خون ایک سیال مادہ ہونے کی خاطر بہتے رہنا چاہتا ہے….بلکہ خارجی اثرات سے متاثر ہوکر کبھی ابل پڑنا چاہتا ہے، اس لئے خالق حقیقی نے اسے جسم کی قید میں رکھا ہے…جہاں حیوانات کو عقل سلیم سے مستشنی کر اس قید کو توڑنے کا اختیار دے رکھا ہے ، ونہیں انسان کے اختیار کوعقل سلیم کے تابع کر خون ناحق کے بہنے پر روک لگا رکھی ہے… اوراس بندھ کو توڑنے والے کو نا قابل معافی مجرم قرار دیا ہے…. سائینس کے مطابق خون کے اجزائے ترکیبی کی فہرست طویل ہے، گر چہ اس نے جسم کے مختلف اعضا کا متبادل پیش کر انسانیت کی بہترین خدمت انجام دی ہے، لیکن سائینس تمامتر عروج کے باوجود خون کا نعم البدل پیش کرنے میں ناکام رہی ہے…خون کی اہمیت سائینس میں اسقدر رہی ہے کہ اس کا برائے راست تعلق دل و جاں سے مانا جاتا ہے- خون انسان کے جسم میں تسلسل کے ساتھ ایسے ہی گردش کرتا رہتا ہے جیسے کسی محقق کے دماغ میں کلیہ ، کسی ادیب یا شاعر کے دماغ میں الفاظ یا کسی موسیقار کے دماغ میں دھنیں، اور اس گردش کا رک جانا موت کی علامت سمجھا جاتا ہے… سائینس کے مطابق خون کا دل سےمسلسل مصفا ہونا ثابت ہے ، اور جس پر جسما نی صحت کا سارا دارو مدار ہوتا ہے … افکارات جو ادب کی دین ہیں وہ بھی دل میں ہی مصفا ہوتے ہیں …جب خون اور افکارات مصفا ہوتے ہونگے تو دل کا عجب عالم ہوتا ہوگا !.. لیکن اگر دل ہی آلودہ ہو تو خون اور افکارات کی صفائی کب ممکن ہے .. اس لئے دل کے مصفا ہونے کا بھی کوئی علاج ضروری ہے ، جو دین فطرت میں موجود ہے اور جو جسما نی صحت ہو یا روحانی دونوں میں توازن چاہتا ہے ….
ادب ہو یا سائینس ، خون ہمیشہ سے ایک اہم موضوع رہا ہے …بلکہ اکثر و بیشتر اس موضوع کو لے کر معاشرہ لہو میں نہلایا گیا ہے…مورخ، محقق ، سائینسداں ہو یا ادبا سب کی خون سے خاص انسیت رہی ہے.. شعرا و ادبا نے لہو کا تذکرہ اسقدر اہتمام سے کیا ہے کہ تہذیب جدیدہ میں نسل نو نے "سیلفی” کا بھی نہیں کیا ہوگا…. میر و مرزا کے دور میں بھی عیش و عشرت کے ساتھ ساتھ خون پانی کی طرح بہایا گیا تھا … بلکہ اکثر دولت و خون کی ندیاں بہائی گئیں تھیں…یہ سلسلہ اب بھی جا ری ہے بس وقت و مقام بدلتے رہتے ہیں، اورکچھ کچھ انداز بھی ….ادب میں خوننابہ فشانی بھی کی گئی اور خامہ خونچکاں بھی ہوا.. دل لہو لہو ہوا اور خون آنکھوں میں بھی اتر آیا… میر نے تو دل کا خون کرکہا کہ …دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک…قطرۂ خوں تھا، مژہ پر جم رہا …. غالب نے کہا… خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ! … رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے….. اقبال نے بھی امیدوں کے چمن کی خون جگر سے آبیا ری کی اور کہا… پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا….. جگر کا خون دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں…..فانی خون سے کہاں مستشنی تھے، کہا… خون کے چھینٹوں سے کچھ پھولوں کے خاکے ہی سہی …. موسم گل آگیا، زنداں میں بیٹھے کیا کریں…. فراق و فیض بھی خون کی پکار پر چپ نہ رہ سکے اور کہا…. اب بھی اچھل رہا ہے لہو سا فضا میں کچھ….. دار و رسن پہ عشق کا قبضہ ہے آج بھی … اور فیض نے کہا کہ … کب جان لہو ہوگی، کب اشک گہر ہونگے؟……کس دن تری شنوا ئی، اے دیدہ تر ہوگی؟…الغرض ادب اور ادیب بھی خون کے تعلق سے مبرا نہ رہ سکے… خون کی کارستانیوں کا تذکرہ بھی برسبیل ہونا چاہیے…جب تک انسان کا ذہنی توازن قائم رہتا ہے یہ خوش اسلوبی سے اپنا کام کرتا رہتا ہے…انسان ذرا غیر متوازن ہوا کہ خون دباو میں آجاتا ہے اور اگر مسلسل جوار بھاٹا کا شکار ہورہا ہے تو انسان کا مختلف امراض میں مبتلا ہونا طے سہے ، بلکہ یہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے…اور اگر کبھی کھَولنے یا ابلنے پر آمادہ ہو جائے توانسان کو خونی بنا دیتا ہے… دوسروں کا خون بہا کر ہی اسکا ابال ختم ہوتا ہے… کبھی اسقدر بہتا ہے کہ قاتل و مقتول دونوں کی جان لے کر ہی دم لیتا ہے…..انسان اگر خونخوار ہوجائے تو الله کی پناہ کہ پھر اسے حیوان بنتے دیر نہیں لگتی… پھر خونی رشتوں کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی…. وہ لاکھ ترقی کر لے اور مہذب بن جائے لیکن اسے اپنا خون خون اور دوسروں کا خون پانی لگتا ہے ، اور اکثر سفید ہوتا نظر آتا ہے… اپنا خون پاک اور دوسروں کا ناپاک نظر آتا ہے…اپنا خون کھول کر خون کی ندیاں بہا دے تو اسے جذبۂ حب الوطنی کہا جاتا ہے ، یا جمہوریت کی بقا اور حقوق انسانی کا تحفظ، اور دوسرے بہا ئیں تو دہشت گردی کہا جاتا ہے….تہذیب جدیدہ نے پچھلی ایک صدی میں خوب جنگ و جدل کر انسانی خون بہایا، پھر مختلف سائینسی تحقیقات اور تجربات سے اسکی افادیت بھی واضح کردی ، اور اسے انسانی اجسام میں منتقل کرنے کا اہتمام کر کمال بھی کر دکھایا…مختلف امراض کی تحقیق اور علاج معالجہ کے لئے اسکا استعمال بھی خوب کیا…..پھر خون کے ذخائرجمع کر اسکی قدر و قیمت بھی واضح کردی ….سائینس، فلسفہ ہو یا ادب، سارے علوم اس بات پر متفق ہیں کہ خون خون ہوتا ہے اور اس کا کوئی متبادل اور نعم البدل نہیں ہوتا… لیکن انسانی خون آج بھی کہیں ارزاں ہے تو کہیں بیش بہا….
خون کی ایک بنیادی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ ازل تا ابد انسانی نسلوں کو مربوط کرنے کا وسیلہ بنتا آیا ہے …..اگر ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ خونی رشتوں کے سلسلوں کو جوڑا جائے تو وہ بالاخر ماضی میں ایک ایسے نقطہ پر پہنچ سکتا ہے جس کی بنا پر ہر انسان ایک دوسرے کا خونی رشتہ دار ہوجاتا ہے…تمام انسان ایک ماں کے ماں جائے ہوجاتے ہیں… مختلف رنگ و نسل، مذاق و مزاج ، ساخت و قدو قامت اور جغرافیا ئی اور ماحولیاتی تضاد کے باوجود انسان رشتۂ مواخات اور رحم کے رشتوں سے بری نہیں ہوسکتا.. انسان کے لئے دینی عقاید ہمیشہ سے تقویت کا باعث رہے ہیں کہ وہ ایک باپ آدم کی اولاد کہلاتا آیا ہے، لیکن ڈارون ازم نے سائینسی عقائد کے تحت جانوروں کو انسان کا باپ بنا کر پیش کردیا …اب لاکھ مہذب ہوجانے کے باوجود بھی یہ وہم انسان کے دل سے نہیں جاتا کہ وہ حیوان کی اولاد ہے ، اور وہ اکثر و بیشتر اپنے آپ کو حیوان بنا لیتا ہے….سائینس نے خون پر تحقیقات کر مختلف درجات اور کوڈ تو عطا کر دئے لیکن اس میں موجود لا تعداد اجزائے ترکیبی کی فہرست مکمل کرنے میں ناکام رہی..آج تک یہ بھی صحیح طور پر نہ جان سکی کہ ایک انسان کے خون کا کوڈ یا درجہ یا اسکے اوصاف اسکے ماں یا باپ کے خون سے مختلف کیوں ہوتے ہیں ، یا نسل در نسل خون میں ہونے والے رد و بدل میں تربیت، ماحول، مزاج اور تبدیلئ اعادات و اطوار و اخلاق کا کتنا عمل دخل ہوتا ہے…جبکہ ریاضی اور علم الطبیعات کے اصولوں کی بنیاد پر انسانی وجود کی ابتدا کا حساب کتاب کرلیا گیا ہے ، بلکہ کائینات کی ابتدا اور اختتام کا بھی، لیکن انسانی خون کے سامنے آج بھی سارے علوم بے بس نظر آتے ہیں …..ایک آدم کی اولاد سائینس کے عروج کے باوجود یہ جاننے سے قاصر ہے کہ سب ایک آدم کی اولاد ہیں ، ایک ماں حوا کے ماں جائے ہیں ، اور زمین کو خون آلود کر اب آسمان میں خون بہانے چلے ہیں…ڈارون نے اپنے کلیہ اور مقالہ سے انسانیت کے لئے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن یہ جرم ضرور کیا ہے کہ انسانی عقائد میں نقص پیدا کر سائینس کو یہ ثابت کرنے سے روک دیا کہ سارے انسان ماں جائے ہیں…ورنہ سائنس کے لئے ایسا کرنا بہت آسان تھا… سائینس کے لئے خون میں پائے جانے والے ڈی این اے سے یہ ثابت کرنا ناممکن نہیں تھا کہ سارے انسانوں کا خون، خون آدم ہی ہے جس کی تخلیق سلیم الفطرت طبع پر ہوئی ہے اور تہذیب کا اولین گہوارہ ماں حوا کا بطن ہی رہا ہے… جہاں سے انسان ماں کا خون چوس چوس کر انسانی ارتقا کی بنیاد رکھتا آیا ہے ، اور پھر ماں کا دودھ پی پی کر اور اسکی آغوش میں زبان و ذائقہ ، قوت باصرہ و سامعہ ، زبان و بیان سے بہرہ ور ہو کر اخلاق و تہذیب وتمدن کی بنیاد رکھتا آیا ہے … انسانی و تہذیبی ارتقا کا تسلسل اسی طرح چلتا آرہا ہے….اور اسی طرح اٹوٹ انسانی خونی رشتے کی ابتدا ہوتی ہے.. اسی خون میں پا ئے جانے والے اجزا کو سائینس مختلف طریقہ کار سے پرکھتی رہی ہے لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ خون کی کوڈنگ، اس کا ڈی این اے اور اسکے مختلف مدارج میں جو اوصاف ظاہر ہوتے ہیں ان کا جانوروں میں پایا جانا نا ممکن ہے…. قطعی نا ممکن …..
انسانی خون کو سمجھنے میں سائینس نے کوتا ہی کی ہے ورنہ ماہ و مریخ و زہرہ پر اپنے خون آلود قدم رکھنے سے پہلے انسان خونخواری کی عادت سے نجات پا جاتا…. اب پتہ نہیں انسانی خون کہاں کہاں تک پہنچے گا اور بہے گا اور انسان کب اپنے آپ کو حیوان کے بجا ئے اشرف المخلوقاّت سمجھے گا….. انسان کی سائینسی اور خلا ئی مہمات اگر تخریبی نہیں ہے اور تعمیری نیت پر مشمتل ہے تو پھر اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کیا زمین پر اخلاقی و حیاتیاتی تعمیرمکمل ہوچکی ہے….انکی تکمیل کے بعد بے شک اسکا خلا ئی مہمات و تحقیقات پر نکلنا مناسب بلکہ قابل ستائیش ہوگا ، جس سے انسانی تہذیبی ارتقا میں کامیابی کا احساس بھی ہوگا … لیکن عسکری اور مادیت پرستی کی مسابقت میں انسان ایسی مہمات پر نکلا ہے جس میں استحصال و استبداد اور استعماریت کی بو آتی ہے… خاص کر اس وقت نکلا ہے جب زمین پر انسان کا پیاس اور بھوک سے تڑپنا اب بھی باقی ہے..اور انسان خون رورہا ہے ….. ابھی زمین پر اور اس کے اندر موجود ضروریات زندگی کے سامان کا صحیح تخمینہ بھی نہیں لگایا گیا ہے…. اور اگر لگایا گیا ہے تو مذکورہ مسابقت کی نذر کردیا گیا ہے….. انسان آج بھی غریبی، بھوک پیاس ، قحط، سیلاب، اخلاقی انحطاط میں سڑتی ہوئی زندہ لاشوں کا علاج کرنے سے قاصر ہے، مختلف زمینی تحقیقات سے پیدا شدہ امراض سے بر سر پیکار انسانیت کا ابھی وہ خاطر خواہ علاج کرنے کے قابل بھی نہیں ہوا ہے… ابھی علم الکیمیا اور علم الطبیعات اس مقام پر ہی نہیں پہنچے جہاں سے وہ انسان کو ان تکالیف سے نجات دلاتے جو خود انہیں علوم کی ناکامیوں سے پیدا ہوئی ہیں… جن میں نیو کلیائی مادوں کے علاوہ وہ دوائیاں بھی ہیں جو بے شک انسانی بھلائی کی نیت سے ایجاد کی گیں تھیں لیکن نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں …. اور اس کے پس پشت چند انسانوں کی حرص و طمع اور لا پرواہیوں کا ہاتھ رہا ہے… الغرض سائینس کے نام پر انسانی خون کے ساتھ کوتاہیاں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں …انسانی خون ارزاں ہورہا ہے ….سائینس نے انسانی نفسیات کو موضوع ضرور بنایا لیکن اخلاقیات کو اپنا موضوع نہیں بنایا ورنہ اسے پتہ چل جاتا کہ انسان کے خون میں حیوانیت نہیں پا ئی جا تی … انسانی خون خون ہوتا ہے اور اسے یوں بہتے نہیں دیکھا جاسکتا …. سائینس ، ادب، فلسفہ یا دین جس کسی کے پاس اس کا علاج ہو اب اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے .. اور یہ علاج کس کے پاس ہے یہ مہذب انسان کے علاوہ بھلا اور کون جان سکتا ہے..فطرت میں غور و خوض کرنے والا مہذب و ماہر اور تعلیم یافتہ انسان بے شک جانتا اور سمجھتا ہے کہ فطرت کیا ہے ، نظام فطرت کا کیا ہے اور دین فطرت کیا ہے …..اسے بس خون ناحق کو بہنے سے بچانا ہے ….اس کے لئے اسے تعصب کی عینک اتار نی ہوگی اور دین فطرت کو اپنانا ہوگا … ورنہ انسانی خون نا حق یوں ہی بہتا رہے گا …
جواب دیں