کیوں مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتی ہندوستانی پولس؟

گویا وہ دوہری مار جھیلتے ہیں۔ اخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ مسلمان ہی چکی کے دو پاٹوں میں کیوں پستے ہیں؟ حکومت کا رویہ ان کے خلاف کیوں جاتا ہے اور وہ بھی مسلمانون کے ساتھ انصاف کرنے پر پولس کو مجبور کیوں نہیں کرتی ہے؟ آزادی کے بعد سے پولس کا یہ رویہ اب تک جاری ہے اور کوئی بھی اس پر روک ٹوک لگانے والا نہیں ہے۔ حال ہی راجدھانی دلی کے ترلوک پوری علاقے میں دنگا ہوگیا اور اس معاملے میں پولس نے سب سے زیادہ گرفتار مسلمانوں کو کیا ۔ کیا دنگاصرف مسلمان کرتے ہیں؟ اس میں دو رائے نہیں کہ اب تک جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر میں آر ایس ایس سے جڑی ہوئی تنظیموں کے نام آئے ہیں اور ان کے لوگوں کو قتل وغارت گری کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے مگر افسوس کہ جس طبقے کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے، اسی طبقے کو سب سے زیادہ گرفتار بھی کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پولس ایسا کیوں کرتی ہے؟ کیا اسے لگتا ہے کہ مسلمانوں نے خود ہی ایک دوسرے کو مارا اور لوٹا ہے؟ اس سے بھی بھیانک صورتحال اس وقت بنتی ہے جب گرفتار ہونے والے ہندووں پر معمولی دفعات لگائی جاتی ہیں، کہ ان کی ضمانت جلد ہوجاتی ہے اور مسلمانوں پر سخت دفعات لگائی جاتی ہیں کہ وہ ضمانت نہ پاسکیں اور ان پر جرم ثابت ہوجائے۔ اب تک کے رکارڈ بتاتے ہیں کہ ٹاڈا اور پوٹاجیسے غیر انسانی قوانین کا استعما ل بھی سب سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس لئے پولس مسلم دشمنی پر اتر آتی ہے کہ یہاں مسلمانون کی تعداد بہت کم ہے یا پھر اس کی تربیت ہی اس انداز میں ہوتی ہے کہ وہ مسلمانون کو مجرم تصور کرے؟ مسلمانوں کو کورٹ سے راحت مل جاتی ہے مگر پولس ، انھیں مجرم ثابت کرنے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑتی ہے۔ بارہا ایسا دیکھا گیا ہے کہ پولس نے جھوٹے شواہد الاکر کورٹ کے سامنے پیش کردیئے۔ کبھی دھماکہ خیز مادہ تو کبھی ہتھیار۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ملزم کسی اور مقام سے پکڑا گیا اور اس کی گرفتاری کسی دوسرے مقام سے دکھائی گئی۔ حالانکہ کیس کھڑا کرنے کے لئے پولس کے ذریعے جھوٹے ثبوت اور گواہ پیش کرنے کی روایت رہی ہے ،اور ایسا دوسرے معاملات میں بھی کیا جاتا رہا ہے مگر مسلمانون کے ساتھ ایسا کرنا زیادہ عام بات ہے۔ 
انصاف کو آوز دو۔۔
۲۶ستمبر۲۰۱۲ء کو سپریم کورٹ کی ایک بینچ جس میں جسٹس ایچ ایل دتو اور جسٹس سی کے دتو شامل تھے، نے ایک فیصلہ دیتے ہوئے گیارہ مسلمانوں پر سے ٹاڈا ہٹانے کا حکم دیا جن کا کہناتھا کہ ہم پر ٹاڈا صرف اس لئے لگایا گیا ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ ۱۶مئی ۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلے دیا جس میں ستمبر۲۰۰۲ء میں گجرات کے اکشر دھام مندر پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے ملزموں کو بری کرنے کا حکم دیا حالانکہ انھیں ٹاڈا میں گرفتار کیا گیاتھا ۔ اسپیشل کورٹ نے چھ مسلمانوں کو مندر پر حملہ اور اور حملہ آوروں کی مدد کے معاملے میں عمر قید اور پھانسی کی سزا سنا دی تھی۔ اسے ہائی کورٹ نے برقرارکھا تھا مگر سپریم کورٹ کی ایک بینچ جو کہ جسٹس اے کے پٹنائک اور جسٹس وی گوپالا گوڑا پر مشتمل تھی ،ان سب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ پھانسی اور عمر قید کی سزا پانے والوں کو کورٹ کے فیصلے سے دوبارہ نئی زندگی ملی اور پولس کے ذریعے جھوٹے کیس بنانے کے معاملے کا پردہ فاش ہوگیا۔ جس کے لئے سپریم کورٹ نے پولس کو پھٹکار لگائی اور سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ پولس کے ستائے ان بے گناہوں میں سے کچھ لوگ بارہ سال جیل میں گزارچکے تھے۔ 
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
مہاراشٹر کے مالیگاؤں مین بم دھماکے ہوئے جن میں مرنے والے سبھی مسلمان تھے اور پولس نے اس الزام میں مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔ ان لوگون نے پانچ سال سے زیادہ جیل میں گزارے اور پھر جب تفتیش میں ابھینو بھارت نامی ایک دائیں بازو کی ہندوتووادی جماعت کا نام آیا تو مشکل سے انھیں رہائی ملی۔اس معاملے میں پولس نے جھوٹے ثبوتوں اور گواہوں کے انبار لگا دیئے تھے اور جب اصل مجرموں کا پتہ چل گیا تب بھی ان مسلمانوں کو کلین چٹ نہیں دی گئی ۔ ایسا ہی معاملہ حیدر آباد کی مکہ مسجد دھماکہ معاملے میں ہوا اور سمجھوتہ اکسپریس دھماکے کے معاملے میں ہوا۔ 
انصاف کیوں نہیں ہوتا؟
بھارت میں مسلم کش فسادات کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ ان دنگوں میں مارے جانے والے مسلمان ہی ہوتے ہیں اور سزا پانے والے بھی وہی ہوتے ہیں۔ اب تک کے اعداد وشمار کچھ یہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ پولس ہی نہیں بلکہ حکومت اور اس کے تمام کل پرزے بھی مسلمانوں کے خلاف کام کرتے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں ممبئی میں مسلم کش فسادات ہوئے جس میں سینکڑوں مسلمانوں کو مارا گیا اور ان کی جائیداد کو لوٹا گیا مگر گرفتار ہونے والوں میں بھی وہی سب سے زیادہ تھے۔ اس دنگے کی انکوائری کے لئے تب کی مہاراشٹر کی کانگریس سرکار نے ایک جانچ کمیشن بنایا جسے سری کرشنا کمیشن کا نام دیا گیا تھا کیونکہ اس کے سربراہ جسٹس سری کرشنا تھے۔ انھوں نے جانچ کی اور جو رپورٹ دی اس میں بی جے پی اور شیو سینا کے کئی لیڈروں کو قصور وار پایا گیا تھا مگر سرکار اور پولس نے ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی بلکہ انھیں اپنی پارٹی کی طرف سے انعام ملا اور وہ الیکشن جیت کر وزیر تک بن گئے۔ ان میں سے کچھ آج بھی زندہ ہیں اور کچھ لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ چونکہ مقتول مسلمان تھے لہٰذا قاتلوں کو انعام ملا مگر اسی کے سال بھر بعد دسمبر۱۹۹۳ء میں یہاں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے
جن میں مرنے والوں میں بیشتر ہند وتھے لہٰذا مجرموں کی گرفتاری اور سزا دلانے میں پولس اور حکومت دونوں سرگرم دکھائی دیں۔ جو مجرم بھارت میں نہیں تھے انھیں بیرون ملک سے گرفتار کرکے لایا گیا اور سزائیں دی گئیں۔ ان میں سے بعض اب بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ یہ پولس کے دوہرے رویہ کہ بدترین مثال ہے۔ اسی مہاراشٹر میں بار بار انسداد دشہت گردی کے نام پر مسلمانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے معاملات بنانے کی کوشش ہوئی۔ جولائی ۲۰۱۴ء میں ممبئی ہائی کورٹ کے ججوں نے پولس اور حکومت سے سوال کیا کہ آخر پولس کسٹڈی میں مرنے والوں میں اکثریت مسلمان اور دلت کی کیوں ہے؟ کورٹ کے اس سوال کا نہ تو پولس کے پاس کوئی جواب ہے اور نہ ہی حکومت کے پاس۔ یونہی اب تک کے جو فسادات کے اعدا د وشمار دستیاب ہوئے ہیں ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مرنے اور گرفتار ہونے والوں میں اکثریت مسلمان کی تھی۔ ان میں ایسے مسلمان بھی کافی تعداد میں تھے جو غریب تھے اور ان کے پاس اپنی دفاع کے لئے وکیل کرنے کی حیثیت نہ تھی یا ضمانت کے پیسے نہ تھے لہٰذا انھیں اپنی ناکردی گناہی کی سزا بھگتنی پڑی۔
کون ذمہ دار ہے پولس کے اس رویہ کے لئے؟
سوال یہ ہے کہ پولس کی ذہنیت کوئی پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کا رویہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ایسے میں خود مسلمان اپنے دفاع کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں بنا پائے، یہ ان کی غلطی نہیں ہے۔ کسی بھی سرکار کے تعلق سے مسلمانوں کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہوتا اور یہی سبب ہے کہ وہ انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتی ہے۔ پولس کے رویہ سے دفاع کے لئے قانونی لڑائی کا مسلمانوں کے پاس کوئی انتظام نہیں ہے اور جس پر گزرتی ہے وہی سمجھتا ہے، دوسرا مسلمان خاموش تماشا دیکھتا رہتا ہے۔ مسلمان وکیلوں کی ایک فوج عدالتوں میں نظر آتی ہے مگر یہ ان بے قصور مسلمانوں کے دفاع کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے جو بے قصور ہونے کے باوجود جیلوں میں ہوتے ہیں۔ اگر ان کے دفاع میں کوئی سامنے آتا ہے تو وہ انصاف پسند ہندو ہوتے ہیں جو کسی این جی او کی طرف سے حقوق انسانی کے دفاع کے نام پر آگے آتے ہیں یا وہ تفتیشی صحافی ہوتے ہیں جو ان معاملات کی انکوائری میں دلچسپی دکھاتے ہیں تاکہ ان کے اخبار و میگزین کے لئے کچھ تازہ اسٹوری فراہم ہوجائے۔ پولس کے اس رویہ کے لئے اس کے اندر مسلمانوں کی کمی کو بھی ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ جن صوبوں میں مسلمانوں کے آبادی ۲۰ فیصد ہے وہاں بھی وہ پولس میں ۳۔۴ فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ دوسرے طبقوں کے نوجوان پولس میں بھرتی ہونے کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں مگر مسلمان مان کر چلتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لہیذا ہمیں سرکاری نوکری نہیں ملے گی۔ درخواست دینے والوں میں سب سے کم مسلمان ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر پولس کی نوکری کے لئے فٹ نہیں آتے ہیں۔ کوئی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے تو کسی کی چھاتی کم ہوتی ہے۔ ریرزویشن کی مار بھی مسلمانوں پر پرتی ہے۔ وہ ایس سی ،ایس ٹی ریزرویشن کے دائرے میں نہیں آتے لہٰذا ۲۲فیصد سے زیادہ سیتوں پر انھیں نہیں لیا جاسکتا۔ کچھ مسلمان او بی سی ریزرویشن کے دائرے میں آتے ہیں اور انھیں اس کوٹے کے تحت نوکری مل جاتی ہے۔ ان تما م باتوں کو مدنظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ پولس کے غیر انسانی اور غیر منصفانہ رویہ کے لئے کچھ حد تک وہ خود بھی ذمہ دار ہیں۔ ان حالات سے باہر آنے کے لئے انھیں خود بھی اٹھنا پڑے گا۔ 
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال ،خودآپ اپنی حالت بدلنے کا ۔

«
»

سنگھ پریوار کی ہٹلری کے خلاف نئی نسل کا اعلان جنگ

جدید اردو صحافت کے معمار کا انتقال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے