوں اور اپنی زندگی کے خاتمے کا انتظام کر چکی ہوں جب تک یہ میرا خط آپ کو موصول ہو گا تب تک میری روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ہوگی،، اے ابو جان بس اس بات کا خیال رکھنا کہ میری چھوٹی بہن کی شادی سے پہلے آپ اتنا کما لینا اتنی دولت اکٹھا کر لینا کہ آپ کا ہونے والا داماد جتنی ہڈیاں مانگے آپ اس کے سامنے پھینک دیں یہ واقعہ ہم نے ایک عالم دین کی زبانی تقریر میں سنا ہے،، اس لئے تحریر کردیا کہ ہو سکتا ہے اس سے مستقل مزاجی کی شکل میں ہمارا احساس جاگے-
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں