آپ خدا کے فرماں بردار ہیں ……یا شیطان کے پیروکار ؟

ابونصر فاروق

(۱)    ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا۔(۶۲)اور اس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے۔ (۷۲) پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔(۸۲)جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ (۹۲)چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا(۰۳)سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔(۱۳)رب نے پوچھا اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا ؟(۲۳)  اُس نے کہا، میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں بشرکو سجدہ کروں جسے تونے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے۔ (۳۳)رب نے فرمایا اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے۔(۴۳) اوراب روز جزا تک تجھ پر لعنت ہے۔(۵۳) اُس نے عرض کیا، میرے رب یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کی مہلت دے جب کہ انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔(۶۳)فرمایا اچھا تجھے مہلت ہے۔(۷۳)اُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے۔(۸۳)وہ بولا میرے رب جیسا تونے مجھے بہکایا اسی طرح اب زمین میں  ان کے لئے دل فریبیاں پیدا کر کے ان سب کو بہکا دوں گا۔(۹۳) سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے خالص کر لیا ہو۔(۰۴)فرمایا یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔(۱۴)بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا،تیرا بس تو صرف ان بہکے ہوئے لوگوں پر ہی چلے گا جو تیری پیروی کریں گے۔(۲۴) اور ان سب کے لئے جہنم کی وعید ہے۔(۳۴)یہ جہنم(جس کا وعدہ ابلیس کی پیروی کرنے والوں سے کیا گیا ہے)اُس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے لیے اُن میں سے ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔(۴۴)(الحجر: ۶۳تا۴۴)
(۲)    اور یاد کرو جب ہم نے ملائکہ سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔اس نے کہا کیا  میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے۔(۱۶) پھر وہ بولا دیکھ تو سہی کیا یہ اس قابل تھا کہ تونے اسے مجھ پر فضیلت دی؟  اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی جڑ کھود ڈالوں،بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔(۲۶)اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا تو جا،ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں، تجھ سمیت ان سب کے لئے جہنم ہی بھر پور جزا ہے۔(۳۶)تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے،ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔(۴۶)یقینا میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہیں ہوگا۔اور توکل کے لئے تیرا رب کافی ہے۔(۵۶)(الاسراء:۱۶تا۵۶)(۳)    پھر ذرا اس وقت کاتصور کروجب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا:کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جواس کے انتظام کو بگاڑ دے گااور خوں ریزیاں کرے گا؟آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔فرمایا میں جانتاہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے۔(۰۳) اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھا یے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیااور فرمایا،اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا)تو ذرا ا ن چیزوں کے نام بتاؤ۔ (۱۳)اُنہوں نے عرض کیا، نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دیا ہے۔حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ہے۔(۲۳)پھر اللہ نے آدم سے کہا، تم ان چیزوں کے نام بتاؤ۔جب اُس نے اُن کو سب کے نام بتا دیے تو اللہ نے فرمایا، میں نے تم سے کہا نہ تھاکہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو،وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اُسے بھی میں جانتا ہوں۔(۳۳)پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگ جھک جاؤ، تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکا ر کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔(۴۳)پھر ہم نے آدم سے کہا تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بہ فراغت جو چاہو کھاؤ پیو، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔(۵۳)آخر کار شیطان نے اُن دونوں کو اُس درخت کی ترغیب دے کرہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور اُنہیں اُس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ (۶۳)اُس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اُس کے رب نے قبول کر لیا،کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(۷۳)ہم نے حکم دیا کہ اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہواور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے۔پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہوگا(۸۳)اور جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔(۹۳)(البقرہ)ان آیتوں کے مطالعہ سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں:
    ان آیتوں کے مطالعہ سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
(۱)    اللہ نے آدم کو زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا تو اُن کو ہر اُس چیز کا علم دے دیا جس کی دنیا میں قیامت تک انسانوں کو ضرورت ہونی ہے۔لیکن عیسائی قوم نے جب ترقی کی اور دنیا اُن کے ہاتھوں میں آئی تو اُس قوم نے دنیا کو ایک جھوٹی کہانی سنائی کہ انسان آدمی کی شکل میں پیدا ہی نہیں ہوا اور اللہ نے یہ کائنات بنائی ہی نہیں۔ایک حادثہ ہواجس کو بگ بینگ (Big Bang)کا نام دیا گیا، اور اُس حادثے کے نتیجے میں سورج سے ایک ٹکڑا الگ ہو کر ان گنت زمانے تک ٹھندا ہوتا رہا جو زمین کہلایا۔ پھر آہستہ آہستہ اُس پر زندگی کے آثار پیدا ہوئے۔ایک خلیہ (Singular cell)ترقی کر کے حیوان بنا۔ پھر بندر بنا اوربندر ترقی کر تے کرتے انسان بن گیا۔جس یہودی نے دنیا کو یہ تصور دیا اُس کے شاگردوں نے پوچھا کہ اُس وقت جو کچھ ہوا آج کیوں نہیں ہورہا ہے ؟  چونکہ یہ ایک مکمل جھوٹی بات تھی اس لئے نہ استاد اس سوال کا جواب دے سکا اور نہ آج تک اس کا جواب مل سکا۔
(۲)    سارے فرشتو ں سے سجدہ کرایا،یعنی قیامت تک فرشتوں کو اللہ کے محبوب بندوں کا ہر حال میں ساتھ دینا اور اُن کی مدد کرنی ہے۔ انسان کائنات میں سب سے زیادہ کمزور مخلوق ہے۔انسان غیبی طاقتوں کے سہارے کے بغیر زمین پر زندہ رہ ہی نہیں سکتا ہے۔یہ سانس لیتا ہے جس میں دو طرح کی گیسیں ہوتی ہیں۔ایک اور دوسری۔اللہ نے ہوا پیدا کی جو اتنی طاقتور ہے کہ جب طوفان بن کر چلتی ہے تو انسانی آبادی کو تہس نہس کر دیتی ہے۔اللہ نے اس ہوا کو کئی شکل دی۔ایک ہوا تو وہ ہے جو مسلسل چلتی رہتی ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم کو زندگی بھی ملتی ہے اور راحت بھی ملتی ہے۔یہ کبھی بہت زیادہ گرم ہو جاتی ہے اور کبھی بہت زیادہ ٹھنڈی۔دونوں ہی انسان کونقصان پہنچاتی ہیں۔اللہ نے انسانی جسم کو ایسا بنایا ہے کہ وہ دونوں طرح کی ہواؤں میں زندہ رہ سکتا ہے اور اپنا کام کر سکتا ہے۔یہ ہوا نظر کا غیب ہے یعنی دکھائی نہیں دیتی۔خوشبو اور بدبو اسی ہوا کے ذریعہ ادھر سے ادھر سفر کرتی ہے۔اسی طرح فرشتے دنیا میں ہر دم انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں اور اللہ نے جو تقدیر (Program)بنایا ہے اُس کے مطابق کے حکم سے اُس کی مدد کرتے رہتے ہیں۔فرشتے بھی غیب ہیں دکھائی نہیں دیتے۔

(۳)    شیطان نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ کیا جو غلط تھا۔شیطان زمین پر بدی کا نمائندہ بن کر آیا۔ اس کا مقصد ہے انسان کو گمراہ کر کے جہنم کا حقدار بنانا۔کائنات کی ہر چیز تقدیر (Program)کی پابند ہے۔ اپنے ارادے او ر خواہش سے کچھ بھی نہیں کر سکتی ہے۔لیکن انسان کو یہ اختیار دیا کہ وہ اپنے ارادے ساے چاہے تو نیکی کی راہ اپنائے یا بدی کے راستے پر چلے۔یا تو اللہ کے حکم کا پابند بن کر رہے اور دنیا کی زندگی پوری کرنے کے بعد جنت میں چلاجائے یا شیطان کا پیروکار بن کر دنیا میں رہے اور مر کر جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ جلتا رہے۔انسان کا یہ دونوں انجام اُس کے اپنے ارادے اور عمل سے ہوتا ہے۔ اللہ نے دوسری مخلوق کی طرح اُس کو ارادے والے عمل سے محروم نہیں رکھا ہے۔
(۴)    شیطان نے اللہ کے حکم پر سجدہ کرنے سے انکار کیا۔نماز کا پابند ہونا اور اللہ کو سجدہ کرنا اللہ کا فرماں بردار ہونے کی پہچان ہے۔جو انسان اسلام کو اپنا دین بنا کر اپنے ایمان کا اعلان نہیں کرتا اور پانچ وقتوں کی نماز ادا کرکے سجدے کا خود کو پابند نہیں بناتا، وہ شیطان کی پیروی کرنے والا ہے جس نے اللہ کے حکم پر سجدہ کرنے سے انکارکر دیا تھا۔قرآن نے کہا ہے کہ سچے نمازی کی پہچان یہ ہے کہ اُس کی نماز اُس کو شیطان سے بچاتی ہے اور ہر برے اور گندے کام سے اُس کو روکتی ہے۔جو آدمی نماز پڑھنے کے بعد بھی گناہوں کے کام کرتا رہتا ہے وہ اصلی نہیں نقلی نمازی ہے جو مجرم ہے۔
(۵)    شیطان نے سجدہ نہیں کرنے کی وجہ بتائی کہ آدم مجھ سے کمتر ہے۔کمتر بہتر کو سجدہ کیسے کرے گا ؟  یہ طے کرنااللہ کا حق ہے کہ اُس کی مخلوق میں کون چھوٹااور نیچا ہے اور کون بڑااور اونچاہے۔شیطان نے خود کو اونچا بتا کر اللہ کا حق ہتھیانا چاہا جو سنگین جرم تھا۔اس جرم کے نتیجے میں وہ دربار الٰہی سے نکال باہر کیا گیا۔دنیا میں جو لوگ اپنے کو اونچا سمجھتے ہیں اور دوسروں کو نیچا سمجھتے ہیں وہ بھی شیطان کے ساتھی ہیں۔اس احساس کو غرور اور گھمنڈ کہتے ہیں۔ جس درخت میں پھل نہیں لگتا وہ لمبا تنا ہوا کھڑا رہتا ہے۔جس درخت میں پھل لگتے ہیں وہ پھلوں کے بوجھ سے جھک جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا میں جو اچھے لوگ ہیں وہ اپنی نیکیوں کے بوجھ سے جھکے ہوئے رہتے ہیں۔ہر ملنے والے سے انکساری اور عاجزی کے ساتھ ملتے ہیں۔لیکن جو لوگ نیک نہیں ہوتے ہیں وہ بے پھل والے درخت کی طرح اکڑ کر اور تن کر چلتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ اینٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔اللہ نے یہ ایسی کیفیت پیدا کی ہے جس سے کسی انسان کو دیکھ کر ہی اُس کے اچھے یا برے ہونے کی پہچان ہو جاتی ہے۔ کوئی نیک بننے یا کسی کو برا بنانے کا کتنا ہی جتن کرے،سمجھ دار انسان کسی کے طور طریقے کو دیکھ کر خود ہی فیصلہ کر لیتا ہے کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا۔اللہ غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(نحل:۳۲)
(۶)    شیطان دنیا میں آیا ہی انسان کو دنیا اور آخرت میں ناکام بنانے کے لئے۔شیطان انسان کا دوست کیسے ہو سکتا ہے ؟  جو لوگ اللہ کے فرماں بردار بن کر نہیں رہتے وہ لا محالہ شیطان کے ساتھی بن جاتے ہیں اور جانے انجانے میں شیطان کی پیروی کرتے رہتے ہیں۔اپنی حماقت، بدعقلی اور ناسمجھی سے شیطان کی پیروی کر کے اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ وبرباد کر لیتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے کہا گیا ہے:نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم:یعنی دنیا۔
(۷)    اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔(روم:۵۴)یہ آیت بتاتی ہے کہ جو لوگ اللہ کی فرماں برداری نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا ہے۔جو آدمی خود کو مسلمان بھی کہے اور اللہ کی نافرمانی بھی کرتا رہے وہ جھوٹا ہے۔جھوٹا انسان اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔اللہ کی رحمت سے محروم رہنے والا انسان دنیا میں نہ چین سے رہ سکتا ہے نہ خوش رہ سکتا ہے اور نہ ترقی کر سکتا ہے۔اُس کا انجام صرف اور صرف تباہی اور بربادی ہے۔
(۸)    اللہ فساد پھیلانے والوں کوہرگز پسند نہیں کرتا:(مائدہ:۴۶) فساد پھیلانے کا مطلب ہے کسی نظم میں خلل پیدا کرنا۔دنیا میں ہر کام کرنے کے لئے ایک نظم، قاعدہ قانون (System)بنایا جاتا ہے تاکہ کام آسانی سے ہو۔قاعدے قانون کی خلاف ورزی کرنا جرم اورگناہ کہلاتا ہے۔جو لوگ یہ جرم کرتے ہیں وہ اللہ کے پسندیدہ بندے کیسے ہو سکتے ہیں اور اُن کی دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں ؟
(۹)    اور خوب جان لو کہ ظالموں سے اللہ محبت نہیں رکھتا۔(آل عمران:۷۵)ظلم کا مطلب ہوتا ہے اپنے حق سے زیادہ لینا اور دوسرے کو اُس کے حق سے کم دینا۔کسی کو اُس کے حق سے محروم کر دینا اور کسی کا حق چھین لینا۔ایسے لوگوں کو دنیا بھی پسند نہیں کرتی ہے اور اللہ تو ان کو گنہگار بتاتا ہے۔ظلم کرنے والا اللہ کا محبوب کیسے بن سکتا ہے۔وہ تو شیطان کا ساتھی ہے۔ شیطان ایسے انسان سے خوش ہوتا ہے اور اُس کے ظلم میں ہر طرح کی مدد کرتا ہے۔ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیاکرتا:(آل عمران:۶۸) یعنی ظلم کرنے والا ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔وہ کبھی جنتی بن ہی نہیں سکتا ہے۔
(۰۱)    اللہ بے ایمانی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(انفال: ۸۵)بے ایمانی کا ایک مطلب ہوا ایمان سے محروم اور دوسرا مطلب ہوا لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف نہیں کرنے والا۔خیر خواہی اور ہمدردی نہیں کرنے والا۔اُ ن سے دشمنی کرنے والا۔ایسا آدمی بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہتا ہے۔
(۱۱)    اللہ ہرگزفاسق لوگوں سے راضی نہیں ہوگا۔(توبہ:۶۹)شریعت کی پیروی نہیں کرنے والے کو فاسق کہتے ہیں۔قرآن میں فاسق کافر کو کہتا ہے۔ اس بنیاد پر مسلمان بھی ہوتے ہوئے کافر ہی مانا جائے گا۔لیکن مسلمان کہنے کی رعایت کرتے ہوئے علما فاسق ایسے مسلمان کو کہنے لگے ہیں جو ہے تو مسلمان لیکن شریعت کی پابندی نہیں کرنے کی وجہ سے فاسق بن گیا ہے۔دراصل یہ صرف ایک پردہ ہے ورنہ فاسق کو مسلمان سمجھیں یا کافر رہتے ہوئے ایمان اور اسلام کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے انسان کو فاسق مسلمان کہیں۔دنیا میں انسان کے بنائے ہوئے قانون سے اللہ کا قانون نہیں بدل سکتا ہے۔جو مسلمان شریعت کا پابند نہیں ہے وہ اللہ کی نگاہ میں کافر ہے مسلم یا مومن نہیں ہے۔دنیا میں آپ اُس کو فاسق مسلمان سمجھتے رہئے، اس سے کیا ہوتا ہے۔
    قرآنی آیات کا یہ آئینہ اس لئے تیار کیا گیا ہے کہ ہر مسلمان اس آئینے میں اپنا چہرہ اور اپنی شخصیت کو دیکھ کر خود طے کرے کہ اُس کی جوچال چلن ہے اُس کا انجام دنیا میں اور آخرت میں کیا ہونے والا ہے۔ کسی مفتی سے فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر آدمی خود اپنا مفتی بھی ہے اور قاضی بھی۔اپنے لئے خود اپنے دل،دماغ اور ضمیر سے فتویٰ بھی لے اور فیصلہ بھی کرے۔
بے وفائی ہے خدا سے، دوستی شیطان سے-ہے یہ دانائی کہ نادانی کروخود فیصلہ
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

عید قرباں کے احکام و مسائل پر ایک دلچسپ مکالمہ

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات ___

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے