اور بہ ظاہر ایسا لگ بھی رہاتھا؛کیوں کہ وہاں کے لاکھوں عوام نے حسنی مبارک کے نامبارک وجود کو اس لیے مسترد کیا کہ وہ ڈکٹیٹر تھے،اخلاقی انحراف اور فکری زیغ و ضلال کا شکار تھے اور انہوں نے عالمِ اسلام کے اس سب سے بڑے ملک کو امریکہ و اسرائیل کے چشم و ابرو کا رہین بناکر رکھ چھوڑا تھا۔
اس خیال کو مزید تقویت اس سے بھی ملی کہ انقلاب کے بعد فوراً ہونے والے انتخابات میں مصری عوام نے وہاں کی تقریباً اسی سالہ قدیم اسلامی جماعت ’’اخوان المسلمون‘‘کو پچاس فی صد سے بھی زیادہ ووٹ کیے،نتیجتاً محمد مرسی،جو اخوان سے طویل اورمضبوط وابستگی رکھتے تھے مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ مرسی کو جو مصر ملا تھا،وہ معاشی بحران کے ساتھ سیاسی افلاس سے بھی گزررہاتھا؛چناں چہ جہاں انھوں نے ملک کی معیشت کو استحکام کی سمت میں لے جانے کے لیے ٹھوس قدم اٹھاتے ہوئے سرکاری اداروں میں بر سرِ کار ملازمین کی من مانی تنخواہوں پرروک لگائی، وہیں سیاسی سطح پر اہم ترین فیصلہ لیتے ہوئے ملک کے تعلقات امریکہ کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک چین،روس،برازیل،جنوبی افریقہ اور دیگر افریقی ممالک تک وسیع کرنے کی طرف پہل کی،اس کے علاوہ دنیا کے’’ واحد دہشت گرد‘‘ اسرائیل سے اپنے تعلقات محدودسے محدودتر کرلیے ،جب کہ فلسطین سے اپنے رشتوں کو پہلے سے زیادہ بہتر اور مضبوط بنانے کا عزم بالجزم کیا،معاشرتی و تہذیبی سطح پر بھی محمد مرسی نے نمایاں اصلاحات لانے کی کوشش کی ؛چناں چہ انہوں نے مغرب کی عریاں تہذیب و معاشرت کو یکسر مسترد کرنے اور قرآنی و اسلامی تہذیب و معاشرت کو اپنانے کا صریح فرمان جاری کیا،محمد مرسی کے یہ تمام اقدامات نہ صرف مصر؛بلکہ وہاں کے ایک ایک فردکے لیے انتہائی مفید اور نفع بخش تھے،مگر صلیبی۔صیہونی مفادات کے خلاف تھے؛امریکہ نہیں چاہتا کہ مصر معاشی و سیاسی سطح پر خودکفیل ہواور ناہی وہ یہ چاہتا ہے کہ مصر اور مصری عوام پر اسلامی مزاج کا غلبہ ہو؛کیوں کہ یہ دونوں چیزیں اس کے لیے انتہائی خطرناک ہیں اوراگر مصر کواقتصادی استحکام حاصل ہوجائے اور وہاں مکمل طور پر اسلامی تہذیب کا بول بالا ہوجائے،توصلیبی۔صیہونی مفادات اور منصوبہ بندیوں کی حصول یابی کی راہ میں ایک غیر متزلزل پہاڑ کھڑا ہو سکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی امریکہ و اسرائیل نے جمال عبدالناصر اورانورسادات جیسے ایمان فروشوں کو کرسیِ اقتدار تک پہنچانے اور ان کی ہر ممکن حفاظت و حمایت کرنے میں اہم رول اداکیا،جب کہ دو سری طرف حسن البناؒ اور سید قطبؒ جیسے باکردار اور اصحابِ جرأت و عزیمت قائدین زنداں رسید کیے جاتے رہے،اپنے پٹھو حسنی مبارک کی بچاؤ میں بھی امریکہ نے کوئی کسر نہیں اٹھا نہیں رکھی تھی،اس کی پوری کوشش تھی کہ یہ انقلاب ناکام ہوجائے اورکسی نتیجے تک نہ پہنچ سکے؛چناں چہ معروف عربی صحافی و سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹرمحمو دغزلان کے مطابق اس نے انقلاب کے دوران مختلف مصری تنظیموں کوکم وبیش۱۰۵ ملین ڈالر کی فنڈنگ کی تھی،اس وقت کے امریکی سفیر برائے مصرآن پیٹرسن نے امریکی کانگریس میں اس کا اعتراف بھی کیا تھا اورمصری وزیرفائزہ ابوالنجاح نے بھی اس کی شہادت دیتے ہوئے اس حقیقت کی صراحت کی تھی کہ اس بڑے پیمانے پرامریکی فنڈنگ کا مقصد مصر میں انارکی پھیلانا اور انقلاب کو بے سمتی کی راہ پر لے جانا تھا،انقلاب کے اختتام پربہت سے ایسے افراد کی گرفتاری عمل میں آئی تھی،جن پر امریکی ڈالر حاصل کرنے اور ملک کو بد امنی سے دوچار کرنے کی کوشش کرنے کا الزام تھا،مگر ان سب کے باوصف نہ صرف یہ کہ وہ انقلاب کامیاب رہااورحسنی مبارک ذلت و رسوائی کی اُن حدوں تک پہنچائے گئے،جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا؛بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مظلومیت و بے انصافی کے دورسے گزررہی اسلامی تنظیم’’اخوان المسلمین‘‘کو حیرت ناک کامیابی ، مقبولیت اوربرتری حاصل ہوئی۔
اب امریکہ کے پاس بہ ظاہر کوئی حربہ نہیں رہ گیاتھا، جسے وہ مصریوں کے خلاف استعمال کرسکے،تو اس نے پہلے تو محمد مرسی کو ہموار کرنے اور مختلف سیاسی و معاشی اندیشوں اورخطرات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے انہیں اس بات پر تیار کرنا چاہا کہ گزشتہ مصری حکم رانوں کی مانندوہ بھی اس کے ہاتھوں میں کھلونا بن کررہیں ، مگر محمد مرسی نے غیر معمولی ایمانی جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی تمام تر پیش کشوں کو ٹھکرادیااوریہ طے کیا کہ مصر کو ہر اعتبار سے خودکفیل اور ایک مضبوط و مستحکم اسلامی ملک بناناہے،اب امریکہ نے مصر کی لبرل اور آزادذہن رکھنے والی سیاسی تنظیموں پرڈورے ڈالنے شروع کیے،انہیں آلۂ کار بنایا اور ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی کہ محمد مرسی مصرکو مذہبی نرگسیت،تنگ نگاہی اور تشدد پسندی کی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں اوران کے دورِ صدارت میں ملک کی معیشت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے اور پھر اسے ڈاکٹر البرادعی ،سعدالدین ابراہیم اورحازم الببلاوی جیسے ننگِ ایمان ووطن لیڈربھی مل گئے ، جنھوں نے فوج کو بغاوت کے لیے ہموار کیا اور بالآخرفوجی جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں مصری فوج نے گزشتہ ۳۰؍جون کو مرسی اور پورے حکومتی سسٹم کے خلاف اعلانِ بغاوت کردیا،پھر قطعی غیر قانونی طورپر صدرکا اغواکیا گیا اورفوج کی زیرِ قیادت عبوری حکومت قائم کرلی گئی۔
گزشتہ جون کی بغاوت کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والی موجودہ عبوری حکومت مکمل طورپرصلیبی و صہیونی مفادات تحفظ کی علم بردار اور اسلام اوراسلام پسندوں کا استیصال کرنے والی ہے،گزشتہ چھ مہینوں سے پیش آنے والے واقعات اس کی بھر پورتاییدکرتے ہیں،اکتوبر میں مصر کے اسلامی دستور کو کالعدم قراردے کر نیا ملکی دستوروضع کیا جانا،جس میں اسلامی تعلیمات،اسلامی اقدار و اخلاق کی بوتک باقی نہیں اورجسے امریکہ واسرائیل مکمل اور کامیاب بتا رہے ہیں،مصر کے علاقہ’دہلقیہ‘کی ایک بڑی عمارت پر بمباری کے جرم میں دوہفتے قبل ’اخوان المسلمون‘کوسرکاری طورپر ایک دہشت گردتنظیم قراردے دینا(حالاں کہ تنظیم نے چیخ چیخ کر اس سے براء ت کا اظہار کیا اورساتھ ہی شمالی سیناء کی شدت پسند تنظیم’انصار بیت المقدس‘نے اس حملے کی ذمے داری بھی قبول کر لی تھی)اوراس کے زیرِ سرپرستی چلنے والے تمام تر تعلیمی و تربیتی اداروں کو یا تو مقفل کردینایا اسے موجودہ لادینی عبوری حکومت کے زیرِ انتظام لے لینا،ذاتِ واجب الوجود کی شانِ عالی تبار میں گستاخی کرنے والے کو بے مہار چھوڑدینا؛تاکہ وہ اسلام کے خلاف ہفوات بکتا اور لکھتا رہے اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو چھلنی کرتا رہے،عبدالفتاح السیسی کا مصری عیسائیوں کے کرسمس کے تہوارمیں باضابطہ شریک ہوکر انھیں تبریک و تہنیت کے ہدیے پیش کرنا،اخوان سے وابستگی کے شبہ پر بھی نوجوانوں کو جیل رسید کرنا،قاہرہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیسن میں زیرِ تعلیم ڈاڑھی والے طالب علموں کاشعبے کی استانی ڈاکٹرسحرالعوامری کے ذریعے درس گاہوں سے نکالاجانااور اس کا یہ شر انگیز بیان کہ’اخوانیوں کا خون پی جانا چاہیے‘،باحجاب خواتین وطالبات کو زبردستی بے پردہ کرنا اور ان پرباغی فوجی حکومت کی جانب سے ظلم و تشددکیا جانا،حنان زکی نامی ایک مشرکہ،مرتدہ مصری لڑکی کا سورۂ فاتحہ کے بالمقابل’نئی سورۂ فاتحہ‘بنانے کا دعویٰ،جس میں اس نے جنرل سیسی کو معبود کہااور’لاالہ الاالسیسی‘جیسے خالص کفریہ جملے لکھ کر فیس بک پر پوسٹ کیے ،مصرکے تمام تر ٹی وی چینلوں اورریڈیواسٹیشنوں کوپابندکرنا کہ وہ اپنے صبح کے پہلے پروگرام کو پیش کرنے سے پہلے السلام علیکم کی بجاے’صباح الخیر‘(good moing) اورشام کے پروگرام کے اختتام پر’مساء الخیر‘(good evening) کہاکریں اور’نائل‘نامی چینل کے چیر مین کو محض اس وجہ سے پابندِ زنجیر کردینا کہ وہ اخوانیوں کے تئیں نرم گوشہ رکھتا تھا؛یہ سارے کے سارے حقائق اس بات کا کھلا اظہار ہیں کہ مصرکی موجودہ حکومت انقلاب کے خوشنما پر دے میں مصر کی اسلامی شناخت،تشخص اوراس کی اسلامی تاریخ و تہذیب کو مسخ کرنے کی گھناؤنی سازش کررہی ہے۔
اورمقامِ صد حیرت و استعجاب تو یہ ہے کہ اس متمردانقلابی تحریک کی پشت پناہی (گوچھپ کر)بعض نام نہاد اسلامی ممالک بھی کررہے ہیں؛لیکن چوں کہ اخوانیوں کی تاریخ اللہ کے راستے میں قربانیوں اور جاں سپاریوں کی تاریخ ہے،راہِ حق کے مسافروں کی تاریخ ہے،شمعِ نبوت کے پروانوں اور پیغامِ محمدیؐ کے دیوانوں کی تاریخ ہے،یہ ان اہلِ ایماں کی تاریخ ہے، جو دنیا میں خورشید کی صورت جیتے ہیں،پھر انھیں مصر کی اسلام پسند اکثریت اورطالبانِ علوم کی بھر پور فکری،نظریاتی اور عملی حمایت حاصل ہے؛اس لیے عبدالفتاح اور ان کی بددین و بدطینت حکومت انھیں زیر کرنے کے چاہے جتنے بھی حربے اپنالے،ان کے اثاثے منجمدکرکے انھیں قلاش بنانے کی تدبیر کرے یا اُنھیں دہشت گردقراردے کر اُنھیں عالمِ اسلام کی نگاہوں میں ذلیل و رسواکرنے کی گھناؤنی کوشش،انھیں دبا نہیں سکتی،ظلم وجورکے شبِ دیجور کی ایک نہ ایک دن صبح ہونی ہے،خورشیدِ ایمانی کفروشرک اور صلیبیت و صہیونیت کے غبارمیں چھپ کر نہیں رہ سکتا،ہزاروں ہاتھ ان مظلوموں کے حق میں صبح و شام اٹھتے،لاکھوں زبانیں ان کی نصرت و اعانت کی دعائیں مانگتیں،کروڑوں قلوب محض اللہ واسطے ان کے حق میں دھڑکتے اوردنیا بھرکی نہ جانے کتنی آنکھیں ان کے لیے بارگاہِ حق جل مجدہ میں اشکوں کے موتی نچھاور کرتی ہیں؛اس لیے انھیں شکست نہیں ہوسکتی،یہ کسی ایک شخص کی نہیں،ہردلِ مومن کی آواز ہے۔
جواب دیں