کذب و افترا سے بچیے اور صدق و وفا کی پناہ میں آئیے
تحریر : وزیر احمد مصباحی (بانکا)
شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
جی جناب! یہ حقیقت بالکل دو، دو چار کی طرح عیاں ہے کہ سماج و معاشرے میں جھوٹ، فریب کاری، دھوکہ دھڑی، نفرت انگیزی اور چغل خوری جیسے قبیح و شنیع اوصاف کی ایک مدت مدید سے مذمت اور سنجیدہ و نیک طبیعتیں اس سے قطع تعلق کرتی چلی آ رہی ہیں. مذہب اسلام میں تو یہ سارے اوصاف بڑی شدت کے ساتھ ممنوع ہیں.اور ایسا ہو بھی کیوں نا ، جب کہ اسلام ایک مستقل مذہب اور منفرد شناخت سے متصف ہے. اس کے متبعین کے خانہ دل میں ہم آہنگی، آپسی روابط، صدق و امان، عہد و پیمان اور اپنوں و غیروں تئیں سماج و معاشرے میں زندگی گزار رہے سنجیدہ افراد سے اخوت و بھائی چارگی اور عزت و تکریم کا حسنِ جزبہ خود بخود موجزن ہونے لگتا ہے. واقعی اسلام اپنے متبعین کو ایک خاص خدائی رنگ میں پورے طور پر کامیاب و ظفریاب دیکھنا چاہتا ہے، جسے قرآن مقدس میں "صبغۃ اللہ" اللہ کے رنگ سے تعبیر کیا گیا ہے. مگر اس کے بر عکس اگر آپ مغربی کلچر اور اس کی رنگا رنگ آنکھوں کو خیرہ کردینے والی تیز و تند دنیاوی ترقیاتی وسائل سے آنکھیں چرائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک بے ڈھنگہ نظام رکھتے ہیں، جس کے اہم عناصر میں جھوٹ، افترا، شر و فساد اور فحاشی و بے حیائی جیسے اوصاف سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، اور میرے خیال سے شاید ہی آج کا کوئی ایسا سنجیدہ طبیعت انسان ہوگا جو ان ساری حقیقتوں کے اعتراف سے آنکھیں پھیر لے.
ہاں! یہ حقیقت بھی بالکل آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہے کہ گزشتہ دو صدیوں میں مغربی استعمار نے جس قدر اپنے انھیں اوصاف کو( جو بظاہر تو بھلے معلوم پڑتے ہیں) جس طرح مسلم معاشرے میں فروغ و ارتقا کا حسن جامہ عطا کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے وہ ذرا بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے. گونا گوں طریقہ کار اور متحیر کن حیل، اگرچہ وہ مخرب اخلاق اور شخصیت کو مجروح کر دینے ہی والے کیوں نہ ہوں؟ اسے بروئے کار لانے سے ذرا بھی نہیں چکتے. مگر افسوس! کہ آج مسلم معاشرہ بھی اس رنگینی کا بری طرح سے شکار ہوتا چلا جا رہا ہے. یہاں ہر طبقہ چاہے وہ نئ و بوڑھی نسل ہی سے کیوں نہ منسلک ہوں؛ مغربی تہذیب و کلچر کو اپنانے میں اپنے لیے بڑی سعادت مندی اور اپنے لیے عزت و افتخار کی اہم کڑی تصور کرتے ہیں. مغرب سے آنے والے اس گندے افکار و نظریات کو وہ بڑی فراخ دلی سے بطورِ تحفہ قبول کرتے نہیں ہچکچاتے چہ جائے کہ وہ کوئی خجل محسوس کرے. آج ہمارے معاشرے میں جن برے اور غلط رسوم و رواج کو فروغ بخشا جا رہا ہیں، انھیں میں سے ایک غلط اور خبیث رسم "اپریل فول" بھی ہے. جس کے حرام و ناجائز ہونے میں کسی صاحب ایمان کو ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ اس کی بنیاد ہی جھوٹ، فریب، دھوکہ دھڑی اور کذب و افترا کے ستونوں پر قائم کی گئی ہے.
کہتے ہیں کہ آج سے کوئی تقریباً پانچ سو برس پہلے جب عیسائی افواج نے اسپین کو فتح کیا تو انھوں نے اس وقت مسلمانوں کا اس قدر خون بہایا کہ ان کے گھوڑے جب اسپین کی گلیوں میں چلتے تو ان کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے لہو سے رنگین ہو جاتے ۔ جب عیسائیوں نے چن چن کر مسلمانوں کا صفایا کر دیا تو انہوں نے گرفتار مسلمان فرماں رواں کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے شہر مراکش چلے جائیں ،لہذا عیسائیوں نے انھیں غرناطہ سے کوئی بیس کیلو میٹر دور ایک پہاڑی پر چھوڑ دیا ۔لیکن اب بھی انھیں یہ شبہ تھا کہ مسلمان اس ملک میں اپنی شناخت چھپا کر زندگی بسر کر رہے ہیں.اس لیے اب پھر مسلمانوں کو باہر نکالنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا ۔پورے ملک میں اعلان کر دیا گیا کہ تمام مسلمان یکم اپریل تک غرناطہ میں جمع ہو جائیں ۔ان کو ان کے وطن عزیز تک لے جانے کے لیے مکمل تیاریاں کی گئی ۔جب مسلمانوں کو امن و آشتی کا یقین ہو گیا کہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا تو وہ سب غرناطہ میں اکھٹے ہونا شروع ہو گیے ۔اس میں بوڑھے ،جوان،خواتین ،بچے اور کئی ایک مریض بھی شامل تھے ۔عیسائی جرنیلوں نے ساحل سمندر سے مسلمانوں کو الوداع کیا اور جہاز وہاں سے چل دیے ۔لیکن افسوس !!! یہ کون جانتا تھا کہ ان بےچارے مسلمانوں کا منزلِ مقصود تک پہنچنے سے قبل ہی ان پر ان کی سفر حیات تنگ کر دی جائے گی ۔عیسائیوں نے منصوبہ بند طریقے سے انھیں بیچ سمندر میں غرق کرکے ابدی نیند سلا دیا ،اور پھر انھوں نے اسپین میں اس بات پر خوب جشن منایا کہ دیکھ ! ہم نے اپنے دشمنوں کو کس طرح بے وقوف بنا دیا ۔پھر کیا ہوا یہ دن پورےیورپ میں فتح کا عظیم دن بن گیا اور اسے انگریزی زبان میں " First April Fool" کا نام دیا گیا.
ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے، جسے اردو کے مشہور لغت "نور اللغات" کے مصنف مولوی نور الحسن نوری نے اپنی اسی لغت میں مرقوم کیا ہے. لکھتے ہیں "اپریل فول انگلش کا اسم ہے، اس کا معنی اپریل فول کا احمق ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انگریزی قوم میں یہ دستور ہے کہ انگریز اپریل کی پہلی تاریخ کو اپنے سناشا کے پاس لفافے میں کوئی دل لگی چیزیں ارسال کرتے ہیں اور اخبارات میں جھوٹی خبریں شائع کی جاتی ہیں، پھر وہ لوگ جو اسے سچ مان لیتے ہیں، وہ اپریل فول (بے وقوف) قرار پاتے ہیں ".
اس کے علاوہ ایک اور وجہ بیان کی جاتی ہے، جسے انیسویں صدی عیسوی کی مشہور انسائیکلوپیڈیا لاردس نے بیان کیا ہے. لاردس نے یہودیوں اور عیسائیوں کے مستند حوالوں سے لکھا ہے کہ یکم اپریل وہ دن ہے جس میں یہودیوں نے عیسی علیہ السلام کا مذاق اڑایا تھا، انھیں تکلیف پہنچائی تھی. لوقا کے انجیل میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جن لوگوں نے عیسی علیہ السلام کو گرفتار کیا وہ آپ کے چہرے پر پٹی باندھتے، چہرے پر مارتے اور یہ پوچھتے کہ اب آپ اپنی قوت نبوت سے بتائیں کہ کس نے مارا ؟ گرفتاری کے بعد انھیں یہودی علما کے پاس بھیجا گیا، پھر وہاں سے اور کئی متعدد عدالتوں میں. ان افعال سے ان کا مقصد صرف یہی تھا کہ انھیں پریشان کریں اور بے وقوف بنائیں.اور پھر آخر میں یہودیوں نے اس دن کو بطورِ یادگار منانے کا فیصلہ کیا.
اس کے علاوہ بھی اور بہت ساری وجوہات بیان کی جاتی ہیں،مگر یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہی وجہ ہے.مگر ان تمام وجوہات میں یہ بات تو مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے کہ اس کی بنا جھوٹ، فریب اور دھوکہ دھڑی جیسے خبیث اوصاف پر قائم ہے.مگر ہائے رے شومئی قسمت !!! جشن کا یہ پر خطرناک دن دیگر اقوام کی مثل رفتہ رفتہ قوم مسلم میں بھی حلول کر گیا اور آنِ واحد میں اس نے نوجوان طبقے کو اپنے دامِ فریب میں قید کر لیا ۔آج مسلم معاشرے میں بھی اس دن کو خوشی کے طور پر منایا جانے لگا ہے ۔نہ تو انھیں اپنے مسلم بھائیوں کے قتل و غارت گیری کا وہ دلسوز واقعہ یاد رہا اور نہ ہی دشمنوں کی خوشی میں شرکت کرنے کا وبالِ عظیم ۔حالانکہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہیں کہ :"مسلمان آپس میں میں ایک جسم کی طرح ہیں کہ اگر کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بےچین ہو جائے "۔لیکن آج ہم ہیں کہ اپنے مسلم بھائیوں کے غم میں شرکت کرنے کے بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا خبیث فعل انجام دے رہے ہیں ۔آپ قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ جھوٹ انسان کو اندر ہی اندر ایسا کھوکھلا کر دیتا ہے کہ پھر کاذبین اپنے حسنِ کردار کی مضبوطی کھو دیتا ہے اور اس کے پوری کی پوری شخصیت پراگندہ و متعفن زدہ ہو کر رہ جاتی ہے.
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ اور سچ کے حوالے سے یہ خوبصورت اور معنی خیز کلمہ ارشاد فرمایا کہ :"شک والی چیز کو چھوڑ کر بے غبار چیزوں کو اختیار کرو کہ سچائی میں اطمینان ہے اور جھوٹ میں شک" (سنن ترمذی) اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ "جھوٹ سے بچو کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتی ہے اور برائی جہنم کی طرف" (ممفہوما ولخصا) امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اسی مضمون سے متعلق جامع الاحادیث میں ایک حدیث نقل فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :جس نے کسی مسلمان کے ساتھ بددیانتی کی، اسے نقصان پہنچایا یا اسے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں".
آج اپریل فول کے نام پر حدیث میں مذکورہ انھیں نا پسندیدہ اوصاف کا تو ارتکاب کیا جاتا ہے. لوگ اس کو افتخار کی اہم کڑی تصور کرتے ہیں، مگر ان کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں ہو پاتی کہ ہم جس عمل کو کامیابی کی ضمانت تصور کرتے ہیں، اس سے برسوں پہلے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نفرت و عداوت کا اظہار فرما چکے ہیں. آپ نے تو ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ :جو جس قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ اسی میں سے ہے". بھلا بتائیں تو سہی کہ کیا یہ اپریل فول منانا اسلامی روش سے کہیں کوسوں دور ہٹ کر اپنے آپ کو مغربی کلچر میں رنگنے جیسا نہیں ہے؟ بالکل ہے. وہی قوم جس سے آپ صل اللہ علیہ و سلم نے مخالفت کا حکم صادر فرمایا، آج مسلمان خاص کر نئی نسل کے نوجوان اسی کی طرز حیات سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں. یکم اپریل کو گلی کوچوں میں آوارہ گردی اور دھڑ لے سے نیچ حرکتوں کا ارتکاب کرتے پھرتے ہیں. نا تو انھیں اسلامی شریعت کا پاس و لحاظ رہتا ہے اور نہ ہی خود کی اپنی شناخت و خوبصورت تہذیب کی.آقا کریم کی ذات نے تو یہ بھی پسند نہیں فرمایا کہ کوئی بندہ مومن مذاق میں بھی جھوٹ بولنے کی جرات کرے. جس نے اپنے بھائی کی اگر ایک لاٹھی یا ہلکا پہلکا سامان بھی بغیر اجازت کے اٹھا لیا تو اسے چاہیے کہ وہ واپس کر دے.
سچ پوچھیں تو آج دھوکہ دھڑی کے نام پر رائج اس "اپریل فول"کے رسم بد کا بائیکاٹ کرنا مسلمانوں پر بہت ضروری ہے. جی؛ ہمیں تو بچنا ہی ہیں، جہاں تک ہو سکے اپنے بال بچوں اور احباب و اقربہ کو بھی اس سے دور رکھنے اور سچ سے رشتہ جوڑنے کی تلقین کریں کہ دوسروں کی خیر خواہی میں بڑی ہی بھلائیاں مضمر ہوا کرتی ہیں. دیکھیں تو ذرا! اسی قوت سچ نے جہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو وصف صدیقیت سے متصف کر دیا تھا وہیں غوث پاک کی سچائی نے بھی چوروں کو ولایت کی پونجی سے مالا مال کیا تھا. یقیناً، اس حوالے سے ضروری ہے کہ قوم کے باوثوق افراد اور علما کی مقدس جماعت اسلامی تہذیب کو فروغ دیں، جھوٹ کی تباہی و بربادی سے عوام الناس کو باخبر کریں، خاص طور پر میڈیا سے منسلک لوگ جھوٹ و دروغ کے زہریلے عنصر سے بنائی گئی خبروں کو نشر کرنے سے اجتناب برتیں.
اس لیے اب آئیے آج ہی ہم یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ کبھی بھی دشمنوں کی خوشی میں شرکت ،جھوٹ،نفاق،اور اس فعل کا ارتکاب نہیں کریں گے. بلکہ سدا حقانیت و صداقت کے نغمے گائیں گے، اخوت و بھائی چارگی کا سنہرے و زریں دروس عام و تام کریں گے اور پھر ایک نہ ایک دن سماج میں پھیلے مغربی گھٹا ٹوپ تاریکی کو مشرقی شام سحر سے تبدیل کر دیں گے. (انشاءاللہ)
جواب دیں