خون کے آنسو رو رہی ہیں دہلی کی تاریخی عمارتیں

یہ سب سوچتے ہوئے میں قطب کے احاطے میں پہنچ چکا تھا اور مسجد قوت الاسلام وقطب مینار کے زیر سایہ سلطان التمش کی قبر تک پہنچ گیا‘ جنہوں نے غلامی سے سلطنت تک کا راستہ طے کیا تھا‘ غریبی کو سمجھتا تھا‘ لہٰذاغریبوں کے کام بھی آتا تھا اور انصاف پر ور تھا‘ مگر یہ کیا؟ میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا‘ اس عظیم بادشاہ کی قبر پر بیٹھ کر ایک خاتون فوٹو کھنچوانے میں محو تھی کہ اچانک گارڈ نے آکر انہیں ہٹ جانے کو کہا۔ مسجد قوت الاسلام کی مخدوش دیواریں ماضی کی عظمت کی داستان بیان کر رہی تھیں‘ جنہیں سننے کے لئے ’’گوش ہوش‘‘ کی ضرورت ہے‘ کیونکہ
راہ کے نقش مسافر کا پتہ دیتے ہیں
کون کس شان سے گذرا ہے بتادیتے ہیں
مگر حال کو دیکھنے اور سمجھنے کے لئے درد سے لبریز دل کی ضرورت ہے۔ وہ مقام مقدس جہاں کبھی بندگان خدا کی پیشانیاں جھکتی تھیں‘ جہاں بڑے بڑے باجبر وت بادشاہوں سے لے کر گلیم پوش صوفیوں تک کے سرجھکتے تھے‘ اسی جگہ کو لوگ اپنے جوتوں سے روند رہے ہیں۔ نہ جانے کیسے کیسے لوگ گندی اور ناپاک چپلوں سے کبھی سجدہ گاہ رہی زمین کی حرمت کو پامال کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی مسجد کے کسی گوشے میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے سجدوں کے نشان ہوں گے‘ یہیں کہیں حضرت خواجہ غریب نواز ؒ نے اپنے سفر دہلی کے دوران عبادت کی ہوگی اور اس کی نورانیت آج بھی موجود ہوگی۔ دہلی کی اس اولین یادگار مسجد کی بے حرمتی دیکھ کر میں زیادہ دیر ٹھہر نہ پایا اورباہر آگیا۔
معجزاتی تالاب کی حالت زار
حوض شمسی کو کبھی معجزاتی تالاب سمجھا جاتا تھا۔ دلی جو کہ اس دور میں صرف مہرولی تک محدود تھی‘ اس کی پانی کی ضرورتیں اسی تالاب سے پوری ہوتی تھیں۔ اس کی کھدائی سلطان شمس الدین التمش نے کرائی تھی اور یہ بھی ان یادگاروں میں سے ہے‘ جسے اس شہر کے سب سے ابتدائی اسلامی دور کی یادگار کہاجاسکتا ہے۔ مؤرخین نے واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ پانی کی قلت سے عوام پریشان تھے ۔بادشاہ نے کئی مقام پر کنویں اور تالاب کھدوانے کی کوشش کی ‘مگر کہیں سے پانی نہیں نکلا۔اسی پریشانی کے عالم میں بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار ہوکر تشریف لائے ہیں اور گھوڑے نے جس مقام پر پیر مارا‘ وہاں سیپانی کا چشمہ ابل پڑا۔ نیند سے بیدار ہوکر بادشاہ اسی مقام پر آیا‘ جسے خواب میں دیکھاتھا‘ تووہاں حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ پہلے ہی سے یہ خواب دیکھ کر پہنچ چکے تھے۔ چنانچہ اسی مقام پر یہ شمسی تالاب کھودا گیا‘جو صدیوں تک اہل شہر کی پانی کی ضرورتیں پوری کرتا رہا۔ اس تالاب کا تدکرہ مشہور مراکشی سیاح ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں کیا ہے۔ تب یہ بہت وسیع وعریض تھا اور گرمی کے موسم میں جب اس کا پانی خشک ہوکر بہت تھوڑا سارہ جاتاتھا‘ تو لوگ خشک زمین پر کھیتیاں کرتے تھے۔ اب یہ سمٹ کر بہت چھوٹا ہوچکا ہے۔ آس پاس اونچی عمارتیں کھڑی ہیں‘ یقینی طور پر ان عمارتوں کی جگہ پر کبھی تالاب رہا ہوگا۔ یہ کوڑے‘ کچرو اور گندگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ دھوبی اس میں کپڑے دھوتے ہوئے نظرآتے ہیں اور اس کا پانی جو کبھی آب حیات کی مانند ہوا کرتاتھا‘ اب گندے نالے کا سڑا ہوا پانی لگتا ہے۔ خواب کے واقعے میں جس جگہ گھوڑے کے پیر سے چشمہ ابلا تھا‘ اس کی نشاندہی آج بھی موجود ہے۔حوض شمسی کے پاس کئی تاریخی عمارتیں موجود ہیں‘ مگر اپنی بربادی پر ماتم کناں ہیں۔ ان عمارتوں میں تاش کھیلنے والو ں کی محفلیں جمی رہتی ہیں۔ دیکھ بھال کرنے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ پہلے یہاں قبر ستان ہوا کرتا تھا‘ جو اب تقریباً ختم ہوچکا ہے۔
تاریخی عمارتوں میں رہائش
مہرولی کے علاقے میں قدم قدم پر تاریخی عمارتوں کی بھرمار ہے۔ یہاں اگر راستے میں پڑاہوا کوئی بھی نظرآتا ہے‘ تووہ تاریخ کے کسی نہ کسی دور کی داستان بیان کرتا ہے۔ میں نے چند بچوں کو ایک مقام پر کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے جس پتھر کو اسٹمپ کے طور پر استعمال کررکھا تھا وہ بھی کسی تاریخی عمارت کا لگ رہاتھا۔ اس کی شکل محرابی تھی اور کسی عمارت کی برجی جیسا دکھائی پڑتاتھا۔
دہلی میں بڑی تعداد میں تاریخی عمارتوں میں لوگوں نے رہائش اختیار کررکھی ہے۔ اس طرح کی بہت سی عمارتیں مہرولی میں نظرآئیں۔ حضرت مبارک غزنویؒ کے مزار کے پاس میں نے دیکھا کہ کئی گنبد لوگوں کی رہائش گاہ ہیں‘ ان کے اندر جانے کی کسی کو اجازت نہیں‘ مگر باہر سے یہ تاریخ کی کئی پرتیں کھول دیتے ہیں۔ تاریخی عمارتوں کے تحفظ اور دیکھ بھال کے لئے محکمہ آثار قدیمہ ہے‘ جسے آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا بھی کہاجاتا ہے۔ یہ محکمہ اپنی زیرنگرانی مسجدوں میں مسلمانوں کو نماز نہیں پڑھنے دیتا‘مگران میں رہائش اختیار کرنے سے لوگوں کو نہیں روکتا۔ اس کے لئے اے ایس آئی کے اڈیشنل ڈائریکٹر بی آرمنی کا کہنا ہے کہ ان عمارتوں میں لوگوں کی رہائش غیر قانونی قبضے کے دائرے میں نہیں آتی‘ کیونکہ یہ لوگ یہاں برسوں سے رہ رہے ہیں اورانہیں اپنی مرضی سے رہائش گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی دیکھ ریکھ دہلی اے ایس آئی کے ذمہ ہے‘ جو دیکھ بھال کر رہا ہے۔
تاریخی عمارتوں کا جنگل
مہرولی میں ہی تاریخی عمارتوں سے بھراہوا ایک جنگل ہے‘ جس پر اے ایس آئی کاقبضہ ہے اور اسے اے ایس آئی پارک کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس کے کچھ حصے کو سجا دیاگیا ہے اورسلیقے سے پیڑ پودے لگادئیے گئے ہیں‘ مگر بیشتر حصہ خار دار جنگلوں سے بھرا ہوا ہے‘ جس کے اندر اگر کسی سیاح نے داخل ہونے کی ہمت کرلی‘ تو کانٹوں سے زخمی ہوئے بغیر باہر آنا ممکن ہی نہیں۔ اس میں تاریخی اور ثقافتی لحاظسے اہم مسجد جمالی کمالی‘ مقبرہ غیاث الدین بلبن‘ مسجد راجوں کی باتیں‘ سمیت درجنوں چھوٹی بڑی عمارتیں ہیں‘ جو اپنی حالت پر ماتم کناں ہیں۔ اس کے اندر کی مسجدوں میں ہم نے سور اور کتوں کو ٹہلتے ہوئے دیکھا اور بعض مسجدوں میں لڑکے اور لڑکیوں کو بوس وکنار میں مصرف دیکھا۔ بعض تاریخی عمارتوں میں شراب کی بوتلیں اور دیگر واہیات چیزیں پڑی ہوئی نظرآئی‘ جو زبان حال سے بہت کچھ بتانے کے لئے کافی ہیں۔ یہ وہ مقدس عمارتیں ہیں ‘جو کبھی مسجدوں سے آباد رہاکرتی تھیں اور جہاں تلات قرآن اور ذکر واذکار کی صدائیں گونجا کرتی تھیں‘ مگر آج یہ عیاشیوں کے اڈے ہیں اور اگر مسلمان یہاں نماز شروع کردیں‘ تو اے ایس آئی کی غیرت فوراً جاگ اٹھتی ہے اور انہیں روکنے کے لئے پولس کی ٹکڑیاں تعینات کردی جاتی ہیں۔ اس جنگل میں ایک مسجد آباد نظرآئی‘ جس میں ایک دینی مدرسہ بھی چلتا ہے اور بچے تلاوت قرآن میں مصروف دکھائی دئیے۔ مجھے حیرت ہوئی۔ یہاں کے ایک استاد سے حقیقت حال جاننے کی کوشش کی۔ موصوف نے وہ درد بھری کہانی سنائی جس سے گذر کر اسے دوبارہ آباد کرنا ممکن ہوپایا۔ انہوں نے کہا اس جنگل میں جتنی عمارتیںآپ نے دیکھی ہیں‘ اس سے زیادہ موجود ہیں۔
عیاشی کی آماجگاہ
اے ایس آئی پارک کے پاس سے گزرنے والی سڑک گڑگاؤں (ہریانہ) کی طرف جاتی ہے اور سڑک کی دوسری جانب قلعہ رائے پتھورا کی دیوار کے باقیات ہیں۔ یہاں سے سید العجائب تک دیوار کے ساتھ ساتھ جنگل پھیلا ہوا ہے۔ یہ قلعہ تاریخی لحاظ سے بہت اہم تھا۔ کیونکہ یہاں پر تھوی راج چوہان سے پہلے پال خاندان کے راجاؤں کا قیام تھا اور بعد میں مسلم بادشاہوں نے یہیں قیام کیا تھا۔ سلطان غیاث الدین تغلق کے پوتے سلطان معزز الدین کیقباد نے اپنی راجدھانی یہاں سے کلوکری(مہارانی باغ سے پرانا قلعہ تک) منتقل کی۔ آج یہاں کے جنگل فحاشی اور جنسی آوارگی کے اڈے ہیں۔
مسجدوں کی ویرانی
دہلی کی بہت سی تاریخی مسجدیں آج اللہ اکبر کی صداؤں سے محروم ہیں اور بہت سی مسجدوں پر لوگوں نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ قبضہ شدہ مسجدوں کی تعداد1983 میں مرکزی حکومت نے 92 بتائی تھی۔ حالانکہ سبھی پرانی مسجدوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچتی ہے۔ دہلی پر مسلمانوں کی حکمرانی ساڑھے چھ سو سال سے زیادہ رہی‘ جس دوران مسلم بادشاہوں نے کئی شہر آباد کئے اور قلعوں کی تعمیر کی ۔ مہرولی‘ قلعہ سیری‘کلوکری‘تغلق آباد ‘ جہاں پناہ‘ فیروز پور‘خضرآباد‘ مبارک پور‘ دیں پناہ‘ شیر گڑھ‘ محمد آباد اور شاہجہاں آباد وہ معروف شہر ہیں۔ ان شہروں میں سلطانوں‘ امیروں ‘وزیروں‘ صوفیوں اور عام مسلمانوں نے ہزاروں مسجدیں تعمیر کیں‘ جن میں سے بیشتر آج صرف تاریخی تذکروں تک رہ گئی ہیں‘ جو چند مسجدیں موجود ہیں‘ ان میں نماز کی اجازت نہیں اور ان کی حرمت پامال کی جارہی ہے۔ ایسی بیشتر مسجدوں پر اے ایس آئی نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ دہلی کے آثار قدیمہ کے ماہر مولانا عطاء الرحمان قاسمی بجا طورپر سوال اٹھاتے ہیں’’تعجب ہے کہ ہندوستان میں کوئی مندر‘ کوئی گوردوارہ ‘ کوئی گرجا گھر محکمہ آثار قدیمہ کی وجہ سے بند نہیں ہے۔ بدقسمتی سے صرف مسلمانوں کی مسجدیں ہی بند ہیں۔حالانکہ بہت سے مندر‘گرودوارے اور گرجا گھر راجاؤں‘ مہاراجاؤں کے دور کے ہیں۔ ان کو بھی محکمہ آثار قدیمہ میں شامل کرناچاہئے اور ان کو بھی مذہبی رسومات کی ادائیگی پر پابندی عائد کرنی چاہئے‘‘۔
بہرحال مسلم عہد حکمرانی کی یادگاریں آج دانستہ طور پر برباد کی جارہی ہیں‘جس کے لئے حکومت اے ایس آئی ‘ ڈی ڈی اے اور وقف بورڈ اگر ذمہ دار ہیں‘ تو مسلمانوں کی بے حسی بھی ذمہ دار ہے‘ جو نہ تو ماضی کی تاریخی عظمت کی طرف دیکھنے کی فرصت رکھتے ہیں اور نہ مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں۔ وہ صرف حال میں جیتے ہیں اور اپنی حالت میں مگن ہیں۔

«
»

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

گوپال گڑھ کی صبح امن کب آئے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے