اپنی جان آپ لینا خود ایک مسئلہ ہے مسائل کا حل نہیں
حمیرا علیم
"ہائے! کیا میں آپ کے ساتھ اپنے ایک دوست کے متعلق کچھ شئیر کر سکتا ہوں؟ لیکن ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو کسی اور کو پتہ نہ چلے”
میں سرینٹی آف اسلام کے گروپ میں نئے وزیٹرز کو جواب دے رہی تھی جب ایک فلپینیز وزیٹر کا میسج موصول ہوا۔
"جی اطمینان رکھیے۔ آپ کی اور میری گفتگو صرف ہم دونوں تک ہی محدود رہے گی” میرے کہنے پہ اس شخص نے لکھا۔
"میرا ایک دوست ہے جو کہ ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرنے والا ہے۔”
مجھے ایک دم خیال آیا کہ اتنی رازداری کسی دوست کے معاملے میں تو برتی نہیں جا سکتی۔ یقینا یہ شخص خود ہی اس قبیح فعل پہ عمل کرنے والا ہے۔
"آپ کا مذہب کیا ہے؟” چونکہ ہم دعوت الی اللہ کا کام کرتے ہیں اور زیادہ تر عیسائی، بدھ، ایڈونٹ وغیرہ ہی میسج کرتے ہیں اس لیے مذہب کے بارے میں جاننا ضروری ہوتا ہے۔
"الحمد للہ مسلمان ہوں۔” سن کر تسلی بھی ہوئی اور دکھ بھی ہوا۔ کچھ آیات و احادیث کا حوالہ دیا اور بتایا کہ خود کشی ایک کبیرہ گناہ ہے اور خود کشی کرنے والے کے لیے ہمیشہ جہنم میں رہنے کی وعید ہے۔ جہاں اللہ تعالٰی اسے ویسے ہی سزا دیں گے جس طرح اس نے خود کو مارا ہو گا۔
ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم حضرت محمد (ﷺ) نے فرمایا جو کوئی خود کو پہاڑ پر سے گرا کر مارتا ہے وہ خود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کے گڑھے میں گرا دیتا ہے۔ جو کوئی زہر پی کر اپنی جان لیتا ہے وہ جہنم میں ہمیشہ زہر ہی پیتا رہے گا۔ جو کوئی لوہے کے ٹکڑے سے خود کو قتل کرتا ہے اس کے ہاتھ میں لوہے کا ٹکڑا ہو گا جسے وہ جہنم میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا۔”
ثابت ابن دھکؓ روایت کرتے ہیں کہ "نبیؐ نے فرمایا: جو شخص کسی چیز سے اپنی جان لے لے گا اسے روز قیامت اسی کے ذریعے سزا دی جائے گی۔”
ابن عبد اعلیؓ کہتے ہیں کہ: نبیؐنے فرمایا کہ تم سے پہلے جو لوگ آئے ان میں سے ایک شخص زخمی تھا، وہ پریشان ہو گیا اور اپنا ہاتھ کاٹ لیا، خون بہنے کی وجہ سے وہ مر گیا۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے "میرے بندے نے مرنے میں جلدی کی لہٰذا میں نے ہمیشہ کے لیے اس پر جنت کو ممنوع قرار دیا۔”
ایک مسلمان کو صبر کے ساتھ اللہ تعالٰی کی مدد مانگی چاہیے اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اس دنیا میں خواہ کیسی ہی مصیبت کیوں نہ آ جائے، چاہے وہ کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، آخرت کی سزا سے زیادہ سخت نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی ہوش مند شخص صحرا کی گرمی سے گھبرا کر خود کو آگ میں نہیں جھونک سکتا۔ وہ اس عارضی مصیبت سے جو کہ کبھی نہ کبھی ختم ہونی ہے، ایک مستقل عذاب اختیار کرکے کیسے نجات پا سکتا ہے؟
ایک مومن کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اس دنیا میں واحد شخص نہیں ہے جو کہ مصائب و تکالیف کا سامنا کر رہا ہے۔ انبیاء اور صالحین نے بھی مشکلات جھیلی ہیں حتی کہ ملحدین اور بڑے لوگوں کو بھی مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مخالفین ان کے بدترین دشمن تھے۔ مصائب زندگی کا حصہ ہیں اور ان سے کوئی بھی شخص خواہ نبی ہی کیوں نہ ہو مبرا نہیں۔ اگر ایک مسلمان مصیبت کا سامنا صبر و حوصلے سے کرتا ہے اور یہ اسے اللہ کی طرف رجوع کرنے کا سبب بنتا ہے اور وہ عبادات اور نیکیوں کی کوشش کرتا ہے تو یہ مصیبت اس کے لیے اچھی ہے جو اس کے گناہوں کی مغفرت کا سبب بن جاتی ہے اور ممکن ہے کہ وہ اللہ تعالٰی سے ملاقات کے وقت کسی بھی گناہ کے بوجھ سے آزاد ہو۔
نبیؐ نے فرمایا: "کسی مومن پہ کوئی تکلیف، مصیبت، بیماری یا پریشانی نہیں آتی مگر یہ سب اس کے گناہوں کی مغفرت کا سبب ہوتا ہے۔”
ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ "مومن مردوں عورتوں اور ان کے بچوں پر مصائب آتے رہیں گے حتی کہ وہ رب سے اس حال میں جا ملیں گے کہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔”
شکر الحمدللہ کہ اس شخص کو بات سمجھ میں آگئی اور چند جملوں کے تبادلے کے بعد اس نے خود ہی بتا دیا کہ وہ ایک اٹھارہ سالہ طالب علم تھا جس کے گھر کا ماحول نہایت مذہبی تھا اور روپے پیسے کی بھی فراوانی تھی۔ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ ڈپریشن کا شکار تھا۔ ڈپریشن ایک بیماری ہے بالکل ایسے ہی جیسے سر درد، کینسر یا کوئی بھی اور بیماری ہے۔ اور اس کا علاج بھی دوسری بیماریوں کی طرح ضروری ہے ورنہ انسان انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے خود کشی بھی کرسکتا ہے۔
جب کبھی اپنے دکھ و تکالیف ناقابل برداشت محسوس ہونے لگیں اور خودکشی کا خیال آئے تو انبیاء کی زندگی کو یاد کر لیجیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اپنے فلسطینی بھائیوں کی مثال سامنے رکھیے جن کے گھر اور خاندان تباہ کر دیے گئے جو زخمی ہیں بھوکے پیاسے ہیں ہر وقت جان جانے کا خطرہ ہے مگر زبان پر شکوہ نہیں بلکہ ذکر الٰہی ہے، جو اپنے بچوں کو دفناتے ہوئے روتے نہیں بلکہ سرگوشی کرتے ہیں کہ ان شاءاللہ جنت میں ضرور ملاقات ہوگی۔
یہ جاننے کے بعد امید ہے کہ اپنے دکھ ان کے سامنے ہیچ نظر آئیں گے اور صبر و برداشت کی قوت وطاقت پیدا ہو گی۔
جواب دیں