صدر مرسی نے روس اور ہندو پاک کا دورہ کیا تھا اور یہ دورہ مصر کے روشن مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا، بہت سارے حضرات کو بالکل اس کا علم نہیں ہے کہ اس دورے میں صدر مرسی نے مصر کو نیو کلیائی میدان میں آگے بڑھانے کے لیے اور یورینیم افزودگی کے لیے روس کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجے میں مصر نہ صرف بجلی کے بحران پر قابو پالیتا بلکہ بجلی برآمد کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتا، اور دیگر پاور پلانٹ بھی لگائے جاتے جس کے فوائد مصر کو تین سال کے قریبی عرصے میں حاصل ہونے لگتے۔
کیا مصری عوام اس حقیقت سے واقف ہیں کہ صدر مرسی کا یہی دورہ تھا جس سے مغربی دنیا کی نیندیں اڑ گئیں اور امریکا کے ہوش ٹھکانے آگئے، اس معاہدے کے نتیجے میں سر دست یہ فائدہ تو حاصل ہوہی جاتا کہ ہمیشہ ہمیش کے لیے مصر بجلی کے بحران سے چھٹکارا پالیتا،اور مصر اتنی بجلی برآمد کرتا جو پورے بر اعظم افریقہ کے لیے کافی ہوجاتی۔
یہ بھی مصری عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ صدر مرسی کے عہد صدارت میں مصر نے جرمنی سے دو آبدوزیں خریدی تھیں، اسرائیل نے ہر ممکن کوشش کی اور جرمنی پر دباؤ ڈالا کہ کسی طرح مصر کے ہاتھ یہ سودا نہ ہونے پائے اور اگر کہیں مصر کو یہ طاقت حاصل ہوگئی اور میزائیلوں کے حصول میں وہ کامیاب ہوگیا تو پھر اسرائیل کی پرواز میں قدغن لگ جائے گی اور اس کی ساری سرگرمیاں تعطل کا شکار ہوجائیں گی ۔
یہ حقیقت بھی اکثر مصری عوام کے ذہنوں سے اوجھل ہے کہ صدر مرسی نے اسی دورے میں ہندوستانی سائنس دانوں کے ساتھ وہ معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجے میں فوجی سٹیلائٹ مصر کی ملکیت میں آجاتا جو اسرائیل کی چھوٹی چھوٹی گلیوں پر بھی نظر رکھ سکتا تھا، اور اگر یہ فوجی انقلاب کامیاب نہ ہوتا تو بہت جلد مصر کی قسمت میں وہ دن بھی آتا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ سٹیلائٹ کا مالک ہوتا۔
بہت سارے لوگوں کے علم میں یہ بات بھی نہیں کہ مرسی نے روسی صدر پوٹن سے کہا تھا کہ مصر کو میزائیلوں کی بڑی سخت ضرورت ہے، اور روس نے قانونی طور پر مصر کے ساتھ میزائیل سودے کے معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے، جو تل ابیب کو جہنم زار بنا دینے کے لیے کافی تھے؛ اور صدر مرسی نے اس مقصد کے تحت مصر کے ایک اعلیٰ فوجی افسر کو اس سودے کی پیش رفت کے لیے بھیج بھی دیا تھا مگر آہ! مصر کی بد نصیبی کہ مصرکے اعلیٰ فوجی افسروں پر امریکی دباؤ کے نتیجے میں یہ بات آگے نہ بڑھ سکی اور بالآخر صدر کو ہی مسند صدارت سے ہٹادیا گیا۔
مصریوں کو اس حقیقت کا بھی عرفان ہونا چاہیے کہ مصر کی بد نصیبی اور غلامی کے دن صدر مرسی کی مدبرانہ قیادت کے نتیجے میں ختم ہوجانے والے تھے اور مصر اپنے اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر اپنے آقاؤں سے آزادی کی دہلیز پر تھا۔ اکثر مصری عوام اس حقیقت سے بھی ناواقف ہیں کہ ایران کو ڈھائی ہزار کیلو میٹر کی دوری والے میزائیلوں کی ضرورت ہو تو ہو مگر مصر کو اتنی دوری والے ہتھیاروں کی قطعاً ضرورت نہیں ، وہ تو اسرائیل کو بہت سستے میں نمٹا سکتا ہے، اسی لیے مرسی کی مدبرانہ قیادت کو اس بات کا احساس تھا کہ مصر کے ہاتھوں میں میزائیلوں کے آنے کے نتیجے میں مصر پر اسرائیل کا سیاسی دباؤ باقی نہیں رہے گا بلکہ اسرائیل کے ہاتھ پاؤں شل ہوجائیں گے اس لیے کہ اسرائیل کا رقبہ مصر کی ایک ریاست سے بھی کم ہے۔‘‘
اے شریف مصریو! اب بھی امید کی کرن باقی ہے، جب تک تمہارا عزم جواں ہے تمہاری ہمتیں جواں ہیں، پژمردگی کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دینا، اﷲ سے مدد چاہو، صبر وتقویٰ کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دو، اور باطل کے سامنے ہرگز سرنگوں نہ ہونا، حق کی طاقت ہر طاقت سے بالاتر ہے اور رب کی قوت ہر قوت سے بڑھ کر ہے۔
جواب دیں