حفیظ نعمانی
ہندوستان کے وزیر داخلہ اب امت شاہ ہیں ان کا ایک چہرہ وہ ہے جو بنگال جاتے ہیں تو نظر آتا ہے وہاں ان کے سامنے ملک نہیں ہوتا صرف وزیراعلیٰ ممتا بنرجی ہوتی ہیں وہ دستور سے مجبور ہیں ورنہ وہ وزیرداخلہ بنتے ہی ممتا بنرجی کو جیل بھیج دیتے اور بنگال کا انتظام کسی ایسے گورنر کے سپرد کرتے جیسا گورنر کرناٹک کا ہے کہ اس سے اُلٹا کہو تو وہ اُلٹا کھڑا ہوجاتا ہے اور سیدھا کہو تو سیدھا۔ امت شاہ بنگال میں آنے والے انتخابات میں ہر قیمت پر بی جے پی کی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر وہ انسان جو اپنے کو ہندو کہتا ہے وہ بی جے پی میں آجائے اور بی جے پی کو ووٹ دے دے۔
امت شاہ نے نیتا جی انڈور اسٹیڈیم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنگال میں آسام کی طرح این آر سی کا نفاذ کیا جائے گا جس میں ہندو سکھ عیسائی بودھ اور جین کو اگر ان کے پاس ہندوستانی ہونے کا ثبوت نہیں ہوگا تب بھی ملک سے نکالا نہیں جائے گا اور شہریت دے دی جائے گی لیکن گھس پیٹھئے (مسلمان) کو ملک میں نہیں رہنے دیا جائے گا ہم نہیں جانتے تھے کہ امت شاہ جن کو مودی جی نے وزیرداخلہ بنایا ہے اتنے بزدل ہیں کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمان کو نہیں رہنے دیں گے اور کہیں سے آیا تو آنے نہیں دیں گے۔ یعنی وہی بات جو آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے کہی ہے کہ بھارت ہندو راشٹر ہے۔ امت شاہ بھی وزیراعظم کی طرح مجبور ہیں کہ گاندھی کو اپنا مانیں مجبوری یہ ہے کہ مودی جی دنیا میں جہاں جاتے ہیں وہاں ان کو بتایا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی گاندھی جی کی مورتی موجود ہے اگر پنڈت نہرو چاہتے تو زیادہ تر ملکوں میں ان کی بھی مورتی لگ سکتی تھی اور پھر وہ ملک کے ہر لیڈر کے بڑے بھائی کہے جاتے ان ہی گاندھی جی کی 150 ویں جینتی ایسے منائی گئی کہ جیسے مودی سرکار کے بنانے والے وہی تھے یا مودی سرکار ان کے راستہ پر ہی چل رہی ہے۔ جبکہ ہو یہ رہا ہے کہ جن مسلمانوں کو پاکستان جانے سے روکنے کے لئے اور ہندوستان میں ان پر زمین تنگ کرنے کے خلاف باپو نے مرن برت رکھا تھا آج ان مسلمانوں کے خلاف کھل کر زہر پاشی کرنے والے کو وزیرداخلہ بنایا جارہا ہے۔
1947 ء جو ملک کی تقسیم کا سال ہے اس میں گاندھی جی نے کانگریسیوں سے کہا کہ سب جاؤ اور فساد کو روکو۔ کانگریسیوں نے جو کچھ بھی کیا ہو باپو سے آکر کہا کہ ہم نے ہر طرف فساد کو روکا ہے۔ باپو نے کانگریسیوں سے پوچھا کہ اپنا دُکھڑا تو تم سنا چکے اب یہ بتاؤ کتنے آدمی مرے انہوں نے اندازہ بتایا تو پھر معلوم کیا کہ مرنے والوں میں کانگریسی کتنے تھے؟ اس سوال پر سب سٹپٹائے اور کہا کہ ہمارے علم میں تو ایک بھی نہیں مرا باپو نے کہا کہ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ ہم نے فساد روکنے کی بہت کوشش کی اس کے باوجود تم میں کوئی نہیں مرا۔
باپو کے اوپر جان و دل سے فدا ہونے والی بیگم انیس قدوائی کا کہنا ہے کہ باپو کے پاس حاضر ہونے والوں میں سے کسی نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کی لکھنؤ میں کی گئی ایک تقریر کا باپو سے ذکر کیا اور کہا کہ مسلمانوں کو اس سے بہت تکلیف ہوئی ہے۔ اور معلوم کرنے پر بتایا کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔ انہوں نے تقریر میں کہا تھا کہ جو مسلمان یہاں پڑے ہیں ان کو پڑا رہنے دو مارتے کیوں ہو؟ زمین خود ہی اتنی گرم ہوجائے گی وہ چلے جائیں گے۔
وہی باپو مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں کو روکنے کے لئے مرن برت رکھنے جارہے تھے انیسہ آپا کہتی ہیں کہ باپو نے دوپہر کا کھانا ہلکا پھلکا کھایا ہم سب باہر کھڑے تھے۔ ایک صاحب نے آکر کہا کہ باپو سے آپ کو کچھ کہنا ہے تو آجایئے اب وہ آرام کرنے جارہے ہیں۔ آپا کہتی ہیں کہ ہمیں اس کے سوا کیا کہنا تھا کہ ہم پر رحم کیجئے دَیا کیجئے میں نے کچھ قریب جاکر کہا کہ باپو ہم سب چاہتے ہیں کہ سب پر رحم کیجئے اور صرف ہمیں پندرہ دن اور دے دیجئے اگر اس مہلت میں بھی حالات آپ کے نزدیک ٹھیک نہ ہوں تو برت رکھ لیجئے گا۔ حال بہت کچھ ٹھیک ہو چلا ہے شہر میں بھی امن ہے۔ باپو ہنس کر بولے کیا ٹھیک ہے کیا سب مسجدیں خالی ہوگئیں کیا مسلمان پھر باہر پھرنے لگے دیکھو گجرات سے ایسی خبر آئی ہے اگر دہلی کو پھر کچھ ہوگیا تو؟ اور کہا کہ قطب صاحب کا مزار دیکھا ہے۔ میں نے کہا نہیں دیکھا مگر سنا ہے۔ کہنے لگے اچھا تو پھر جاکر دیکھو اس کو توڑا گیا ہے اب اگر اجمیر میں خواجہ صاحب کی درگاہ کو بھی کچھ کیا گیا تو میں جی کر کیا کروں گا لوگ تو بس ان دنوں پاگل ہورہے ہیں۔ اور پھر انہوں نے برت شروع کردیا۔
جن لوگوں نے 02 اکتوبر کو موہن داس کرم چند گاندھی یعنی باپو اور دیش پتا مہاتما کی جینتی منائی وہ صرف مورتی چرخہ چشمہ اور صرف عدم تشدد کے علمبردار نہیں تھے بلکہ انہوں نے ہی مولانا آزاد سے کہا تھا کہ ایک آل انڈیا مسلم کانفرنس بلاؤ اور اس میں مسلمانوں سے کہو کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا تمہارا ملک ہندوستان ہے تم کہیں نہیں جاؤگے اور جن لوگوں نے پاکستان بنایا ہے وہ چلے گئے۔ لکھنؤ میں 1948 ء میں لکھنؤ میں مسلم کانفرنس مولانا نے باپو کے کہنے ہی سے بلائی تھی اور جامع مسجد دہلی کی تاریخی تقریر بھی گاندھی جی کی فرمائش پر ہوئی تھی وہ ہر حال میں مسلمانوں کو روکنا چاہتے تھے۔ بعض بہت اہم لوگوں کا خیال ہے کہ گاندھی جی یہ سوچ رہے تھے کہ جوش ٹھنڈا ہوجائے تو درمیان کی پابندی ختم کرکے دونوں ملکوں کو ایک کردیا جائے گا۔ افسوس ہے کہ ایک تنظیم نے سب کچھ برباد کردیا باپو کے بعد جناح صاحب نے بھی اپنی آخری بیماری میں کہا تھا کہ میں اچھا ہوجاؤں تو پنڈت نہرو کے پاس جاؤں گا اور پنڈت نہرو نے بھی اپنی آخری بیماری میں شیخ عبداللہ کو خفیہ پیغام لے کر کراچی بھیجا تھا یہ سب یہی چاہتے تھے کہ پھر ایک ہوجائیں۔ لیکن اللہ کو منظور نہیں تھا۔
اس زمانہ کی کوئی تاریخ دیکھ لی جائے ہر ایک میں یہ ملے گا کہ باپو سردار پٹیل سے خوش نہیں تھے۔ افسوس اس کا ہے کہ آج جو حکومت باپو کی 150 ویں جینتی ایسے منا رہی ہے جیسے وہی اس پارٹی اور حکومت کے بانی ہیں لیکن باپو نے جو کیا اس کا اُلٹا کررہے ہیں باپو مسلمانوں کو ہر طرح خوش رکھنا چاہتے تھے مودی سرکار کا بس چلے تو وہ ایک ایک مسلمان کو گھُس پَیٹھیا قرار دے کر سرحد پر لاکر چھوڑ دے اب یہ ان کم عقل مسلم خواتین اور ان مسلمانوں کے سوچنے کی بات ہے جو بڑے منصوبے بناکر حکمراں پارٹی میں جارہے ہیں کہ اگر امت شاہ اپنا منصوبہ چلانے میں کامیاب ہوگئے تو کروڑوں باہر کے ہندوؤں کو ہندوستان بلائیں گے اور ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ وہ کریں گے جو برما نے کیا وہ وزیر داخلہ نہیں اپنے کو ملک کا مالک سمجھ رہے ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
05اکتوبر2019(فکروخبر)
جواب دیں