بسم الله الرحمن الرحيم تحریر ۔ سید ہاشم نظام ندوی کچھ دنوں سے جناب سعید حسین دامودی مرحوم کی طبیعت ذرا ناساز چل رہی تھی، ۱۹ جمادی الاولی ۱۴۴۲ ہجری، مطابق ۳ جنوری ۲۰۲۱ عیسوی کا دن تھا کہ آپ کی طبیعت اور زیادہ ناساز ہونے لگی۔ ان کے فرزندِ ارجمند جناب عبد […]
کچھ دنوں سے جناب سعید حسین دامودی مرحوم کی طبیعت ذرا ناساز چل رہی تھی، ۱۹ جمادی الاولی ۱۴۴۲ ہجری، مطابق ۳ جنوری ۲۰۲۱ عیسوی کا دن تھا کہ آپ کی طبیعت اور زیادہ ناساز ہونے لگی۔ ان کے فرزندِ ارجمند جناب عبد الخالق صاحب اپنے بہنوئی ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب قاضیا کےشفا خانے لے آئے، سواری شفا خانے کے دروازے تک پہنچی، لیکن وہ اندرنہیں پہنچ سکے، پھر ان کے فرزند نے اندر آکر اپنے والد کی طبیعت کی ناسازی بیان کی، پہلے ڈاکٹر اسماعیل صاحب نے اپنے فرزند ڈاکٹر داود کو بھیجا ، مگر جب انھوں نے دیکھا تو اپنے نانا کی طبیعت کو تشویش ناک پایا، فورا واپس لوٹے اور بتایا کہ حالت قابلِ تشویش ہے، تب ڈاکٹر صاحب خود ہی چلے آئےاور انھیں اپنے خیر مقدم کو دیکھتے ہی حد درجہ ناسازی کا پتہ چلا، بلکہ کسی حد تک مایوسی ہوئی ، فورا وہ انھیں ہسپتال لے گئے، راستے میں طبیعت مزید نا ساز ہونے لگی، گویا وقتِ موعود بھی آگیا اور ہسپتال پہنچنے تک آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔إنا لله وإنا إليه راجعون۔
ذاتی تعلقات وروابط :۔
مرحوم کے ساتھ ہماری بہت سی یادیں وابستہ ہیں جو ایک مختصر مضمون سے بڑھ کر ایک مقالے کی متقاضی ہیں۔ مگر اس تحریر میں بہت اختصار کے ساتھ مرحوم کی شخصیت پر روشنی ڈالیں گے۔ہمارے مراسم وروابط مرحوم کے ساتھ بہت دیرینہ اور قدیم تھے، ان کے ساتھ ہمارییادیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔
ہمارے نانیہالی رشتے سے آپ بہت قریب تھے،شہربھٹکل میں دامدا، دامودی، دامدا ابو اور دامدا فقیہ یہ سب خاندان باہم ایک دوسرے سے بہت مربوط ہیں، ہماری باہمی رشتے داریاں بھی کئی کئی طریقوں سے ملتی ہیں۔ اسی لیے كسی نہ كسی حیثیت سے آنا جانا رہتا تھا، سب سے پہلے ہم نے آپ کو نانا جان مرحوم جناب عبد القادر باشاہ صاحب دامدا سے ملتے جلتے دیکھاتھا ،اسی طرح بقر عیداور شادی یا بعض مناسبتوں سے ہمارا بچپن ہی سے آپ کے گھر "گل کدہ "اور "ابو محل" بھی آنا جانا رہا ہے،جامعہ اسلامیہ میں دورانِ تعلیم بھی گھر پر ملاقاتیں رہیں، آپ نے سالوں قبل مولانا دریابادی کی کئی کتابیں دی تھیں، جنھیں نہ صرف میں گھر لے آیا، یا اسے الماری کی زینت بنا کر رکھا، بلکہ اپنے ذوق سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے سبھی کتابیں زیرِ مطالعہ رہیں ۔
ولادت اور تعلیم وتربیت:۔
آپ نےخوش حال گھرانے میں آنکھ کھولی،سنہ ۱۹۳۲ عیسوی میں خلیفہ محلےکے اپنےآبائی مکان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدِ ماجد جناب حسین دامودی نے اس نومولود کا نام "سعید حسین" تجویز کیا، نام میں ہی سعادت مندی اور مقدر کاحسنِ خوبی شامل رہی۔ مقامی روایت کے مطابق قرآنی تعلیمات کے ساتھ ساتھ بنیادی دینی تعلیم حاصل کی، یہیں آپ نے ابتدائی درجات کی تعلیم پائی۔ ابتدائی تعلیم سے فراغت پا کر سن 1943 عیسوی میں وہ بمبئچلے گئے، اسی سال "انجمنِ اسلام" میں داخلہ لیا اور آخر تک یہیں تعلیم حاصل کی۔
چوں کہ "کری منجیشور" میں والدِ ماجد کی تجارت تھی، پھربمبئ میں تجارت شروع ہوئی، جس سےتجارتی ہنر بھی وراثت میں نصیب ہوئےاور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے رکھتے نیک فال لیا ہوا یہ نام ان کے کامیاب اور روشن مستقبل کا عنوان بن گیا۔مقدر سنورتا گیا اور کچھ ہی مدت میں ایک کامیاب تاجر بن کر سامنے آئے اورمعاشرے کے لیےبھی ایک مخلص اور مفید شخص ثابت ہوئے ۔
ذاتی صفات وخصوصیات :۔
آپ کی شخصیت کا نمایاں وصف حسنِ حرکت وعمل اور جہد مسلسل تھا، وہ عمل کے پیکر تھے۔چلتے پھرتے صحت مند وتندرست تھے ، خوش سیرت و خوش صورت تھے، شکل وشباہت میں مذہبیت تھی، مزاج میں مودت والفت تھی، ملاقات پر اظہارِ خوشی و محبت کرتےاورچہرے پر خاص مسکراہٹ ہوتی تھی۔
بہت معتدل مزاج انسان تھے، ذہن میں سلجھاؤ اورطبعاً بہت نیک اور شریف تھے، علم پرور اور علم دوست تھے، وضع قطع تصنع و بناوٹسے دور تھی، راستہ چلتے اور خاص مناسبتوں میں شرکت کرتے وقت سر پر ایک خاص قسم کی مخملی ٹوپی آپ کی پہچان بن چکی تھی۔ دیکھنے سے پتہ چلتا کہ اخلاق و مروت کی چلتی پھرتی تصویر ہیں۔ گفتگو مربوط ہوتی تھی، بولتے تو اپنا مافی الضمیر مکمل ادا کرتے، ایک ایک بات واضح کرکے بتاتے۔ گویا ان کی بات کا ایک ایک لفظ احتیاط کی ترازو میں تولا گیا ہو، پوری کوشش کرتے کہ آپ کی زبان وبیان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، کسی کی دل شکنی نہ ہونے پائے۔ کسی کے خلاف تبصرے سے زبان محفوظ رکھتے، غیبت جیسی مہلک بیماری سے اپنے کو دور رکھنے کی کوشش کرتے، بلکہ قریبی احباب اور دوستوں کا کہنا ہے کہ ہم نے انھیں کبھی غیبت کرتے نہیں دیکھا، بلکہ غیبت کی مجلسوں سے بھی اپنے کو دور رکھنے کی کوشش کرتے۔ اچھی ذہنیت کے حامل شخصتھے ۔ ان کی فطرت میں رواداری پائی جاتی تھی، وہ ہمیشہ مل جل کر رہنے اور اتحاد کا درس دیتے تھے۔ یقینا وہ ایک اصول پرست انسان تھے،جن کے ظاہر اور باطن میں یکسانیت تھی۔ اُن میں مسائل کے فہم اور اُن کے حل کی صلاحیت موجود تھی، شخصیت میں عفو ودرگزر کے ساتھ ہی کسی بھی طرح کے دباؤ کے سامنے سینہ سپر ہوجا نے کا بھی مزاج تھا۔قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے پیش پیش رہے۔
آپ کی ذاتی اورنجی زندگی بھی تقوی وطہارت اورخدا کی اطاعت وعبادت سے مزین تھی، فرائض کی پابندی کے ساتھ ساتھ نوافل وسنن کا بھی اہتمام فرماتے، تہجد کی نمازکو گھر والوں نے ایک عرصے سے چھوڑتے نہیں دیکھا، اوابین کی بھی پابندی فرماتے اورفرض نمازیں مسجدہی میں ادا کرنے کا اہتمام کرتے۔محتاجوں کی خبر گیری اوربے کسوں کی امدادکرتے، آپ میں انکساری وفروتنی تھی، چھوٹوں کے ساتھ شفقت فرماتے، بڑوں کو عزت دیتے، اہلِ علم کی قدر دانی کرتے اور علمائے کرام کا احترام کرتے۔بڑوں سے بات کرتے وقت بھی فرقِ مراتب کا خیال کرتے۔
علم دوستی اور کتب بینی :۔
آپ ایک پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ شخص تھے، تعلیمی زندگی میں اچھے نمبرات سے کامیابی حاصل کرتے رہے اور ممبئ میں قیام کی وجہ سے اہلِ علم ودانش سے روابط اور علم وادب کی محفلوں میں شرکت کی وجہ سے علم وکتاب سے دوستی زندگی کا حصہ بن چکا تھا، جہاں آپ میں مطالعہ کا ذوق پروان چڑھنے لگا، اسی لیے تجارتی مصروفیتوں کے باوجود علمی مشغلوں سے وابستگی رہی۔ شعر وادب سے دل چسپی، اسلامیات کے مطالعہ کا شغف اور قرآن فہمی سے لگاؤ آپ کی زندگی کا بڑا قابلِ قدر وصف اور زندگی کا اہم مشغلہ تھا۔کتب بینی اور مطالعہ کے ہمیشہ شوقین رہے، شعر وادب کے شائق رہے،جس کی سب سے بڑی گواہی ان کے گھر میں موجود کتابوں کا ڈھیر اور آفس کی میز ہے۔ جو ہر وقت کتابوں، جریدوں اور پرچوں سے مزین رہتی تھی۔
متحدہ عرب امارات اور بی ایم جے ڈی :۔
قدرت نے آپ کو کئی خوبیوں سے نوازا تھا ،ذہانت وناموری شروع ہی سے حصے میں آئی تھی، بے حد محنتی تھے۔جس پر شہادت اور گواہی کے لیے یہ کافی ہے کہ شہرِ بھٹکل کے سب سے پہلے خوش نصیب ہیں جنھوں نے اپنے روشن مستقبل کے حصول کی خاطر خلیجِ عربی کا قصد کیا اور سمندری راستے سے سنہ 1958 عیسوی میں متحدہ عرب امارات پہنچے۔
ان کی ولولہ انگیز شخصیت بہتوں کے لیے باعثِ کشش بن گئی، ممبئ کے قیام کے دوران ہی سے اکابر علماء کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو ا۔ دبئ آنے کے بعد اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ حتی کہ جو بھی خاص مہمان آتا وہ "النوائط "جا کر ان سے ملاقات کی خواہش رکھتااور یہاں قیام کے دوران آپ کی زیارت ضرور کرتا۔ اسی وجہ سےیہاں آنے کے بعد آپ نے بھٹکل وقومِ نوائط کو متعارف کرانے کی بھی کوششیں کیں، یہاں رہ کر قومی فلاح وبہبود کے کاموں میں حصہ لیا،بہت سےاچھے کاموں کے لیے پہل کی۔ آپ نے اپنے شرکائے تجارت کے ساتھ مل کر اپنی تجارتی پہچان ہی "النوائط" رکھی۔
بی ایم جے ڈی کی تشکیل میں رکنِ اساسی بننے کا شرف پایا، اس کی سب سے پہلی نشست بھی آپ کے گھر پرہی رکھی گئی تھی ۔ جماعت کی تشکیل کے بعد اس کے پہلے صدر بننے کا اعزاز پایا۔ جب تک انتظامیہ کے رکن رہے، جماعتی نظم وضبط سے وابستہ رہے، اس کی مشاورتی نشستوں میں پابندی سے شرکت کرتے رہے، جماعت کے استحکام میں دامے درمے سخنے قدمے امداد وتعاون کرتے رہے۔پھر اراکینِ انتظامیہ نے آپ کی کبرِ سنی اور ماضی کے حسنِ کارکردگی کی بدولت سرپرستِ جماعت کی فہرست میں شامل کیا اور ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے بی ایم جے ڈی انتظامیہ نے آپ کو سن ۲۰۱۸ کےشخصیت ایوارڈکے لیے نامزد کیا، جسے قومی ملن کے عالیشان پروگرام میں نواز کر آپ کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔
اولاد کی تعلیم وتربیت :۔
چوں کہ آپ ایک تعلیم یافتہ شخص تھے،اس لیے اپنی اولاد کو علم کی دولت سے سرفراز کرانے میں ہر ممکن کوشش کی، بچوں کے ساتھ ساتھ بچیوں کی تعلیم وتربیت پر بھی خصوصی توجہ مبذول فرمائی، پوتوں پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں تک کی تعلیم میں اپنی سرپرستی شامل رکھی، انھیں علم واخلاق سے آراستہ کیا، اسلامی آداب سکھائے، برت کر بتلائے، عملی نمونہ دکھایا، کر کے دکھلایا، اسلامی اخلاق وآداب پر عمل کر کے اس گھر کے بڑے نے اپنے چھوٹوں کو عملی درس دیا۔اس لیے کہ تربیت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ ہم اگر اپنی اولاد کے اندر اچھی اور بھلی عادتیں پیدا کرنا چاہیں، یا ان میں خیر کے کاموں کی عادات پیدا کرنا چاہیں تو ان کے سامنے ان عادتوں اور کاموں کو انجام دیں، جن میں آپ کی زندگی ایک مثالی شمار کی جاتی ہے۔اسی لیے الحمد للہ آپ نے سعادت مند اولاد پائی، ماشاء اللہ اولاد تعداد میں پوری دس تھی، چھ بیٹیاں اور چار بیٹے۔ بڑے بیٹے جناب عبد القادر جیلانی صاحب ، اس کے بعد جناب عبد الماجد مرحوم، تیسرے جناب عبد الخالق صاحب اور چوتھے اورآخری جناب عبد الناصر صاحب ہیں ۔ دوسرے بیٹے جناب عبد الماجد کا انتقال آپ کی زندگی ہی میں ہوچکا تھا۔ چھ بیٹیاں ہیںاور ماشاء اللہ ہر ایک کا بیاہ معزز ومکرم اور تعلیم یافتہ شوہر سے ہوا،بیٹیوں کی ترتیب یوں ہے کہ سب سے بڑی محترمہ بی بی طاہرہ،پھر محترمہ بی بی سعدیہ ، اس کے بعد محترمہ بی بی ساجدہ ،پھر محترمہ بی بی فائزہ زوجہ جناب فضل الرحمن صاحب جوکاکو ، اس کے بعد محترمہ بی بی ناظمہ زوجہ ڈاکٹر اسماعیل صاحب قاضیا اور آخری بیٹی محترمہ بی بی سامیہ ہیں۔
مرحوم کو مولانا عبد الماجد دریابادی سے عشق کی حد تک تعلق رہنے کی وجہ سے اپنے دوسرے بیٹے کا نام انہی کے نام پر رکھ کر خود ہی عبد الماجد کے والد بن گئے۔ مگر قدرت کا کرنا بھی عجیب کہ آپ نے اپنی زندگی میں انہی کی موت کا غم سہا، سنہ 2018 میں شہرِ بینگلور میں ان کا اس وقت انتقال ہوا، جب وہ مسجد میں نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد ذکر وتلاوت سے فارغ ہو کر تبلیغی مسجد وار جماعت میں بیٹھ کر گھر لوٹ رہے تھے۔ یقینا یہ عبد الماجد بھی سعادت مند تھے جنھوں نے اپنی اولاد کو علمِ دین کے حصول کے لیے فارغ کیا، آپ کے بچوں میں حافظِ قرآن اور عالمِ دین ہوئے۔
کتابوں کی مفت نشر و اشاعت :۔
مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ کی نگارشوں اور تصنیفات کی نشر واشاعت میں آپ کا جو حصہ ہے وہ اہلِ علم ودانش پر مخفی نہیں ہے۔ شروع دور میں شہرِ کلکتہ سے اس کی اشاعت کا سلسلہ تو آخری دور میں شہرِ لکھنو سے اس کی ازسرِ اشاعت بتاتی ہے کہ آپ نے افکارِ ماجدی اور افاداتِ ماجدی کی نشر واشاعت میں اپنا سرمایہ لگایا، بلکہ بہت سی کتابیں چھپوا کر ان کے رشتے داروں اور اہلِ تعلق سے تا دمِ مرگ روابط استوار رکھے۔ الحمد للہ راقم الحروف کے اشاعتی دنیا سے تعلق رہنے اور اپنا مکتبہ رہنے کی وجہ سے بعض کتابیں ہمارے ذریعے ہی نشر کیں، اس کی مفت تقسیم کرنے کی طرف خصوصی توجہ مبذول فرمائی۔ بالخصوص تفسیر ماجدی، قرآن حکیم(انگریزی ترجمہ و تفسیر) ،سچی باتیں ،ذکرِ رسولﷺ –یا- مردوں کی مسیحائی، سفر حجاز،آپ بیتی(ماجد)، محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق،(جلد اول و دوم)، مناجات مقبول اور انشائے ماجد ی وغیرہ کی ازسرِ نو طباعت کی یا مطبوعہ نسخوں کو خرید کر مفت تقسیم فرمایا۔ اسی طرح کنڑی زبان میں قرآن کریم کے پہلے ترجمۂ قرآن کی اشاعت میں بھی آپ کا حصہ رہا ہے۔
ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا ہے کہ شادیوں کی مناسبت سے نورانی جہیز کی طباعت فرماکر مفت تقسیم کرتے، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ شادی کا اصل جہیز اسلامی اور نبوی تعلیمات ہیں، یہی دلہن کا نورانی تحفہ ہے، نیک بیوی دنیا کا بہترین سرمایہ ہے، اگر دلہن نورانی جہیز سے آراستہ ہوتی ہے تو اس کے کامیاب مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ اس کی گود میں پلنے والی اولاد اس زمیں پر روشن ستارے بن سکتے ہیں۔ یہی وہ نورانی جہیز ہے جس کی طباعت جناب الحاج محیی الدین منیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بڑی بیٹی کی شادی کے موقعہ پر چھپوا کر تقسیم فرمایا تھا۔
تقریبا ًتین ماہ قبل آپ کے پوتے مولوی ابی الوقاص بن عبد الماجد کی شادی کی محفل میں شركت كا موقع ملا تھا، جس میں راقم الحروف سے کچھ باتیں اس مناسبت سے پیش کرنے کی درخواست کی گئی، محفل میں خاندان کی اہم شخصیات بھی موجود تھیں، میں نے شادی سے متعلق گفتگو میں آپ کے سامنے ہی اس رسالے نورانی جہیز کے حوالے سے بھی بات کی، اس کی افادیت بتلائی، سعید صاحب کا چہرہ اس وقت دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، خوشی سے پھولے نہیں سمائے۔ اسی کے چند دنوں بعد دعوتِ ولیمہ میں ملاقات ہوئی، تو آپ نے میری انہی باتوں کو دہراتے ہوئے اس کتاب کی اہمیت بتائی۔
سچی بات :۔
بالخصوص آپ کے عاشق اور نادیدہ محبوب حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی کی "سچی باتوں " کا جہاں تک تعلق ہے، اس سے تو آپ کو ایک گونہ زیادہ دلچسپی تھی، جس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ آپ ممبئ میں قیام کے دوران "صدق" کے عام قارئین کی طرح اس کے انتظار میں اس لیے رہتے کہ اس پرچے کے کالم "سچی بات" کے مطالعہ سے صحیح حالات سے آگاہی ہوتی ہے، دریابادی کی زبان کی شیر ینی ملتی ، اردو ادب کی حلاوت کے ساتھ معلومات میں اضافہ ہوتا اور صحافتی آزادی میں بے لاگ تبصرے ہوتے تھے۔ لہذا آپ نے مولانا دریابادی کے اس کالم کو ازسرِ نو جمع کرانے اور نشر کرانے کی طرف توجہ مبذول فرمائی اور اپنا ممکنہ تعاون بھی پیش فرمایا، جس کا اندازہ مندرجہ ذیل دو مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
پہلی مثال "سچی باتوں" کے مطبوعہ نسخے کے مقدمہ میں "صدق فاؤنڈیشن لکھنو" کے جنرل سکریٹری مولانا نعیم الرحمن صدیقی ندوی کے قلم سے مرحوم سعید دامودی کا تذکرہ ہے: " سچی باتوں کی اس پہلی جلد کی اشاعت میں مولانا دریابادی کے نادیدہ معتقد خصوصی اور بھٹکل کی مشہور علم دوست شخصیت حاجی سعید حسن صاحب دامودی بھٹکلی کا پر خلوص تعاون اگر شامل نہ ہوتا تو اس کی اشاعت جلد نہ ہو پاتی" جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ کا مولانا دریابادی سے ملاقات نہ ہونے کے باوجود کس حد تک تعلق تھا اور آپ مولانا کی تحریروں اورنگارشوں کو کس قدر اہمیت دیتے تھے"۔
اسی تعلق کی دوسری مثال مولانا عبد المتین صاحب منیری کے قلم سے یوں سامنے آتی ہے کہ " ابھی آخر میں اس ناچیز کی درخواست پر سچ ، صدق ،صدق جدید کے آغاز ۱۹۲۵ سے نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر پھیلے،اس کےکالم سچی باتیں کو لائبریریوں سے کھنگال کر انھیں ٹائپ کروانے کے لیے ابتدائی تعاون پیش کیا، لیکن اس عظیم پروجکٹ کے پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ نے آنکھیں بند کرلیں"۔
"ڈی اے برادران" اور "دامودی برادران " :۔
اگر بستی روڈ بھٹکل میں واقع "ابو محل" سے بانیانِ جامعہ اسلامیہ میں سے دو بانی یعنی جناب ڈی اے ابو بکر اور ڈی اے اسماعیل صاحبان "ڈی اے برادران" کے نام سے مشہور ہوئے، تو "النوائط" دبئ میں اسی خاندان سے وابستہ دو دیرینہ تجارتی شریک اورقریبی رشتے دار "دامودی برادران" سے یاد کیوں نہیں کیےجائیں گے؟؟۔ جیسے ڈی اے برادران ہمارے معاشرے کی ایک پہچان بن چکے تھے اسی طرح دامودی برادران بھی بن چکے ہیں۔ جناب عبد الحمید صاحب دام ظلہ اور جناب سعید حسین مرحوم دونوں کا باہمی رشتہ بہنوئی اور برادرِ نسبتی کا ہے، دونوں ایک ہی خاندان کے بڑوں کے زیرِ تربیت رہے،دونوں نے جامعہ کی تعمیر وترقی میں اپنے بڑوں کو حصہ لیتے دیکھا، دونوں نے عروس البلاد ممبیمیں رہ کر قومی اور سماجی مسائل میں ان کی دلچسپیاں دیکھیں، شہر کی فکریں کرتے دیکھا۔
بہر کیف دونوں شرکاء نے مل جل کر تادمِ آخر کامیاب تجارت کی، تجارتی دنیا ہو یا سماجی خدمات دونوں جگہوں پر برابر کے شریک رہے،ہر ایک کو دوسرے کا ساتھ حاصل رہا، دونوں ایک ہی مشن پر شانہ بہ شانہ چلتے رہے، باہمی مفاہمت بھی رہی، ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کو ممکنہ تعاون فراہم کرتے رہے۔ اسی تعلق کا اظہار کرتے ہوئے جناب عبد الحمید صاحب علی پبلک اسکول میں مرحوم کی تعزیتی نشست میں برملا اظہار فرماتے ہیں کہ " ہمارے اس لمبے تجارتی عرصے میں کبھی کسی بات پر اختلاف ہو کر تعلق میں خرابی کی نوبت نہیں آئی، بلکہ ہم دونوں میں باہمی مفاہمت ایسی تھی کہ ہر ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے باہمی مشورے سے کام آگے بڑھتا تھا"
قومی فلاحی اور تعلیمی ادارے :۔
جناب سعید صاحب کے دل میں دینی اور تعلیمی اداروں کے ساتھ ہمدردی اور ہمہ جہتی تعاون کا جذبہ موجزن تھا، اس لیے جہاں آپ کا تعلق انجمن اور جامعہ سے رہا، وہیں مجلسِ اصلاح وتنظیم وغیرہ سے بھی مستحکم رہا۔ سن ۱۹۷۴ ء میں جب جناب محیی الدین منیری صاحب نے مستورات کی تعلیم کے لیے جامعۃ الصالحات کی بنیاد رکھی تو اس کام میں بھی آپ آگے آگے رہے، منیری مرحوم کا دامے درمے سخنے قدمے تعاون فرمایا۔
جامعہ اسلامیہ :۔
دامودی برادران کا تعلق مادرِ علمی جامعہ اسلامیہ سے موروثی ہے، اس کا انحصار جوانی میں میسر ہونے والے گھر کے ماحول پر بھی ہے ۔ اسی لیے ہم نے یہ بارہا دیکھا کہ جب بھی جامعہ کے تعلق سے کوئی بات ہوتی یا کوئی مسئلہ در پیش ہوتا تواس کے حل کرنے میں دامے درمے سخنے قدمے اپنا تعاون پیش کرنے میں دریغ نہیں کرتے، یہ محض اللہ تعالی کی توفیق اور گھر میں بڑوں کو کرتے دیکھنا تھا۔
جنابِ سعید حسین مرحوم نے ممبیکے قیام کے دوران اپنی تجارت کی پہلی آمدنی کی پوری رقم، جو اس وقت کے ایک ہزار روپیہ بنتے تھے، جامعہ اسلامیہ کو دے دی۔ اللہ کی ذات سے کوئی بعید نہیں ہے کہ مرحوم کی زندگی کا صرف یہ ایک عمل ان شاء اللہ ان کے اخلاص کی بدولت ان کی مغفرت کا سبب بن جائے۔ ہمارا تحریر کرنا یا آپ کا پڑھنا اور سننا بہت آسان ہے، مگر ہر کوئی اگر اپنے اوپر اس کا تجربہ کرکے دیکھے تو اس کی قدر وقیمت اور اہمیت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تجارتی زندگی میں آپ کی بعد کی کامیابی اور برکت وترقی میں آپ کے اس عمل کا بھی حصہ رہے گا۔ اسی تذکرے میں جامعہ اسلامیہ کے رودادِ اجلاس اول سے یہ اقتباس بھی زیرِ نظر رکھیں، جس سے اس خوش قسمت شخص کی اس اہم مد کی تصدیق کے ساتھ خانوادۂ دامودی کے مزید احباب کا ذکرِ خاص بھی شامل ہے: " جناب ڈی اے ابو بکر صاحب اور ڈی اے اسماعیل صاحب سے تعلق رکھنے والے بچوں عبد الحمید دامودی ، اسماعیل دامودی، محمد سعید محی الدین دامودی، محمد سعید حسین داموی نے مل کر جو گھڑی کے فرم میں کام کرتے اور تین روز سے دینی تعلیم کے چرچے چلتے پھرتے سنتے تھے، دینی جوش وجذبے سے متاثر ہوکر اپنی طرف سے بالکل اپنی جیب خاص سے مبلغ ایک ہزار روپیہ دینے کا اعلان کیا، اور بلا ترغیب و فرمائش کے خود بخود رقم پیش کی"۔
انجمن حامیِ مسلمین بھٹکل :۔
آپ کی توجہات کا مرکز اپنی مادرِ علمی انجمن حامیِ مسلمین بھی رہی، اس کی تعمیر وترقی میں بھی بھرپور حصہ لیا، اس کے مالی استحکام میں پیش پیش رہے، جن خدمات کی بدولت بالکل نوعمری میں ہی غالباً ۱۹۷۷ کو اس کے سرپرست بنائے گئے۔
اکیڈمی اور علی پبلک اسکول :۔
مرحوم جناب سعید دامودی کا تذکرہ ہو، ان کی زندگی کا احاطہ ہو، ان سے انجام پانے والیخدمات کا سلسلہ در سلسلہ ہو،اور اکیڈمی کے لیے مرحوم کی خدمات کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟جو آپ کی زندگی کا ایک زرین باب بلکہ بعد میں وہ آپ کاحسین خواب بن چکا تھا، جس میں آپ نے جی جان سے حصہ لیا، اپنے رفیقِ خاص اور تجارتی شریک کے ساتھ مل کر شانہ بہ شانہ رہ کر قدم قدم پر ساتھ دیا، پوری جاں فشانی اور اولو العزمی کے ساتھ ہر ایک منصوبے میں شامل رہے جس پر مولانا محمد الیاس صاحب کے تعزیتی کلمات کے یہ الفاظ" آ ج ان کے انتقال کا سانحہ میرے لیے اپنے والد کے سانحۂ ارتحال سے کم نہیں ہے" اس کی شہادت پیش کرتے ہیں کہ مرحوم سعید حسین آپ کے لیے اور اکیڈمی اور اس کے متعلقہ منصوبوں کی تکمیل کے لیےایک مضبوط سہارا تھے، وہ میری ہمت بڑھاتے ، مجھے آگے بڑھنے کے حوصلے دیتے،سخت حالات پر مجھے تسلی دیتے، جس کی وجہ سے دینی، دعوتی اور تعلیمی میدانوں میں کام کرنے میں مدد ملی اور توفیقِ الہی وفضلِ خداوندی کے ساتھ آپ جیسے مخلص معاونین کے تعاون سے یہ کارواں اپنی منزل کی طرف پیش رفت کر رہا ہے۔
مادر ِعلمی جامعہ اسلامیہ کی دعوتی سرگرمیوں کو وسعت دینے اور اس کے فیض کو عام کرنے کے لیے مولانا محمد الیاس ندوی دام ظلہ نے حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے زیرِ سرپرستی اورفارغینِ جامعہ کے ہمہ جہتی تعاون سے حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب جس عظیم الشان اسلامک اکیڈمی کی بنیاد مؤرخہ ۱۲ جون 2001کو رکھی تھی ، جنابِ سعید مرحوم اس کے ٹرسٹی اور ایک فعال ومتحرک اورمخلص رکن تھے، اس کی تعمیر و ترقی میں برابر کےشریک تھے، بالخصوص اس کے تعلیمی اور دعوتی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں آپ نے اپنے ساتھی جناب عبد الحمید صاحب دامودی دام ظلہ کےساتھ شانہ بہ شانہ رہ کراپنا ہر ممکن تعاون پیش کیاتھا۔
اکیڈمی کے زیرِا ہتمام مولانا سید ابو الحسن ندوی اسلامک یونیورسٹی کے تخیل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سنہ ۲۰۱۱ میںعلی پبلک اسکول کے آغاز سے اس کے تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل میں بھر پور تعاون فرمایا۔ اللہ تعالی کی طرف سے یقیناً ان پر فضلِ خاص رہا کہ انھیں اپنی زندگی ہی میں کئی ایک خیر کے کاموں میں حصہ لینے اور اپنے لیے" صدقۂ جاریہ"کرنے کی توفیق ملی۔
آخری ایام :۔
خوش نصیب سعیدمرحوم نے ایک خوشگوار زندگی گزاری، حیاتِ مستعار میں سعادت مندی و ظفر مندی پائی اور جذبۂ صادق کے ساتھ مقدر بھر دین کی خدمت وحمایت کے لیے زندگی بھر کوشاں رہ کر ہم سے رخصت ہوئے۔ ان کے جسد ِخاکی کو الوداع کہنے اور نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیےايك بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اور ان کا آخری دیدارکیاگیا، نمازِ جنارہ قریبی رشتہ دار نے پڑھائی اور "گل کدہ" بھٹکل کا یہ مکین دبئ کے "القصيص " قبرستان آسودۂ خاک ہوگا۔ ان شاء الله مرحوم اپنی خدمات کی بدولت زندۂ جاوید رہیں گے اور انھیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جنت الفردوس میں بلند مرتبہ عطا کرے اور ان کی نیکیوں کو قبول کرے (آمین یا رب العالمین ۔)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں