کون بنے گا ہندستان کا وزیر اعظم؟ 23مئی سے نمبروں کا کھیل شروع ہوگا

عبدالعزیز

    وزیراعظم ہند کی دوڑ میں نریندر مودی اور راہل گاندھی سب سے آگے ہیں لیکن اگر این ڈی اے کے کامیاب امیدواروں کی تعداد 200 سے کم ہوتی ہے تو کانگریس کی مدد سے ہی کوئی حکومت بن سکتی ہے۔ کانگریس کی کوشش ہوگی کہ راہل گاندھی کو وزیر اعظم کیلئے اپوزیشن کی دیگر پارٹیاں کی مدد سے نامزد کریں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا کہ جب کانگریس کے ممبروں کی تعداد 200کے لگ بھگ ہو۔ مرکز میں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے بنانے کی کوشش ٹی ڈی پی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو سرگرم عمل ہیں۔ کانگریس کا خیال ہے کہ اگر کانگریس 140سے زیادہ سیٹوں پر کامیاب ہوتی ہے اور بی جے پی کو 200سے کم سیٹیں آتی ہے تو بی جے پی حکومت سازی کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ اپوزیشن پارٹیوں میں سب سے بڑی پارٹی کانگریس ہی ہے۔ اگر اپوزیشن کے اتحاد سے حکومت بنتی ہے تو پہلا نام راہل گاندھی کا ہی لیا جائے گا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں میں مایا وتی اور ممتا بنرجی شاید ہی راہل گاندھی کے نام پر متفق ہوں۔ ایسی صورت میں دوسرے، تیسرے نام پر اتفاق رائے کی ضرورت پڑے گی۔ کچھ لوگ پرنب مکھرجی اور شرد پوار کا بھی نام لے رہے ہیں۔ منموہن سنگھ کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ ان تینوں میں منموہن سنگھ وزارتِ عظمیٰ کیلئے زیادہ موزوں ہوں گے کیونکہ وہ دو بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ کانگریس کیلئے بھی من موہن سنگھ کے نام پر رضامند ہونا آسان ہوگا۔ ممتا بنرجی نے منموہن سنگھ کے خلاف کبھی کوئی بیان نہیں دیا۔ مایاوتی کی طرف سے بھی منموہن سنگھ کیلئے شاید مخالفت نہ ہو۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ کانگریس کو اگر سو سے کم سیٹوں پر کامیابی ہوتی ہے تو ریاستی پارٹیاں متحد ہوکر سرکار بنا سکتی ہیں۔
     بی جے پی یا این ڈی اے اگر دوسو سے کم سیٹوں پر کامیاب ہوتی ہے تو بی جے پی کی کوشش ہوگی کہ نوین پٹنائک، جگن موہن ریڈی اور چندر شیکھر کی پارٹیوں سے مدد حاصل کی جائے۔ اس وقت نریندر مودی کے بارے میں مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے پہلے ہی سے ذہن بنالیا ہے کہ اگر این ڈی اے کی حکومت بنانے میں کوئی دقت پیش آئے گی، دیگر پارٹیاں اگر نریندر مودی کے نام پر رضامند نہیں ہوں گی تو نیتن گڈکری اور راج ناتھ سنگھ جیسے لوگوں کو وزیر اعظم کے عہدہ کیلئے پیش کیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کے اندر ایک خیال یہ بھی ہے کہ این ڈی اے کی مدد سے جو بھی حکومت بنے گی نریندر مودی کے سوا کوئی بھی وزیر اعظم کیلئے نامزد نہیں کیا جائے گا۔ 
    ابھی تک جو انتخابی سروے اشارے اور کنائے سے پیش کئے جارہے ہیں اس میں این ڈی اے کو 160 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہونے کا امکان بتایا جارہا ہے؛ کیونکہ مودی کا کرشمہ زیادہ کام نہیں کر رہا ہے۔ امید سے زیادہ تشویش کا مسئلہ درپیش ہے۔ ملک میں غیر معمولی بے روزگاری این ڈی اے کیلئے مصیبت بنی ہوئی ہے۔ 2014ء میں نریندر مودی نے جو امید جگائی تھی اور خواب دکھایا تھا وہ خواب یا امید پوری نہیں ہوئی۔ 2019ء میں این ڈی اے پر خوف اور ناامیدی کا سایہ منڈلا رہا ہے۔ 2014ء میں مودی کی شخصیت مثبت طور پر پیش کی جارہی تھی۔ فرقہ پرستی کے ساتھ ساتھ اچھی حکمرانی اور فلاح و ترقی کا چہرہ دکھایا جارہا تھا۔ آج منفی قسم کا چہرہ نظر آرہا ہے۔
     نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ کالا دھن واپس لائیں گے اور ہر ایک شہری کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ روپئے ڈال دیئے جائیں گے۔ اس طرح ہر شہری ایک شاندار زندگی گزارنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ مودی کی سحر انگیز باتوں سے ووٹر متاثر ہوئے۔ مودی اپنی مدت کارکردی پوری کرچکے لیکن کسی کی جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں آیا اور نہ اچھے دن آئے۔ میڈیا کی چمتکار سے اگرچہ اس حقیقت پر ایک حد تک پردہ پڑگیا ہے لیکن بہت سے لوگ مودی کے اس وعدے کو بھولے نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے کارندے بھی مودی بھارت ہے اور بھارت مودی ہے‘نعرے نہیں لگا رہے ہیں۔ صرف یہ کہنے پر اکتفا کر رہے ہیں کہ مودی ہندستان کو آگے لے جاسکتے ہیں اور ملک کو باہری اور اندرونی خطرے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ قومی سلامتی کا ایشو ہی مودی کو بچانے کیلئے پیش کیا جانے لگا ہے۔ اور بتایا جانے لگا ہے کہ ایک مضبوط حکومت اور ایک مضبوط قوم کی ضمانت نریندر مودی ہی دے سکتے ہیں۔ پلوامہ، بالا کوٹ اور سرجیکل اسٹرائیک 2019ء میں مودی کیلئے معاون اور مددگار ثابت ہوا۔ اسی وجہ سے مودی ابھی بھی ایک فیکٹر ہیں۔ اگر پلوامہ کا سانحہ نہ ہوا ہوتا تو مودی اور ان کی پارٹی مزید تباہی سے دوچار ہوتی۔ اسی کے سہارے ہی بی جے پی یا این ڈی اے کی سیٹوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ نریندر مودی اور ان کے حاشیہ بردار قومی سلامتی کا مسئلہ کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ واقعات پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔ اگر اٹھاتا ہے تو قوم دشمن یا غدارِ وطن کہلائے گا۔ ان دھمکیوں سے بی جے پی نے فوج اور نیشنل سیکوریٹی کو اپنا مونوپولی (Monopoly)بنا لیا ہے۔ اور بدقسمتی سے بی جے پی کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مودی کے ہاتھ میں مسئلے کا حل ہے۔
     آر بی آئی کے سابق گورنر مسٹر رگھورام راجن نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے ”قومی سلامتی کو سرحد پار سے خطرہ نہیں ہے؛ بلکہ اندرونی خطرہ ہے۔ قومی سلامتی کا انحصار معیشت کی مضبوطی پر ہے اور انسانوں کی خوش حالی پر ہے۔ اگر ہم زیادہ سے زیادہ روزگار بہم نہیں پہنچاسکے تو مختلف محاذوں پر ہماری مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ہمارے ذرائع کم ہوجائیں گے۔ فوج کو جدید ہتھیار دینے کی پوزیشن میں بھی ہم نہیں ہوں گے اور دوسری قومیں دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کریں گی۔ ہمارے بے روزگار نوجوان مایوسی اور ناامیدی کے شکار ہوں گے۔ لہٰذا قومی سلامتی معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کئے بغیر ممکن نہیں ہے“۔ یقینا بی جے پی کو آر بی آئی کے سابق گورنر کی بات پسند نہیں آئے گی۔ رگھورام راجن نے ہی نریندر مودی کو نوٹ بندی کے خلاف مشورہ دیا تھا، لیکن نریندر مودی رضامند نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے ملک کے لوگوں کو پریشانیوں میں مبتلا ہونا پڑا۔ بے روزگاری میں اس قدر اضافہ ہوا کہ گزشتہ 50سال میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ بہتوں کے کاروبار بھی تباہ و برباد ہوئے۔ حقیقت میں مودی حکومت کو سب سے بڑا خطرہ بے روزگاری کا لاحق ہے۔ اعداد و شمارکے تجزیے سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ 140لوک سبھا حلقوں میں پچاس ہزار نوجوان بے روزگار ہیں۔ انہی حلقوں میں بی جے پی کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان ساری چیزوں سے تو یہی امید ہے کہ نریندر مودی دوبارہ ملک کے وزیر اعظم نہیں ہوں گے۔ ’ٹائم‘ میگزین میں نریندر مودی کو Divider In Chief (تقسیم کا اصل ذمہ دار) قرار دیا ہے اور سوال کیا ہے کہ جس نے ملک ہندستان کو تباہی و بربادی، بدنظمی و بدامنی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ کیا ملک کے عوام اسے پھر وزیر اعظم بنانا گوارا کریں گے؟ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

13مئی ۲۰۱۹
 

«
»

نمازِتراویح :چنداصلاح طلب پہلو

فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے