ویسے اس کا پیارا سا نام دونوں نے اس کی پیدائش کے بعد کئی گھنٹوں غور کرکے ’راج دیو ‘رکھا تھا ،جو ان دونوں کے مذہبی دیوتا وں اور راج محل کے شہزادوں کے تئیں دلچسی کا غماز تھا ۔ویسے خود راموجس کا پورا نام’ رام راج‘ تھا ، اس نے بچپن سے غریبی، جسے بہت حد تک سماجی لعنت اور پھٹکا ر سمجھتا تھا،کو ہی دیکھتا آیا تھا ۔وہ تو اس کے گاوں کے ایک مطب چلانے والے رحم دل نیک انسان رحیم چاچا جن کے یہاں اس کی ماں برتن دھونے اور جھاڑو پوچھا لگا نے کا کام کرتی تھی،کی حوصلہ افزائی تھی کہ وہ میٹرک پاس کرکے آج شہر میں جسیے تیسے نوکری کرکے خود کو انسانوں کے بیچ انسان کہلا لیتا تھا ۔نوکری بھی کیا تھی بس دن میں گالی اور بات، جبکہ رات میں بیوی بچے کے ساتھ تھالی میں صرف بھات اور بس ! نہ اتنا پیسہ اسے ملتا تھا کہ کچھ پس انداز کرسکے اور نہ اس قدر چھٹی کے گاوں بھی کبھی کبھا ر گھوم آئے ۔
رامو دراصل ایک رہایشی فلیٹ کا واچ مین تھا ۔اس کی نوکری چوبیس گھنٹے والی تھی ۔اوپر سے وہاں کے رہنے والوں کا سودا سلف لا ناایک الگ مسئلہ تھا ۔وہ ان کے چکن مٹن اوران سب کے مسالے اور میٹیریل لاتے لاتے ان سبھی کو اپنے حافظے میں اس قدر محفوظ کرچکاتھا کہ بتانے والے صرف نام بتاتے اور یہ روانہ ہوجاتا۔ یہ اور بات تھی کہ کبھی یہ سب چیزیں اس کے کام ودہن کے کام نہ آسکی تھیں ۔کیونکہ ایک طرف وہ منگوانے والے کافی اسٹنڈرسوسائٹی کے کہلاتے تھے جو اس کے ہاتھوں سامان منگوا تو سکتے تھے؛مگر اس کو کبھی اپنے ڈائینگ ٹیبل کے لائق نہیں سمجھتے تھے ۔تو دوسری طرف رامو انہیں معذور سمجھتے ہوئے ان کا سامان لانا جہاں ان پہ دل دل میں ایک احسان سمجھتا وہیں اس میں کسی بھی طرح کی شرکت کو وہ احسان مندی کے خلاف گردانتا۔
خلاصہ یہ کہ اس کی نوکری کب سے کب تک کی ہے اسے بھی اب تک معلوم نہ ہو سکا تھا کیونکہ اس کے لئے وقت کی کوئی تحدید نہ تھی ۔ کچھ کرنا چاہے توسرمایہ پاس نہ تھا ۔ لہذاتمام تر شوق کو سپنوں اور آج نہیں تو کل کے سہا رے پورا کرنا یا ٹا لنا اس کا شیوہ بن گیا تھا۔اور اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا ۔ مزید یہ کہ ہر آنے والاآتے وقت، اور جانے والا جاتے وقت اپنا جائز ناجائز غصہ بقول اس کے اس پہ ہی اتارتا تھا ۔خواہ اس کی وجہ آفس میں باس سے جھڑ کی سننا ہو یا گھر میں نک چڑھی بیگم سے بات پہ بات پہ گھر کے لذیذ کھانے سے محروم ہونا ،ان سب کا سامنا اسے ہی کرنا پڑتا تھا ۔ان تمام حالات سے رامو کافی اکتا چکا تھا ۔وہ کبھی کبھی کلاسوں میں پڑھی جانے والی’ کویتا ‘(نظم)جس میں انسانی خودداری کی بات کہی گئی تھی ،کو یاد کرکے خود سے گھن کرنے لگتا ۔اور پھرطرح طرح کے سپنے سجانے لگتا کہ میں یہ ایسا کر کے ایسا بن جاونگا ! بس ایک بار ہمت کرکے میں ذرا یہاں سے استعفیٰ تو پہلے دے دوں ۔
آج وہ انہیں باتوں کو لے کرکافی پریشان تھا ۔آیا استعفیٰ دے دوں یا کچھ دن اور برادشت کرلوں ؟ اسی شش وپنج میں وہ مبتلا تھا ۔گذرے ہوئے دنوں کی پریشانیاں جہاں اسے پریشان کرتی تو پانی پی کر اس کو بھلاتا ، مگرمعاًمستقبل کی پلاننگ کرتے ہوئے وہ دل دل میں خوش بھی ہوتا ۔اتنے میں کہیں اسے دور سے بدنام زمانہ نیتا اور اس کے وفادار ورکرس آتے دکھائی دیئے ۔ جو شاید کسی پارٹی کے بینر تلے نہیں ؛بلکہ بینر پہنے ہوئے اس کی طرف چلے آرہے تھے ۔اور کچھ عجیب وغریب قسم کے نعروں میں وہ سبھی ڈوبے ہوئے تھے ۔راموان سب کے نعروں کو ابھی سمجھنے کی کوشش ہی کر رہاتھا کہ وہ سبھی اس کے پاس آدھمکے ! کہو بھیاّ کیسی چل رہی ہے گاڑی؟ رامو ان کی باتوں کو سمجھ نہیں پایا ۔وہ تو بس یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید کسی گاڑی مالک سے یہ لوگ مخاطب ہیں ،مگر جب ان میں سے ایک ورکر نے اس کے کاندھوں پہ ہاتھ رکھکر اسے اپنی جانب گھمایا تب جاکر احساس ہوا افوہ میں ہی اس کا مخاطب ہوں ۔رامو: ج۔۔۔جی ! میرے پاس کوئی گاڑی واڑی نہیں ہے۔ورکر: ارے بھیاّ ہم تمری جیون کی گاڑی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ۔کہو! کتنا کمالیتے ہو ؟یہ سن کر اس کی بیوی چمیلی جو اب تک اوٹ میں چھپ کر یہ سب کچھ سن رہی تھی ،سامنے آگئی یہ سوچ کر ،لگتا ہے کہ رامو کو لینے کوئی دوسرا مالک آیا ہے اب ہمیں اچھی تنخواہ مل پائیگی اور ہم بھی اپنے دکھ دور کرسکیں گے ،راجو کو اچھے اسکول میں بھیج کر اپنے ارماں پورے کر سکونگی ،گویا ایک لمحے میں اس کے دماغ نے نہ جانے کتنے خاکے بنا ڈالے جس میں وہ ابھی کا ابھی رنگ بھرنا چاہتی تھی ۔مگر نیتا کی نگا ہ اس پر پڑی اور اس طرح پڑی کہ اسے’ نگاہ‘ کہنا ایک مہذب سماج میں شاید اس لفظ کی توہین ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ اس کی آنکھوں میں جہاں ایک طرف ابلیسی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی وہیں اس کے ہو نٹوں پہ شیطنت کھیل رہی تھی ۔ظاہر ہے کہ اس حرکت کو رامو برداشت نہیں کر سکتاتھا ۔اس نے فوراً چمیلی کو اوٹ میں جانے کو کہا اور ان سے یوں گویا ہو ا:’’ صاحب ہم تو اتنا کما ہی لیتے ہیں کہ نہ کہیں آنکھ بہکتی ہے اور نہ پیٹ کے لئے کسی کے پاس بھیک مانگنے کے لئے ہاتھ جوڑے پہونچ جاتے ہیں‘‘ورکر : اوچلو ٹھیک ہے ویسے اگر تم ہمارے گینگ میں شامل ہوجا و تو ’چپراسی گیری‘ کے بجائے’ با بو گیر ی ‘کے لائق ہو جاوگے ! بو لو تیار ہو ! ‘‘رامو اس غیر متوقع آفر کو سن کر پریشان سا ہو اٹھا ۔مگر وہ جواب دینے کے بجائے صرف اتنا کہہ سکا:’’ صاحب ! ہم آپ کو بعد میں بتا ئینگے‘‘ !
سبھی ورکرس اپنے نیتاسمیت جا چکے تھے ، شام کا وقت ہو چکا تھا سبھی پرندے اوپر آسمان میں صف در صف اجتماعیت کا مظہر بن کر اپنے اپنے گھونسلوں میں جانے کو پر تول رہے تھے ۔رامو کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔اسی دوراں شہر میں رہنے والا شمبھو جو اسکا ہم گاوں تھا اس کا کال آگیا ۔اور اس سے باتیں ہونے لگی۔با توں باتوں میں اس نے آج کے واقعہ کا ذکر کیا اور اپنی کم یافت کا بھی اس طرح رونا رویا مانو وہ آج اور ابھی اس گینگ میں شامل ہو نے جارہا ہو ،شمبھو نے تو پہلے اسے ادھر ادھر کی باتوں سے سمجھایا ۔جو مل رہا ہے اسی پہ قناعت یا پھر اپنی سطح سے اس سے بہتر کی تلاش میں ہی اس کی عافیت کو اس نے بتا نا ضروری سمجھا اور گینگ وغیرہ جوائن کر نے کو انتہائی خطرناک بتلایا ۔ مگر جب رامو کو مصرّ پایا تو اس نے ایک عجیب وغریب واقعہ کا انکشاف کیا جس کو سن کر رامو یکدم سناّٹے میں آگیا ۔
شمبھو نے اپنے اوپر بیتے واقعات کی پرتیں جب تہ بتہ کھولنا شروع کئے تو رامو کے پاوں کی نیچے سے زمیں کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔وہ کہہ رہا تھا :’’رامو! تو مجھ سے بارہا یہ پوچھتا تھا نا کہ ’شمبھو تودوسال قبل چھ ماہ کے لئے کہاں غائب ہوگیا تھا ‘ اور میں ہمیشہ کسی کام کا نام دیکر اسے ٹال جا تا تھا ۔اور اپنے ٹوٹے ہوئے ہاتھ پاوں کو ایک ایکسیڈنٹ کا نتیجہ بتا تا تھا ۔تو سن میں اسے شہر میں تھا مگر’ ہو‘ کے بھی’ نہ ‘تھا۔رامو:مطلب؟ شمبھو : مطلب صاف ہے ،میں اسی شہر کے مشہور بد نام زمانہ جیل میں اپنی ہڈی پسلیاں توڑوا رہا تھا ۔اب تم مجھ سے میرا جرم پوچھوگے نا ؟ تو سن مرے بھائی ! میرے پاس بھی ایسے ہی لوگ آئے تھے اور مجھے بیکار دیکھ کر کام کا وعدہ کرکے اپنے ساتھ لے گئے ،وہ زمانہ الیکشن کا چل رہا تھا ۔ مجھے اب تک یاد ہے، اس رات آندھی بھی آئی تھی ،مجھے ایک مسلم اکثریتی محلہ میں ایک چھوٹے سے مندر میں ایک بندھا بندھا یا تھیلا رات کے اندھیرے میں پہونچانے کے لئے کہا گیا تھا ،جب میں نے اس کی حقیقت جاننا چاہا تو ان ۔۔۔شمبھو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بری سی گالی بک گیا تھا ۔نے مجھے یہ کہا کہ پنڈت جی نے منگوایا ہے صبح ہی صبح انہیں اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔تم ابھی کا ابھی اسے وہاں پہو نچا آو! اور میں ایک جذباتی انسان مذہبی کام سمجھ کے فوراً چل پڑا ۔اور اسے وہاں رکھ آیا ۔صبح ہوتے ہی رامو: مت پوچھ مجھ غریب پہ کیا ٹوٹی؟میں پولیس کے ہاتھوں دھر لیا گیا تھا ۔اور مخبری کرنے والے نے بھی خود کو بچانے کے لئے ،تم جان سکتے ہو !میرا پتہ کتنی آسانی سے انہیں بتادیا ہوگا ۔ اب تو مجھ پہ سارے الزامات ثابت ہوچکے تھے ۔جرم بھیانک تھا اس لئے سزائیں بھی اسی لحاظ سے طے پائیں اور اصل مجرم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ان لوگو ں نے مجھ پہ تھرڈ ڈگری کا بھی استعمال کیا مگر پولیس والوں کی تھرڈ ڈگری پہ ان ورکروں کی دھمکی غالب آکر رہی ۔اور میں اپنا دونوں ہاتھ اور پیر گنوا بیٹھا ۔اور جب باہر نکلا تو ان ہوں نے مجھے پہچاننے سے بھی انکار کردیا ۔اور مجھے بھی چپ رہنے میں ہی عافیت نظرآئی ۔رامو کچھ پوچھنا چاہ رہا تھا مگر اس نے خود ہی یہ کہکر اسے اور چونکا دیا ۔ہاں میری بیوی کی بھی ان ہی لوگو ں کے ہاتھوں ہتّیا کر کے نام ونشان تک مٹا ڈالا؛ تاکہ وہ پولیس کو صحیح بیان نہ دے سکے،رامو نے مزید کچھ جاننا چاہا تو شمبھو نے خود ہی اسے یہ کہکر مزید ہکا بکا کردیا کہ میرے بھائی’’ وہ صرف اور صرف قتل تھا حادثہ خود کشی قطعانہیں‘‘ اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا ’’درندوں نے پہلے میری اس سیتا جیسی پڑھی لکھی پتنی کواپنی کوٹھی پہ ہم سے ملاقات کے بہانے بلوایا اور پھر اسکو زبردستی شراب پلائی اور پھر اس کے ساتھ سبھوں نے ’بلاتکار‘کرکے اس سے ایک کورے کاغذ پہ میری گرفتاری اور پھر رہائی جیسی کارروائی کے نام پہ دستخط لئے اور پھر اس کو جلا کر مارڈالا اور پھر بڑی چالاکی سے اسے خود کشی کانام دے دیا ،ثبوت میں اس کے دستخط شدہ پرچی کو دکھایا گیا ،میرے بھائی تو نہیں جانتا اس طرح کے قتل کو سوسائڈ کانام دینا تو آج کے ان امراوں کے بائیں ہاتھ کی چھنگلیاں کا کام ہے اس کے بعد شمبھو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔اورآخر میں اتنا ہی کہہ سکا رامو: یہ لوگ ہمیشہ ہم غریبوں کو اسی طرح کے ادھرمی کاموں میں لگا کر خودتو عیش کرتے ہیں اور زندگیاں ہماری تباہ ہوتی ہیں ۔یہ پاپی ادھرمی بچ جاتے ہیں اور بلی چڑھ جاتی ہے ہماری سیتا جیسی پتنی ! دیکھنا رامو ایک دن ان سب کو سروناش ہوکر رہیگا ! نہیں بچیں گے کوئی !اوپر والے کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں! شمبھو کافی جذباتی ہو اجارہا تھا ،آج پہلی بار اس نے اپنے زخم اپنے جیسے کے پاس رفو ہونے کے لئے کھولاتھا ۔
رامو کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے دور سے کیسے تسلی دے اسے کیا کہے کیا نہ کہے ؟ایک طرف وہ اپنی بیوی کامجرم نظر آرہاتھا تو دوسری طرف خود کو بھی کچھ ایسی ہی راہ پہ پا رہا تھا ۔مگر اس نے اسے جو تسلی دے سکتا تھا دیکر فوراً فون کٹ کیا اورچپ چاپ جاکر وہ سونے کی ایکٹنگ کرنے لگا؛ مگر اسے اتفاق سے نیند بھی آگئی اور جو خواب اس نے دیکھا اس کی تعبیر بڑی خطرناک نکل رہی تھی ۔اس لئے جاگنے کے بعد اس نے نہ سونے کو ہی ترجیح دی۔اور پوری رات یوں جاگ کر گذارا گویا وہ دانستہ چمیلی اور راجو کی پہرہ داری کر رہا ہو ۔جس وقت صبح ہوئی اس نے اٹھ کر فوراً اپنے بیوی بچے کو جگا کر یقین کرلیا کہ یہ جیسے سوئے تھے ویسے ہی ہیں ۔اور پھر جاکر وردی پہن کر اپنے میز بیٹھ گیا ۔
جوں ہی گھڑی نے دس بجائے وہ تمام ورکرس آتے دکھائی دیے ۔رامو کا ہاتھ غیر شعوری طور پہ داہنے طرف رکھے ہوئے ڈنڈے پہ چلا گیا ۔آتے ہی ان لوگو ں پہلے چمیلی کے روم کی طرف جھانکنا چاہا مگر رامو اس طرف سے آڑ بن کر کھڑا ہو گیا اور اکھڑے اکھڑے لہجے میں پوچھ بیٹھا، کہئے بھا ئیو! کیا پلان لائے ہو ؟سبھوں نے سوال کرتا دیکھ کر یکدم سے کہا : پلان کیا ہے ۔؟’’اپنے ماتر بھومی کی رکچھا کے لئے سینا بنانا ہے اس میں تم کو ایک گروپ کا ہیڈ بنا نا ہے ۔‘‘اچھا : رامو نے کھنکھارتے ہوئے پوچھا ’’تو اس میں ہم کو کرناکیا ہوگا ۔‘‘؟کہیں ۔۔۔ایک ورکر : واہ بھئی تم تو سمجھدار نکلے ! دوسرا ’’دیکھو دھرم کے نام پہ چلنا اسی کو کہتے ہیں ‘‘ چلو تو ہمارے ساتھ چلو ! اتنا سننا تھا کہ رامو کو کان میں شمبھو کی باتیں ہتھوڑے بن کر برسنے لگیں۔اس نے ان کے مکروہ چہرے پہ اپنی نظریں جمائے اپنی پوری قوت کو اکٹھاّکرتے ہوئے کہا:’’جی ہاں ایک لالچی انسان بن کے سوچتا ہوں تو بے اختیار آپ لوگوں کے ساتھ چلنے کو جی چاہتا ہے ،مگر ایک دھارمک اور سچاہندوستانی بن کے سوچتا ہوں تو میرے قدم نہیں اٹھتے اور یوں سمجھئے کہ میں پہلے ایک پکاّ دھارمک اور ہندوستا نی ہوں اس لئے آپ لوگو ں کے ساتھ نہیں جاسکتا ۔‘‘اتنا سننا تھا کہ سبھی اس پہ لعن طعن کر نے لگے کسی نے گالی دیتے ہوئے کہا ’’ فلسفی لگتا ہے ‘‘ تو کسی نے اس سے بھی بڑی گالی دیتے ہوئے اسے دیش دروہی تک کہ ڈالا ‘‘ مگر رامو ٹس سے مس نہ ہوا اور ان کی گالیوں پہ صرف اتنا ہی کہکر:’’دھرم کے نام پہ اس طرح کے شبد اور ہنسا اچت نہیں لگتا ، خاموش ہوگیا اور ان سب سے بے پرواہ اپنے سامنے پڑے کچڑے کے ڈبے کو بغور دیکھنا شروع کردیا اس غیر متوقع جواب سے ادھرسبھی رامو سے مایوس ہوکر کسی اور کی تلاش میں آگے بڑھ گئے ۔(
جواب دیں