اس سال افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا ہونے والا ہے۔ پانچ اپریل کو ملک کے صدارتی انتخاب میں گیارہ امیدوار شریک ہوں گے۔ملک میں انتخابات کے دوران سکیورٹی سنگین مسئلہ ہے کیونکہ طالبان اورحزب اسلامی نے انتخابی مہموں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ بدعنوانی بھی اہم مسئلہ ہے جبکہ۲۰۰۹ء میں ہونے والے گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کے شدید الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تاہم امریکاکی جانب سے ان کے بھائی قیوم کرزئی کی حمائت نہ کرنے پرامریکاکی مخالفت کاجوپروپیگنڈہ کیاجاتاتھااب قیوم کرزئی کے انتخابات سے دستبرداری کے بعدکرزئی کے مؤقف میں مزیدسختی کی توقع کی جارہی ہے۔موجودہ سیاسی تبدیلی کے بعداب امریکی حکام کاکہناہے کہ کرزئی کی پالیسیوں کی وجہ سے انہیں افغانستان آپریشن میں کامیابی نہیں ملی اورکرزئی کی وجہ سے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیاب نہ ہوسکے جبکہ امریکااورافغان طالبان کے درمیان مذاکرات اہم مرحلے میں داخل ہوگئے تھے لیکن کرزئی کے قطرمذاکرات میں افغان حکومت کوشامل نہ کرنے کی وجہ سے مذاکرات تعطل کاشکار ہوگئے۔اگرامریکی حکام کویہ معلوم ہوتاکہ حامدکرزئی افغان لویہ جرگہ بلانے اورجرگے سے منظوری کے باوجودمعاہدے پردستخط نہیں کریں گے تووہ قطرمیں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں تعطل پیدانہ ہونے دیتے لیکن انہوں نے افغان صدرپراعتبارکیااورکرزئی نے انہیں دھوکہ دیا۔
دوسری جانب حامدکرزئی کاکہناہے کہ گزشتہ دس سال میں امریکی حکام نے اپنے مفادات کی جنگ لڑی جبکہ انہوں نے افغانوں کواپنے پاؤں پرکھڑاکرنے کی کوئی منصوبہ نہیں کی جس کی وجہ سے دس سال گزرنے کے باوجودبھی افغانستان کی فوج اورپولیس کوغیرملکی افواج کی ضرورت ہے۔امریکاایک طرف افغان فوج کومضبوط بنانے کی باتیں کررہاہے جبکہ دوسری جانب ہمارے باربار مطالبے کے باوجودہیلی کاپٹر زاورجدیدجنگی سامان فراہم نہیں کیاجارہاہے اورامریکی حکام کہہ رہے ہیں کہ انہیں افغان فوج اورپولیس پراعتمادنہیں کہ وہ اس جدیداسلحے کوکہیں اورفروخت نہ کردے،یہ اسلحہ کہیں چوری نہ ہوجائے،اس لئے وہ افغان فوج کوجدید اسلحہ اوردیگرسامان نہیں دے رہے جبکہ افغان فوج کوطالبان کے خلاف لڑنے کابھی کہاجارہاہے ۔اس صورتحال میں افغان فوج اورپولیس کس طرح طالبان کاسامناکرسکتی ہے۔حامدکرزئی کاکہناہے کہ طالبان افغانستان کااندرونی معاملہ ہے لیکن امریکا نے یورپ اورمغربی مفادات کی خاطرالقاعدہ کوایک افسانہ بناکرافغانستان میں افغانوں کوقتل عام کیاجبکہ گزشتہ بارہ سالوں میں القاعدہ کے دوتین درجن سے زائدلوگوں کانام اس جنگ میں مارے جانے والوں کے طورپرسامنے آیاہے اس لئے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان افغانوں کاہواہے۔حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ چنددرجن پرمشتمل افرادکانام تھااورامریکانے ہوّاکھڑاکرکے اسے افسانہ بنادیا۔
دوسری جانب باوثوق ذرائع کے مطابق حامدکرزئی نے اپنے خاندان کے مشورے سے قیوم کرزئی کوصدرکیلئے نامزدکیاتھاتاہم امریکانے کرزئی کے بھائی قیوم کرزئی کی حمائت کرنے سے انکارکردیاجبکہ اقوام متحدہ نے بھی پاکستان میں موجودلاکھوں افغان مہاجرین کے ووٹ ڈالنے کے عمل کی نگرانی سے انکارکردیاہے جس کاصاف مطلب ہے کہ امریکاکرزئی کے بھائی کوکسی بھی صورت میں افغانستان کاصدردیکھنانہیں چاہتاجس کے بعدامریکااورکرزئی کے درمیان اختلافات عروج کوپہنچ گئے جس کی بناء پرحامدکرزئی نے اپنے بھائی کوصدارتی انتخابات سے دستبردارکرکے امریکاکے خلاف کھل کرآنے کاپروگرام تیارکیاہے تاکہ اس طرح طالبان اورحزب اسلامی کی ہمدردیاں حاصل کرکے مخالفین کا مقابلہ کیاجاسکے اوردوسری طرف طالبان اورحزبِ اسلامی کی انتقامی کاروائیوں سے محفوظ رہ سکیں۔
امریکااپنے امیدواراشرف غنی کونیاصدربناناچاہتاہے اورکرزئی یااس کے گروپ کے کسی بھی فردکومستقبل کے افغانستان میں کوئی کرداردینے پرقطعاًآمادہ نہیں جس کیلئے کرزئی سخت مضطرب ہیں تاہم کابل میں موجودایک اہم ذرائع نے امریکااورکرزئی کے بیانات کوڈرامہ بازی قراردیتے ہوئے کہاہے کہ کرزئی اورامریکادنیاکوایک نیادھوکہ دینے کیلئے انتہائی اعلیٰ درجے کاخفیہ ڈرامہ رچارہے ہیں۔گزشتہ دس سال سے کرزئی امریکی آشیربادسے کابل کے تخت پر براجمان ہیں ،اگرامریکی اتنے برے تھے توکرزئی دس سال قبل ہی امریکاکوان چیزوں سے منع کرتے اورملک میںیہ تباہی وبربادی نہ ہوتی جبکہ امریکاکوکرزئی اب اتنے بے اعتمادلگ رہے ہیں توگزشتہ دس سال کرزئی کی ہاں میں ہاں ملانے سے امریکاکوکیاملا،اس لئے دونوں فریق ایک دوسرے پرالزامات لگاکراپنے اپنے ملک میں اپنی ناکام کارکردگی کوچھپانے کی کوششیں کررہے ہیں۔
کرزئی آج کل امریکاپراس لئے برس رہے ہیں کہ امریکانے ان کے بھائی قیوم کرزئی کی آئندہ صدارتی انتخابات میں حمائت سے انکارکردیا اورادھرامریکااندرونِ خانہ یہ دہمکی بھی دے رہاہے کہ کرزئی کے خاندان کے بیشترافراد منشیات کے مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں اس لئے یہ صدربن گئے توافغانستان کاکرداردنیامیں خراب ہوگااس لئے ان کی بجائے افغانوں کوایک اچھاصدرمنتخب کرناچاہئے اس لئے افغانستان کے اندرعبداللہ عبداللہ اوراشرف غنی احمدزئی کے درمیان بھرپورمقابلے کاامکان رہے گاجس کیلئے امریکانے بھرپورتیاری کرلی ہے اوراشرف غنی کی مہم کوبڑے پیمانے پرسپورٹ کیاجارہاہے،ان کے حامیوں کورقوم بھی مہیاکی جارہی ہیں اورابھی سے پریس اورالیکٹرانک میڈیا سے پیشکش کی جارہی ہے کہ کہ اشرف غنی افغانستان کے تمام مسائل حل کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب عبداللہ عبداللہ پاکستان کی حمائت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اورایران کوبھی اپنے ساتھ ملانے کی کاوشیں جاری ہیں تاہم ایران اس وقت امریکاکے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی وجہ سے افغان انتخابات سے کافی حدتک اپنے آپ کوالگ رکھ رہاہے جبکہ اشرف غنی بھی ایرانی حکام کے ساتھ کابل میں بڑے پیمانے پرملاقاتیں کررہے ہیں تاکہ ایران ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ کی حمائت نہ کرے تاہم دونوں صدارتی امیدوار وں نے اعلان کیاہے کہ وہ منتخب ہونے کی صورت میں سیکیورٹی معاہدے پردستخط کردیں گے۔کیااس خطے کوامریکی خونخوارپنجوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے کسی اورقیامت کاانتظارکرناہوگا؟
صدیوں کے جال توڑ کے لمحوں میں پھنس گئے ہم، قید و بندِ وقت سے آزاد کب ہوئے؟
میں قوم ہوں تو سوچنا ہوگا مجھے کبھی ! بے سمت منتشر مرے افراد کب ہوئے؟
جواب دیں