2013، خود کش حملوں کی لہر کا سال

نائن الیون کے بعد سے اب تک پاکستان میں 376 خود کش حملے ہو چکے ہیں جن میں مرنے والوں کی مجموعی تعداد 5710 ہو گئی ہے۔ نائن الیون کے بعد پہلا خود کش حملہ 2002 ء میں کیا گیا تھا۔ کانفلکٹ مانیٹرنگ سینٹر کے اعدادوشمار کے مطابق 2013 ء میں ہونے والے 47 خود کش حملوں میں سے چھ فوج ‘ پیرا ملٹری فورس(ایف سی ) اور پولیس کے خلاف آٹھ آٹھ حملے ہوئے ۔ 2011 ء میں فوج پرچار خود کش حملے جبکہ 2012 میں صرف ایک حملہ ہوا تھا‘ پیرا ملٹری فورسز (ایف سی اور رینجرز) کے خلاف 2012 ء میں چار خود کش حملے ہوئے تھے جبکہ 2013 ء میں اس تعداد میں دوگنا اضافہ ہوگیا۔ پولیس پر ہونے والے خود کش حملوں کی تعداد میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ۔ 2012ء میں بھی پولیس کے خلاف آٹھ خود کش حملے ہوئے تھے ۔2013ء میں بھی عبادت گاہوں اورجنازوں پر خود کش حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جنگجوؤں نے نماز جنازہ کے دو اجتماعات پر خود کش حملے کیے ان میں اسے ایک کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں کے جنازے کے دوران ہوا جس میں ڈی آئی جی سمیت تیس پولیس اہلکار مارے گئے۔ مساجد اور امام بارگاہوں پر چار خود کش حملے ہوئے جبکہ ایک خود کش حملہ چرچ پر کیاگیا۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی خود کش حملوں کی زد میں آئے۔ پیپلز پارٹی ‘ اے این پی ‘ پی ٹی آئی‘ اے این پی اور نیشنل پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن خود کش حملوں کی زد میں آئے۔ پشاور ہائی کورٹ‘ سردار بہادر خان یونیورسٹی کوئٹہ‘ بولان ہسپتال کوئٹہ اورباجوڑ میں بھی ایک ہسپتال خود کش حملوں کا نشانہ بنے ۔سول سرکاری اعلیٰ افسران بھی خود کش حملوں کی زد میں آئے جن میں کمشنر پشاور اور خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ شامل ہیں۔ 2013 ء کے دوران جنگجوؤں نے خود کش حملوں میں وی آئی پی شخصیات کو نشانہ بنانے کے لیے کئی حملے کیے ۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ‘ ایف سی بلوچستان‘ آئی جی ایف سی ‘ صوبائی وزیر قانون اسرار گنڈا پور اور دیگر شامل ہیں۔ جنگجوؤں نے آئی ایس آئی کے خلاف بھی سکھر میں ایک تباہ کن خود کش حملہ کر کے اس کے دفاتر کو زمین بوس کر دیا۔ 2013 ء کے اعدادوشمار واضح کرتے ہیں کہ جنگجووں کی خود کش حملے کرنے اور ہدف کے تعین کی صلاحتیوں میں بہتری آئی ہے۔ کانفلکٹ مانیٹرنگ سینٹر کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2013 ء کے دوران ہونے والے مجموعی خود کش حملوں میں سے 47 فیصد صوبہ خیبر پختونخواہ می ہوئے جہاں 22 خود کش حملوں میں 344 ۔افراد مار گئے جن میں سے 249 عام شہری‘ سیکیورٹی فورسز کے 40 اہلکار اور 55 جنگجو بھی شامل ہیں جبکہ 656 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 608 عام شہری تھے۔ دیگر میں سیکیورٹی فورسز کے 42 اہلکار اور 6 جنگجو شامل ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں پشاور ایک بار پھر سب سے زیادہ متاثرہ ضلع رہا جہاں 2013 ء کے دوران 9 خود کش حملے ہوئے‘ صوبہ بھر میں خود کش حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کا تقریبا نصف پشاور میں رونما ہوا۔ صوبے کے دیگر اضلاع میں سے بنوں ‘ ہنگو اور مردان میں تین تین خود کش حملے ہوئے‘ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دو اور سوات اور لکی مروت میں ایک ایک خود کش حملہ ہوا۔ خیبر پختونخواہ میں مہلک ترین خود کش حملہ ماہ ستمبر میں پشاور میں ایک چرچ پر ہوا جس میں 85 افراد ہلاک اور 123 زخمی ہوئے جبکہ سیکیورٹی فورسز پر خیبر پختونخواہ میں سال کا سب سے مہلک خود کش حملہ لکی مروت میں ہوا جس میں دس خود کش بمباروں نے سیکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ کے اندر گھس تباہی پھیلائی اور 13 اہلکاروں کو ہلاک اور 8 کو زخمی کیا ۔2012 ء کے مقابلے میں 2013 ء میں خیبر پختونخواہ خود کش حملوں کی تعداد میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2013 میں ہونے والے خود کش حملے زیادہ مہلک اور تباہ کن تھے۔ 2012 ء کے مقابلے میں خیبر پختونخواہ میں ہلاکتوں میں 79 فیصد اور زخمیوں کی تعداد میں 76 فیصد اضافہ ہوا ۔سال 2013 ء کے دوران خیبر پختونخواہ کے بعد سب سے زیادہ خود کش حملے بلوچستان میں ہوئے جہاں 10 خود کش حملوں میں 199 افراد ہلاک ہوئے جن میں 133 عام شہری ‘ 50سکیورٹی فورسز اہلکار‘ 6 حکومت نواز رضاکاراور 10 جنگجو شامل ہیں جبکہ بلوچستان میں سال 2013 ء کے دوران خود کش حملوں میں زخمی ہونے والے526 افراد میں سے 455عام شہری ‘ 67 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور چار جنگجو شامل ہیں۔ بلوچستا ن میں سال کا مہلک ترین خود کش حملہ علمدار روڈ پر ہوا جس میں سنیئر پولیس افسران سمیت 73 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوئے۔ بلوچستان میں حسب معمول کوئٹہ خود کش حملوں کا سب سے زیادہ شکار رہا ۔ صوبے میں ہونے والے دس حملوں میں سے آٹھ کوئٹہ میں کیے گئے۔ قلعہ عبداللہ او رچمن میں ایک ایک خود کش حملہ کیا گیا۔خود کش حملوں کے حوالے سے فاٹا تیسرے نمبر پر رہا جہاں 9 خود کش حملوں میں 135 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 63 عام شہری ‘ 33 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 39 جنگجو شامل ہیں۔ فاٹا میں 317 افراد خود کش حملوں میں زخمی ہوئے جن میں 212 عام شہری ‘ 105 سیکیورٹی فورسز اہلکار شامل ہیں۔فاٹا میں سب سے زیادہ خود کش حملے شمالی وزیرستان میں کیے گئے جہاں چار خود کش حملے ہوئے۔ سیکیورٹی فورسز کا خود کش حملوں میں سب سے زیادہ نقصان بھی شمالی وزیرستا میں ہوا جہاں 31 جوان ہلاک اوار 103 زخمی ہوئے۔خیبر ایجنسی میں دو جبکہ جنوبی وزیرستان‘ کرم اور باجوڑ ایجنسی میں ایک ایک خود کش حملہ ہوا۔ سال 2013 ء کے دوران صوبہ سند ھ میں چار خود کش حملے ہوئے۔ کراچی ‘ جیکب آباد ‘ شکار پور اور سکھر میں ایک ایک خود کش حملہ ہوا۔صوبے میں ہونے والے ان چار خود کش حملوں میں 17 افراد ہلاک ہوئے جن میں چار عام شہری ‘ سکیورٹی فورسز کے پانچ اہلکار اور آٹھ جنگجو شامل ہیں جبکہ 69 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 62 عام شہری اور سات سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیں۔ صوبے میں سب سے مہلک خود کش حملہ سکھر میں آئی ایس آئی کے دفاتر پر ہوا تھا جب جنگجوؤں نے بارود سے بھری گاڑی کمپاؤنڈ سے ٹکرا دی اور بعد ازاں دفاتر کے اندر گھس کر تباہی پھیلائی ۔پنجاب میں 2013 ء کے دوران صرف ایک خود کش حملہ ہوا جس میں راولپنڈی میں ایک امام بارگاہ کو نشانہ بنایا گیا جس میں چار افراد مارے گئے جن میں سے دو عام شہری ‘ ایک پولیس اہلکار اور ایک خود کش بمبار تھا‘ جبکہ 14 افراد زخمی ہوئے جن میں 10 عام شہری اور چار پولیس اہلکار شامل تھے۔ آزاد کشمیر میں دو خود کش بمباروں نے اس وقت خود کو اڑا دیا جب مقامی آبادی نے ان کا محاصر ہ کر کے گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان میں خود کش حملوں میں شدت 2007 ء لال مسجد آپریش کے بعد آئی۔ لال مسجد آپریشن سے پہلے ساڑھے چھ برس میں صرف 33 خود کش حملے ہوئے تھے جبکہ اس آپریش کے بعد صرف پانچ ماہ میں 43 خود کش حملے ہوگئے۔ کانفلکٹ مانیٹرنگ سینٹر کے جمع کردہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ لال مسجدآپریشن کے بعد 2009 ء کے آخر تک خود کش حملوں میں اضافے کا تسلسل کے ساتھ رجحان رہا ۔2009 ء سوات‘ جنوبی وزریرستان اور باجوڑ میں فوجی آپریشنوں کے بعد خود کش حملوں کی تعداد میں تو کمی آئی تاہم ان حملوں میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا تسلسل 2010 ء کے اختتام تک جاری رہا۔ 2011 ء اور 2012 ء میں خود کش حملوں کی تعداد اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں کے رجحان میں کمی دیکھنے میں آئی تاہم 2013 ء میں ایک بار پھر خود کش حملوں کی تعداد اور ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے ۔

«
»

ظلم و بربریت کا بازار صرف ایوانِ اقتدار تک محدود نہیں۰۰

پہاڑ:حیات الارض کے ضامن………International Mountains Day

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے