انھیں اوپر والے کی دَیا سے شعلہ بیانیوں کا یہ انعام ملا کہ اقلیتی امور کے وزیر مملکت بن گئے یعنی بھارتیہ مسلمانوں کی ترقی، تنزلی، موت زندگی سب ان کے حوالے۔ یہ کوئی معمولی ترقی نہیں ہے کہ یوپی کے ایک غریب سیّد کا بیٹا آج نیشنل لیڈر ہے، ان کا ایک ایک لفظ ملکی غیرملکی میڈیا کی سرخی بن جاتا ہے۔ نقوی صاحب قابلِ تعریف ہیں کہ اس مہان پارٹی میں اپنا بلند مقام بنائے ہوئے ہیں جس نے کسی ایسے مسلمان نیتا کو ٹکٹ نہیں دیا، جس کے جیت جانے کا خدشہ ہو۔ پارٹی چاہتی تھی کہ بھارت سرکار میں مسلمانوں کی نمائندگی ہوہی نہیں، ایسی سرکار میں منتری بن جانا خالہ جی کا گھر نہیں۔ وہ آج کل اقلیتی امور کے راجیہ منتری ہیں، کاغذوں میں ہی سہی بیچاری مسلم اقلیت کی حالت سدھارنے کی ذمہ داری انھیں پر ہے۔ کہنے کو بڑی وزیر نجمہ صاحبہ ہیں مگر یہ تو سب جانتے ہیں کہ ساری زندگی محترمہ کانگریس کی شوپیس لیڈر رہیں، وہاں حالات بدلتے دیکھ کر بھاجپا میں کھسک گئیں کہ وہ اقتدار کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی تھیں۔ شاید ان کی آرزو ہے کہ جب بھی ان کا انتقال ہو، انتم سنسکار راجکیہ سمّان کے ساتھ دھوم دھام سے ہو، مودی صاحب کی سرکار کا بڑاپن ہی کہا جائے گا جو ایک بزرگ مہیلا کی آرزو کا احترام ہی کررہی ہے، وزارت کا کام دھام تو رسمی خانہ پری ہے، محترمہ نے جب جوانی میں ملک و قوم کے لیے کچھ بھی نہ کیا، تواس بڑھاپے میں کیا کریں گی، سو اس وزارت کے کرتا دھرتا اب نقوی صاحب ہی ہیں۔ دَم دار آواز، زوردار لہجہ، ہر بات صحیح یا غلط مگر دلیل کے ساتھ ، ہر سانس میں مودی جی، سنگھ اور ہندوتو کا وظیفہ، جب بھی کچھ فرماتے ہیں تو گویا گلہائے آتشیں کی برسات ہوتی ہے۔ حال ہی میں فرمایا ’’جنھیں بڑا گوشت کھانا ہے پاکستان چلے جائیں۔‘‘ ان کے اس فاضلانہ ارشاد پر آر ایس ایس مکھالیہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی، ممکن ہے کہ ان کے کچھ نمبر اور بڑھ گئے ہوں، یہ اور بات ہے کہ ملک کے باشعور حلقوں میں نقوی صاحب مذاق کا موضوع بن گئے ہیں۔ دراصل موصوف بھول گئے کہ آج کے ترقی یافتہ بھارت میں بلاتفریق ہزاروں لوگ بیف کھاتے ہیں، نقوی صاحب کتنے ہزار، کتنے لاکھ، کتنے کروڑ بھارت واسیوں کو پاکستان بھیجیں گے؟ بھارت کے کتنے بڑے ہندو اُدیوگ پتی گوشت کا بین الاقوامی کاروبار کرکے کروڑوں اربوں کمارہے ہیں، ان کا کیا ہوگا؟ دیش کو حاصل ہونے والے بھاری زرِمبادلہ کا کیا ہوگا۔ نقوی صاحب نے شاید بھکتی بھاؤنا کے جوش میں یہ سوچا ہی نہیں۔
جہاں تک گؤماتا سے نقوی صاحب کی عقیدت کا سوال ہے، اس معاملے میں ہم بھی ان کے ساتھ ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے تو اپنے دورِ اقتدار میں گائے ذبح کرنے والوں کے لیے سزائے موت تک کا قانون بنایا تھا۔ اس ملک کا ہر بیدار مغز اس سوال پر ہم خیال ہے کہ ملک کے اکثریتی طبقہ کے مذہبی جذبات کے احترام میں گائے اور اس کے بچوں یعنی بیلوں اور بچھڑوں تک کو مارنے پر سخت سزا دی جائے۔ گؤ کشی مخالف قانون کا احترام بھی کیا جارہا ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف قانون مستعد ہے۔ ایسے میں نقوی صاحب جیسے ملک کے مہان نیتا کو ایسی باتیں کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ظاہر ہے کہ ان کا مقصد صرف ایک ہے کہ ایک طبقے کی دلآزاری کرکے اکثریتی سیاست کی جڑ مضبوط رکھی جائے۔ جہاں تک بڑے گوشت کی تجارت اور استعمال کا سوال ہے جنوبی ریاستوں کیرالہ، کرناٹک، تمل ناڈو کیا مہاراشٹر اور آندھرا پردیش تک میں دھڑلّے سے جاری ہے۔ خود گوا کی بھاجپا سرکار نے تو اپنے یہاں کسی طرح کی پابندی لگانے سے انکار کردیا ہے۔ ایسے میں گوشت کھانے والوں کو پاکستان بھیجنے کی بات جب نقوی صاحب جیسے لیڈر کہتے ہیں تو خواہ مخواہ شورشرابہ کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ یہ بات صاف ہے کہ ایسی باتیں کسی اور وجہ سے کی جاتی ہیں، گوشت کھانے والوں کو پاکستان بھیجنا تو محض ایک جملہ ہے، جو لوگ جملہ بازی کی قوت سے واقف ہیں، انھیں معلوم ہے کہ جملوں کا حملہ تو بڑی بڑی حکومتوں کو اُکھاڑ کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک سکتا ہے۔ خود نقوی صاحب بھی اپنے جملوں کی بدولت ہی تو ترقی کے آکاش پر براجمان ہیں۔ خیر اس بحث کو یہیں چھوڑ کر بڑے ادب کے ساتھ محترم نقوی صاحب سے ایک نجی سا سوال پوچھنے کو جی چاہ رہا ہے کہ انھوں نے کبھی اپنے شہر کی مشہور نہاری اور سیخ کباب کابھی شوق فرمایا تھا یا پھر آپ سچ مچ شدھ ساتوِک شاکاہاری مہاپرش ہیں؟(یو این این)
جواب دیں