اس رات کے بعد سے نہ جانے کتنی تقریریں پنڈت نہرو کی سنیں کتنی مسز اندرا گاندھی کی سنیں اور کتنی ان کے بعد بننے والے وزراء اعظم کی سنیں یا پڑھیں یہ یاد نہیں۔ لیکن یہ یاد ہے کہ 1967 ء کے الیکشن میں اندرا گاندھی ہر تقریر میں غریبی ہٹاؤ پر زور دیتی تھیں لیکن ان کے منھ سے ایک بار بھی سننا یاد نہیں کہ انہوں نے تاریخ یا ماہ و سال کے تعین کے ساتھ کہا ہو کہ میں اتنے دنوں میں غریبی سے نجات دلادوں گی۔ ان کی تقریروں سے اتنا ضرور ہوا کہ 75 فیصدی عوام یہ سمجھنے لگے کہ پنڈت نہرو واقعی غریبی ختم کرنا چاہتے تھے اور ان کے ساتھی وزیر انہیں نہیں کرنے دیتے تھے۔ اب اندراجی نے سب کو نکال دیا اس لئے غریبی اب ختم ہوجائے گی۔
اندرا گاندھی کے بعد کتنے ہی آئے اور آکر چلے گئے۔ لیکن غریبی اس لئے ختم نہیں ہوئی کہ اسے ختم کرنے کے لئے جیسے دل، جگر، دماغ اور ہاتھوں کی ضرورت ہے وہ نہ ابھی سامنے آئے ہیں اور نہ آتے نظر آرہے ہیں اور ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہمیں معاف کریں کہ اب تو جو آرہا ہے وہ بد سے بدتر ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ کون سوچ سکتا ہے کہ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک کا تاجدار جھوٹ کی سیڑھی پر چڑھ کر سب سے اوپر آئے اور اس کے بعد جھوٹ کے ہی سہارے پورا سفر طے کرے۔ کالے دھن میں سے پندرہ لاکھ کے حصے کو تو مذاق کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے۔ مہنگائی کو قدرت کی سزا مانا جاسکتا ہے لیکن وہ جو پارلیمنٹ میں ہر قسم کے داغوں کے داغ لئے بیٹھے ہیں اور جن کے لئے پہلی تقریر میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ان میں جو خطاکار ہیں ان کا ٹھکانہ جیل ہے اور جو بے گناہ ہیں انہیں دودھ سے نہلایا جائے گا اور یہ کام ایک سال کے اندر کردینا ہے یاد بھی ہے کہ بھول گئے اور ایسے ہی جانے کتنے عہد و پیمان تھے جن سے اخباروں کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ کس قدر شرم کی بات یہ ہے کہ حکومت کا مقصد صرف اور صرف یہ بنا لیا ہے کہ ملک کے ہر صوبہ میں بی جے پی کی سرکار بن جائے۔ چاہے آدھا ملک تباہ ہوجائے۔
پورے ملک اور ہر قوم و ملت اور ہر طبقہ کا وزیر اعظم بننے کے بعد اس کے لئے حرام ہے کہ وہ کسی ایک پارٹی کو جتانے کے لئے اپنی ساری توانائی داؤ پر لگادے۔ ہریانہ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں جب وہ سر پٹخ رہے تھے تب بھی ان کے منھ سے دوسری پارٹیوں کے لئے جیسے کلمات نکلے وہ اس لئے مناسب نہیں تھے کہ مودی ان کے بھی وزیر اعظم تھے لیکن دہلی اور بہار میں تو انہوں نے ساری حدیں تہس نہس کردیں۔
اور ایک کام انہوں نے وہ کیا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ان کو اور ملک کو اس کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑے گی؟ 24 لاکھ سے زیادہ سابق فوجیوں اور 6 لاکھ بیواؤں کے مطالبات موجودہ وزیر دفاع شری منوہر پاریکر کے کہنے کے مطابق 50 برس سے حکومت کے زیرغور ہیں۔ شری مودی نے جب وزیر اعظم کے امیدوار کی حیثیت سے ملک کا دورہ شروع کیا تو سابق فوجیوں کے اور بیواؤں کے 30 لاکھ ووٹوں کی خبر سے ان کے منھ میں پانی آگیا کیونکہ بیوی بیٹے نوکر چاکر ملاکر یہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ بن رہے تھے۔ مودی کوئی سڑک کے آدمی نہیں تھے وہ جن تنظیموں سے بندھے ہوئے تھے ان میں ایسے لوگ موجود تھے جنہیں معلوم تھا کہ ’’وَن رینک وَن پینشن‘‘ کیا ہے؟ لیکن ہریانہ میں مودی صاحب نے اندھے ہوکر اعلان کردیا کہ کانگریس بہادروں کو دھوکہ دے رہی ہے۔ حکومت بن جائے تو ہم یہ مطالبات تسلیم کرلیں گے۔
شری مودی کا منوہر پاریکر کے پالے میں گوٹ ڈال کر فرار اختیار کرنا اور پاریکر کا یہ کہنا کہ اب فوجی ثابت کریں کہ وہ کانگریس کے اشارہ پر نہیں چل رہے ہیں؟ آخری درجہ کی شرمناک حرکت ہے۔ یہ فوجی جب کانگریس حکومت سے مطالبہ کررہے تھے تو کیا بی جے پی کے اشاروں پر وہ چل رہے تھے؟ ہم نے کسی کانگریسی وزیر سے نہیں سنا کہ اس نے کہا ہو کہ فوجی ثابت کریں کہ وہ کسی کے سیاسی اشارے پر نہیں چل رہے ہیں؟ یہ بات انہیں چپ کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ تم تو فوجی ہو عقل تمہارے پاس ہے نہیں۔ تم دوسروں کا کھلونا بن گئے ہو۔ یہ الزام لگاتے وقت منوہر پاریکر جیسوں کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ یہ وہ ہیں جب اچانک ان پر کسی طرف سے حملہ ہوتا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی سلامتی خطرہ میں ہے تو نہ یہ سونیا گاندھی سے پوچھتے تھے نہ منموہن سنگھ سے اور نہ صدر سے بلکہ ہر فیصلہ ایک سیکنڈ میں خود کرکے جواب دیتے تھے۔ یہ وہ طبقہ جس کے یہاں کمیشن بنانے کا کوئی خانہ نہیں ہے۔ یہ مکاری، عیاری، ٹال مٹول کسی کے اشاروں پر چلنے کا الزام اور کمیشن بنانا یہ میدانِ کارزار میں نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے اے سی ہال، اے سی کمرے، اے سی کاریں اور گلفام بھی اے سی اور کراکری بھی ایسی ہوتی ہے۔
ہم نے آج سے پہلے بھی لکھا تھا اور آج پھر لکھ رہے ہیں کہ اس مذاق کو بند ہوجانا چاہئے۔ ہمارا فوج سے تعلق یہ ہے کہ 1963 ء سے 1976 ء تک ہمارے دوستوں میں زیادہ تر میجر کیپٹن اور ان سے بھی بڑے افسران رہے ہیں۔ گوا کو جب پرتگالیوں سے خالی کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو ہم ایک میجر دوست کے یہاں بیٹھے تھے جہاں دو چار اور بھی تھے۔ ریڈیو پر آواز گونجی کہ فوجیوں کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں اور انہیں الرٹ کردیا گیا ہے کہ وہ پہلی آواز پر مورچہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ میزبان میجر نے ماں کی گالی دے کر کہا تھا کہ فوجی تو سوتا بھی ہے تو الرٹ رہتا ہے۔ سالو! تم اپنے کو سدھارو۔ اس زمانہ میں 1962 ء کی ذلت سے ہر فوجی موقع بے موقع سیاسی لوگوں پر گالیاں برسایا کرتا تھا۔
برسہابرس کی ان دوستیوں نے نہ جانے کتنی ہماری ایسی عادتین بدل دیں جو معاشرہ کی دین تھیں اور نہ جانے کتنی ان فوجیوں کا عادی بنا دیا جن کی بناء پر زندگی میں قدم قدم پر کامیابیاں بھی ملیں اور فتوحات بھی۔ یہ صرف بے تکلف دوستی ہی کا تعلق ہوتا ہے جس سے آدمی کو اندر سے اور باہر سے دیکھ لیا جاتا ہے ہم قسم کھاکر کہہ سکتے ہیں کہ نہ جانے کتنے عام دوستوں نے یا مایوس کیا یا بے وفائی کی لیکن کسی ایک میجر کا نام یاد نہیں جس نے ٹوٹ کر محبت نہ کی ہو۔ یہ تعارف اور تعلق ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم ان کی ذہنیت سے بہت واقف ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے کسی کے ہاتھوں کا کھلونا بننا نہیں سیکھا۔
1966 ء میں ہم جیل میں تھے۔ ایک اخبار میں میجر ایم زیڈ حسن کے بنگلہ سے الہ آباد کے ان کے ایک دوست کی کار چوری کی خبر چھپی۔ میرے قریب ایک پڑھا لکھا لڑکا بیٹھا تھا۔ میری مسکراہٹ کی وجہ معلوم کی تو تعلق کا ذکر آگیا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ وہ ملٹری کے ایک امتحان کے لئے جارہا تھا اسے پھنساکر جیل بھیج دیا۔ اس نے میجر حسن کو ضمانت کے لئے خط لکھ دیا۔ وہ ایک میجر کے ساتھ جیل آئے اور جیلر سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جھوٹا ہے۔ وہ ’’پرانا فراڈ ہے۔‘‘ حسن صاحب نے ہمارے بارے میں معلوم کیا۔ جیلر صاحب نے کہا کہ کیا ملنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ’’ضرور مگر وردی میں ہمیں‘‘ سیاسی دوستوں سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔
جیلر صاحب نے دو دن کے بعد ذکر کیا اور اس کی تعریف کی ہماری فوج کے افسر قانون کے بہت پابند ہوتے ہیں۔ ہمارے گھر یوں بھی آتے تھے۔ تقریب میں بھی شریک ہوئے لیکن وردی میں ایک دن بھی ہمارے گھر نہیں آئے۔ کہتے تھے کہ ہمیں ہدایت کی جاتی ہے کہ ہر شوق پورا کرو، مذہبی امور کی پابندی اور مذہبی جلسوں میں شوق سے جاؤ بس سیاسی پارٹی کے کسی آدمی سے دوستی نہ کرو اور نہ حکمراں اور حزب مخالف کے موضوع پر بحث کرو۔ یہ ہمارا میدان نہیں ہے۔
ہم ان ہی باتوں کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ کوئی ایک یا دس پانچ سیاسی ذہن سے کام کریں لیکن سب کا عام ذہن ایسا بنایا جاتا ہے کہ پھر وہ سیاست کے خانوں میں فٹ نہیں ہوپاتے۔ جیسے جھوٹ کا ان کے یہاں گذر نہیں ہے۔ کسی کام کو بھی ہم نے کہا۔ ہاں کہہ دیا تو جس دن اور جس وقت کا وعدہ کیا وہ کیا۔ اور اگر اسے اصول کے خلاف سمجھا تو صفائی کے ساتھ انکار۔ بات ہر دن بگڑتی ہی چلی جارہی ہے اچھا یہ ہے کہ مودی صاحب اپنے پریوار کی طرح بلائیں اور بتائیں کہ مشکل کیا ہے؟ اور ان سے درخواست کریں کہ اتنا اس وقت لے لیں۔ باقی دو سال کے بعد۔ پاریکر صاحب کا لٹھ مارنے کی طرح کہہ دینا کہ ہر مطالبہ پورا نہیں کیا جاسکتا کلیجوں میں تیر کی طرح لگتا ہے۔
جواب دیں