خوش رہنے والے بچوں کی سات عادات

 

تحریر:محمدقمرانجم قادری فیضی 

 

۱۔ بچوں کا اپنے لئے مصروفیت ڈھونڈنا

سکرین بند ہوتے ہی اگر بچے "میں بور ہو رہا ہوں" کا راگ الاپتے ہیں تو آپ انہیں مختلف کام کرنے کا آئیڈیا دے سکتے ہیں۔ جیسے پتھر پینٹ کر لیں، شیشے کا گلدان پینٹ کر لیں جسے کچھ دن بعد دھو کر دوبارہ پینٹ کر سکیں، کاغذ کی کشتیاں جہاز بنانا، بلبلے بنانا، کتاب پڑھنا، اچھلنا کودنا، سائکلنگ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ والدین کا یہ فرض نہیں کہ چوبیس گھنٹے بچوں کو انٹرٹین کریں اور میں نے باقاعدہ ماؤں کو گلٹی محسوس کرتے اور شرمندہ ہوتے ہوئے دیکھاہے کہ بچے بور ہو رہے ہیں تو گویا والدین کا قصور ہے۔ ہر گز نہیں! والدین آئیڈیا دے سکتے ہیں لیکن اپنی مصروفیت ڈھونڈنا اور بوریت کو دور کرنا اسی کا کام ہے جو بور ہو رہا ہے۔ یہ بات بچے کو بتا دیجیئے کہ بور وہ ہو رہا ہے تو اس بوریت کو دور کرنا اسکا اپنا کام ہے۔ انہیں ذمہ داری لینا سکھائیے۔ بیزار ہیں تب بھی، خوش ہیں، ناخوش ہیں تب بھی۔ اس سب کی ذمہ داری کہیں نہ کہیں انہی پر آتی ہے۔ ابھی سے بچوں کو پتہ ہو کہ اپنی فیلنگز اور مسائل کے لئے دوسروں کو الزام دینا ٹھیک نہیں کہ بھائی نہیں کھیل رہا، امی کام میں لگی ہوئی ہیں اور میں بیچارہ! 

اپنی زندگی کا چارج خود سنبھالیں اور خود کو وکٹم یعنی مظلوم سمجھنا چھوڑ دیں۔تو بچے کیا کریں؟

کسی کے لئے کچھ اچھا کریں۔ جیسے ڈاکیے کے لئے شکریہ کا خط، خالہ کے لئے کارڈ، پودوں کی دیکھ بھال، پرندوں کو کھانا دینا کچھ ایسا کریں جو پسند نہ ہو یا جسکا خوف سا دل میں ہو۔ جیسے کوئی نیا دوست بنانا، کلاس میں ہاتھ کھڑا کرنا، باتھ روم صاف کرنے میں امی کی مدد کرنا موڈ خراب ہو تو بالکل خاموش رہنے کی عادت ڈالیں۔ جب بہتر محسوس کریں تب اپنی بات اچھے طریقے سے کریں۔ یہ مینرز سوشل میڈیا کے لئے بھی بچوں کو سکھائیں۔ غصے میں کامنٹ یا پوسٹ بالکل نہ کریں۔ وہی بات بعد میں اچھے طریقے سے کہہ جا سکتی ہے۔

جب غلطی کریں، کہے بغیر سوری بولیں۔ اس انتظار میں نہ رہیں کہ جب کہا جائے گا تبھی کہیں گے۔

۲۔ پہلے سے منصوبہ بندی کر کے رکھنا

بچوں کو شروع سے ہی اختتام کو مد نظر رکھ کر کام کرنا سکھانا ہو گا۔ عیدی ملی، پاس ہونے پر پیسے ملے۔ اب کیا کرنا ہے؟ کیا سارے خرچ کر دینے ہیں؟ کیا سبھی جمع کر لینے ہیں؟ سب خرچ کر دئیے تو کیا ہو گا؟ جمع کرتے رہے اور خرچ نہ کیے تو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہے؟ تین خط کے لفافوں پر اخراجات، سیونگ، صدقات لکھ لیجیے اور انجام کو سامنے رکھ کر بچوں کو فیصلہ کرنے میں مدد کریں۔

پیسوں کی طرح وقت کو ضائع کرنے کے نقصانات پر بھی بات کی جائے۔ اگر ہر وقت پڑھتے رہیں تو کیا فایدہ کیا نقصان؟ اگر کھیل تماشے میں لگے رہیں اور پڑھائی اور ٹیسٹ کی تیاری نہ کریں تو کیا ہو گا؟ انجام پر نظر ہونا کیوں ضروری ہے، یہ بتائیے۔

مسلمانوں کے لئے تو خاتمہ بالخیر اور روزِ قیامت نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے اس لئے بھی اختتام کو نظر میں رکھنا سکھانا ہے۔

تو بچے کیا کریں؟

رات کو ہی صبح کے کپڑے، کتابیں، پانی کی بوتل، بیگ وغیرہ سیٹ کر کے رکھیں۔

تین گولز لکھیں اور لکھ کر سامنے ہی لٹکائیں۔

سوچیں کہ بڑا ہو کے کیا بننا ہے؟ اس کے مطابق پلین کریں،کوئی ایک چیز ایسی سوچیں جس میں اچھے نہیں اور بہتری کی گنجائش ہے۔ اس پر کام کرنا شروع کریں۔ یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے جیسے روز کا ہوم ورک روز کرنا، دانتوں کی صفائی ٹھیک سے کرنا، امی ابو کی بات پہلی بار سننا۔

۳۔ اہم کام پہلے کئے جائیں

اکثر کھیل میں لگ کر بچے کرنے کے کام پسِ پشت ڈال دیتے ہیں جس سے بعد میں انہیں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عموما اپنی پسند کی چیز پہلے کی جاتی ہے چاہے کھیل ہو یا پڑھائی میں اپنی پسند کے سبجیکٹ کا انتخاب۔ بچوں کے اندر شروع سے ہی یہ چیز ڈالنی ہو گی کہ اہم کام پہلے کر لئے جائیں چاہے مشکل ہی کیوں نہ لگیں۔ بعد کی مشکل سے تو بچا ہی جا سکتا ہے، فوری طور پر بھی ذہن پر سے بوجھ کم ہو جاتا ہے۔

تو بچے کیا کریں؟ اپنی پہلی ذمہ داری اور اہم کام پہلے نمٹا لیں۔ جیسے پانی کی بوتل بھر کر فریج میں رکھنا، جاگنے کے بعد بستر ٹھیک کرنا، میتھ یا جو بھی مضمون مشکل لگتا ہے اسکا کام پہلے کر لینا۔

جو کام ذمہ داری ہیں انکو بغیر بحث کے کرنے کی عادت ڈالنا کل کے اپنے کام کسی کے کہے بغیر خود ذمہ داری سمجھ کر کرنا۔ اسلئے ٹالتے نہ رہنا کہ جب ماما کہیں گی تب کر لیں گے۔ اب کی بار ہوم ورک میں جو سب سے مشکل کام لگے، اسے سب سے پہلے ختم کرنا۔ کوئی ایسا کام جو بہت عرصے سے ٹال رہے ہوں، اسکو ابھی کرنا۔ جیسے دراز کی صفائی، جیسے دادی نانی کے پاس بیٹھ کر گفتگو کرنا۔ جیسے کوئی کتاب پڑھنا جو کافی عرصے سے لی رکھی ہے۔

۴۔ سب کا بھلا، سب کی خیر

بچوں کو بتائیے کہ زندگی ہمیشہ "میں" کے گرد نہیں گھومنی چاہیے، نہ ہی ہر وقت دوسروں کی خوشی کی خاطر اپنا من مارنا چاہیے۔ زندگی "میں" اور "تم" کے بجائے "ہم" کے اصول پر ہو۔ کوئی ایسا درمیانہ راستہ ہو جس سے سب کا بھلا ہو جائے، یعنی win-win condition. یہاں مجھے حجرِ اسود کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ سبھی سردار چاہتے ہیں کہ انکے ہاتھوں سے پتھر لگایا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر میں حجرِ اسود رکھتے ہیں۔ تمام سرداران اس چادر کو پکڑ لیتے ہیں اور نبی ؐ پتھر کو دیوارِ کعنہ میں نصب فرما دیتے ہیں۔ یہ ہے وِن وِن کنڈیشن! کوئی ایسا حل نکالا جائے جس سے سبھی کا فائدہ ہو جائے۔

تو بچے کیا کریں؟ ایک پورا دن کسی قسم کی شکایت اور رونی شکل سے پرہیز کریں۔ ایک گھنٹے کا ٹارگٹ بنائیں۔ اسے مکمل کرنے کے بعد اگلا گھنٹہ۔ پھر اگلا گھنٹہ۔ پھر ایک گھنٹہ اور! یوں ایک پورا دن۔

اگلی بار جب کسی سے بحث یا جھگڑا ہو جائے تو کوئی درمیانہ حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ بھائی کرکٹ کھیلنا چاہتا ہے۔ خود گیم کھیلنا چاہتے ہیں۔ پہلے ایک کام دونوں مل کر کر لیں، پھر دوسرا دونوں مل کے کر لیں۔ یا پہلے کرکٹ کھیل لی جائے کہ بعد میں اندھیرا ہو جائے گا، بعد میں گیم جس وقت گھر رہنے کا وقت ہو۔ ایک پوسٹر بنایا جائے جس کے تین کالم ہوں۔ ایک کے اوپر "میں چاہتا ہوں" اور دوسرے پر "امی ابو چاہتے ہیں" لکھ لیا جائے۔ تیسرے کالم پر وِن وِن کنڈیشن لکھ لیں۔ جیسے: میں چاہتا ہوں کہ گیم کھیلوں۔ امی کہتی ہیں پڑھائی کرو۔ تیسرا کالم: پہلے کام ختم کر کے پھر گیم کھیل لی جائے۔ میں چاہتا ہوں بال ڈائے کرواؤں۔ امی کہتی ہیں نہیں کروانے۔ تو کوئی ایسا رنگ کروا لیا جائے جو بالوں کے رنگ سے بہت زیادہ مختلف بھی نہ ہو، لیکن شوق بھی پورا ہو جائے

۵۔سنیں!بولنے سے زیادہ سننے کی عادت ڈالی جائے۔ بہت کم لوگ ہیں جو گفتگو کے آداب جانتے ہیں۔ کسی نے کہا میرے چچا بیمار ہیں، انہیں کینسر ہو گیا۔ سننے والا سرسری بات سن کر اپنی کہانی شروع کر دیتا کہ اف، مجھے پتہ ہے یار تم لوگ کتنی تکلیف میں ہو۔ پچھلے سال میرے ماموں کو بھی کینسر ڈائگنوز ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اور پھر ڈیتھ، اور بعد کے مسائل تک کی کہانی سنائی جاتی ہے۔ ہر بات میں ایسا ہی ہے، کبھی نوٹ کیجیے گا۔ ہم لوگوں کو بس بات کہنا آتی ہے، گفتگو نہیں کرنا آتی جس میں لِسننگ یعنی سننا، ایکنالج کرنا بہت اہم ہے۔ بچوں کو شروع سے ہی بتائیے کہ بیچ میں بات نہ کاٹیں، اور بولنے سے زیادہ سننے کی کوشش کریں۔ "میں بھی، میرے پاس بھی، میرا بھی۔۔۔" کوشش کریں کم سے کم ہو۔تو بچے کیا کریں؟

ایک گھنٹہ بالکل بات کئے بغیر گزاریں۔ پڑھیں، کرافٹس بنائیں لیکن خاموشی سے۔ 

سوچیں کہ کس بندے سے بات کر کے اچھا لگتا ہے۔ وہ جو آپکی بات توجہ سے سنتا اور اسکو اہمیت دیتا ہے۔ سوچیں کہ کیا خصوصیات اس بندے کو اچھا لِسنر بناتی ہیں۔ اگلی بار کوئی اداس محسوس ہو تو پرخلوص طریقے سے اسکو کہیں کہ مجھے احساس ہے آپ فلاں بات کی وجہ سے اداس، پریشان ہیں۔ آپ چاہیں تو مجھ سے بات شیئر کر سکتے ہیں۔ یا پھر اپنی مدد کی پیشکش کیجئے۔

۶۔ اتفاق میں برکت ہے

بچوں کو ٹیم ورک کی عادت ڈالی جائے۔ شروع سے ہی والدہ کیساتھ صفائی کروائیں، والد کیساتھ باہر لان میں گھاس کاٹیں۔ انہیں بتایا جائے کہ مل کر کام کرنے سے مزہ بھی آتا ہے ، کام جلدی بھی ہو جاتا ہے، اور کام میں برکت بھی ہوتی ہے۔ مل کر کام کرنا اللہ کو بھی پسند ہے، اسی لئے تو مسجد کی با جماعت نماز کو اکیلے نماز پڑھنے پر اتنی فوقیت ہے۔

تو بچے کیا کریں؟ دوسروں کی خامیاں نکالنے کے بجائے انکی خوبیاں نوٹ کریں۔ 

اپنے آپ کو ہر فن مولا بھی نہ سمجھیں، نہ بالکل ہی لُوزر سمجھیں کہ مجھے تو کچھ آتا ہی نہیں۔ اپنی خوبیوں اور strenghts پر نظر رکھیں۔ 

اچھی ٹیم کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں، یہ سوچا جائے۔ اور جب بھی ٹیم ورک ہو، ان خصوصیات کو مد نظر رکھیں اور پریکٹس کریں۔ بری ٹیم کس وجہ سے بری ٹیم کہلاتی ہے؟ ان وجوہات کو مد نظر بھی رکھا جائے اور ان سے پرہیز بھی کیا جائے۔

دوستوں کیساتھ مل کر کسی پراجیکٹ پر کام کریں۔ بالفرض محلے کی صفائی کا کام۔ اب کام بانٹیں۔ جس کے سوشل سکِلز اچھے ہیں وہ محلے والوں سے بات کرے۔ جو کمپیوٹر میں تیز ہے وہ فلائر ڈیزائن کرے۔ تخلیقی ذہن والا یہ سوچے کہ فلائر میں لکھنا کیا ہے۔ یوں پراجیکٹ پر ٹیم ورک کیا جائے۔

۷۔ اعتدال،اسلام میں میانہ روی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ عبادات تک بھی اعتدال سے تجاوز نہ کریں۔ انبیا سے محبت اور عقیدت بھی یہود و نصاری کی طرح نہ ہو جو حدود سے بڑھ جائے۔ زندگی کا ہر معاملہ ہی اعتدال کا متقاضی ہے۔ بچے کھیل میں ایسے مگن ہوں کہ نیند ہی نہیں پوری ہو رہی، کمپیوٹر لگا لیا تو بھوک پیاس کا ہوش ہی نہیں، یہ غلط ہے۔ یاد رہے کہ جسم، دل، دماغ، اور روح گاڑی کے چار پہیوں کی مانند ہیں۔ جو ایک پہیہ توازن سے ہٹا، زندگی کی گاڑی ڈگمگانے لگے گی۔ جس بھی چیز میں حد سے تجاوز کریں گے، اسکا اثر جسم، دل، دماغ، یا روح پر کس طرح پڑے گا۔ چاہے وہ رات کو دیر تک جاگنا ہے، یا سکرین کا بے جا استعمال، یا اسراف، یا کنجوسی، بہت زیادہ وقت دوستوں کو دینا، یا پھر گھر میں ہی مقید ہو رہنا اور لوگوں سے ملنا چلنا پسند ہی نہ کرنا۔۔۔ ہر دو ایکسٹریمز کے درمیاں کا راستہ چننا ہے۔

تو بچے کیا کریں؟ مسلسل دو راتیں وقت پر سونے کی کوشش کریں۔ اور پھر دیکھیں کہ موڈ پر، نمازوں پر، تعلقات پر، کام پر اسکا کیا اثر پڑتا ہے۔

پورا ہفتہ ہر روز کم از کم بیس منٹ کوئی بک پڑھیں۔ اور سکرن ٹائم میں سے کم از کم بیس منٹ گھٹا دیں۔ کسی ایک ایسے بندے سے بات کریں، ملاقات کریں، کھیلیں جس کے ساتھ بہت عرصے سے تعلق کچھ نظر انداز ہو رہا ہے۔ قدرتی مناظر کیساتھ وقت گزاریں۔ چاہے چاند دیکھنے چھت پر چلے جائیں، ہو سکے تو کہیں ہریالی میں، کہیں پانی کے پاس، اور سوچیں کہ مجھے کیا کرنا پسند ہے۔ جب قدرت میں جائیں تو شعوری کوشش کریں کہ اسکی تصویریں نہیں کھینچنی، نہ ہی کوئی سٹیٹس اپڈیٹ کرنا ہے۔ صرف اور صرف اپنی خوشی اور سکون کے لئے قدرت میں وقت گزاریں.

مضمون نگار، سدھارتھ یونیورسٹی سدھارتھ نگرکے ریسرچ اسکالر ہیں، 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

06 جولائی ۲۰۲۰ 

«
»

کورونا وائرس،لاک ڈاؤن حکومت اور غریب عوام

ہندو اقوام پر مسلمانوں کے احسانات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے