داعش کے تعلق سے جو خبریں آرہی ہیں ان میں کتنی سچ ہیں اور کتنی اسلام دشمن مغربی میڈیا کی اختراع؟یہ سوالات اہم ہیں اور ان کا جواب تب ہی ٹھیک ٹھیک دیا جاسکتا ہے جب عراق و شام کے محاذ جنگ سے آنے والی خبریں آزاد ذرائع سے آئیں اورایمانداری سے ان کا تجزیہ کیا جائے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ داعش جو خود کواسلام دشمنوں کا دشمن کہتا ہے،اس نے مسلمانوں کے خلاف ہی محاذ جنگ کھول رکھا ہے، تو کبھی میڈیا بتاتا ہے کہ اس نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں غیرمسلموں پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ عام مسلمانوں کی بات کریں تو ایک طبقہ اگر داعش کی مخالفت کر تا ہے تو دوسرا طبقہ اسے مسلمانوں کا نجات دہندہ اور دشمنان اسلام کے خلاف شمشیر برہنہ سمجھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جہاں ایک طرف بعض علماء کی طرف سے اس کے خلاف فتوے آرہے ہیں وہیں عراق و شام کے ان جنگ جووں کے دوش بدوش مغرب کے پروردہ گورے نو مسلم بھی جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ انھیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کچھ مفتیوں نے داعش کو اسلام دشمن قرار دیا ہے اور اس کے احکام کو اسلام کے خلاف بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام فتوے سرکاری مفتیوں کے ہیں جو اسلام نہیں اپنی حکومت کے مفادات کے نگہبان ہیں۔ ان کے اس خیال کو مکمل طور پر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بہر حال ایسے مفتیوں کی کوئی کمی نہیں جنھوں نے داعش کے خلاف فتوے جاری کئے ہیں اور اس کی حرکتوں کو اسلام کے خلاف قرار دیا ہے۔ ان میں سعودی عرب کے سرکاری مفتی شیخ عبدالعزیز الشیخ، مصر کی حکومت کے ماتحت الازہر یونیورسیٹی (قاہرہ) کے مفتی شوقی علام ،ترکی کے ایک اسکالر محمد گورمیزاور امریکہ و یوروپ کی کچھ مسلم تنظیمیں اورشیعہ وسنی علماء شامل ہیں۔ حالانکہ عالم اسلام کے عام علماء کی طرف سے اب تک خاموشی دیکھی جارہی ہے اور وہ کچھ بھی کہنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ادھر کچھ دن پہلے یہ خبر بھی آئی تھی کہ اسلامی علوم کے مرکز ندوۃ العلماء (لکھنو)کے ایک عالم دین نے داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کی تائید کی ہے۔
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا
سعودی عرب جس کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ شدت پسندوں کی حمایت کرتا ہے اور انھیں مالی مدد فراہم کرتا ہے وہ ان دنوں داعش کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ داعش نے امریکہ نواز سعودی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ جس اسلامی خلافت کے احیاء کی بات کررہا ہے اس کا مرکز مدینہ منورہ ہوگا۔ وہ پورے عرب کے حکمرانوں کو امریکی پٹھو سمجھتے ہیں اور ان کے حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس اعلان نے سعودی حکمرانوں پر لرزہ طاری کردیا ہے اور ان کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔ اس نے اپنی پوری مشنری کو داعش کے خلاف جنگ پر لگادیا ہے۔ جن سرکاری علماء نے داعش اور اس کے خلیفہ کی مخالفت میں فتوے جاری کئے ہیں ان میں سعودی عرب حکومت کے سب سے بڑے مفتی شیخ عبدالعزیز الشیخ کا فتویٰ بھی شامل ہے ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ القاعدہ اور داعش اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں اور ان کی حرکتیں کسی بھی طرح سے اسلامی تعلیمات کے موافق نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ انتہا پسندی اور جنگ جوئیت اس دنیا کے لئے ہلاکت خیز ہیں اور اس سے انسانیت تباہ ہوتی ہے اور یہ سب کسی بھی طرح سے اسلام کا حصہ نہیں ہے۔ سعودی مفتی نے اس سے قبل اپنے ایک بیان میں انتہا پسندی کو خارجیت کے مماثل قرار دیا تھا جو عہد نبوت کے بعد ظاہر ہوئی تھی اور جس نے خلیفہ اسلام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جان لے لی تھی۔
غور طلب ہے کہ سعودی عرب ابتدا میں داعش کے حامیوں میں شامل تھا لیکن یہ تب تک تھا جب تک کہ وہ شام کے صدر بشر الاسد کے خلاف لڑ رہے تھے مگر اب جب سے ان کی لڑائی امریکہ ،مغربی ممالک اور عرب حکمرانوں کے خلاف شروع ہوئی ،انھیں سعودی عرب انھیں اپنے لئے خطرہ ماننے لگا ہے۔حالانکہ داعش کو ہتھیار اور روپئے سے مدد کرنے والوں میں امریکہ اور سعودی عرب وغیرہ شامل تھے اور انھیں کی مدد سے وہ آج اس مقام تک پہنچا ہے کہ خود ان کے لئے خطرہ بن جائے۔ سعودی سرکاری مفتی کے فتوے پر نیوز ایجنسی رائٹر کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف فتوے جاری کرانے والی سعودی عرب سرکار خود ہی انتہا پسند وہابی ہے اور اس نے اسلام کے نام پر سخت قوانین کے ذریعے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی عائد ہے ۔یہاں شیعہ مسلمانوں کو اپنی پہچان چھپانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور وہ اپنے طریقے کے مطابق مذہبی ارکان کی ادائیگی بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ رائٹر کی خبر کے مطابق سعودی عرب کے ہزاروں نوجوان اس وقت داعش میں شا مل ہو کر امریکہ اور اس کے عرب پٹھووں سے جنگ کرنے کے لئے بے چین ہیں۔
داعش کے خلاف مصری سرکار میدان میں
سعودی عرب کے سرکاری مفتی کے بعد مصر کے سرکاری مفتی نے بھی داعش کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے اور اس کی حرکتوں کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔عالم اسلامی کی مشہور یونیورسیٹی الازہر (قاہرہ) کے مفتی اعظم ابراہیم نعم نے تو باقاعدہ انٹرنیٹ پر اس کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے اور فیس بک کے ذریعے بھی داعش کے خلاف ماحول تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں العربیہ ٹی وی چینل پر آکر عام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ داعش کی مخالفت کریں کیونکہ وہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف اقدام کر رہا ہے۔ مصر کے ہی ایک دوسرے سرکاری مفتی شوقی علام نے بھی ایک بیان جاری کرکے داعش کے جنگ جووں کو دہشت گرد قرار دیا ہے اور ان کی انتہا پسندی و تشدد کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے داعش کی حرکتوں کو اسلام کے خلاف بتایا اور کہا کہ اس سے اسلام کی شبیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف عالمی اور مقامی سطح پر لڑنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ترک عالم کا فتویٰ
ترکی حکومت کے مذہبی امور کے ڈائرکٹر محمد گورمیزبھی ان علماء میں شامل ہین جنھوں نے داعش کی مذمت کی ہے۔ ان کے مطابق خلافت کے اعلان اور خلیفہ مقرر کئے جانے سے اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ غور طلب ہے کہ موصوف جس ادارۂ مذہبی امور کے ڈائرکٹر ہیں اس کا قیام اس وقت ہوا تھا جب ترکی میں عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا تھا اور ترکی کو ایک انتہا پسند سیکولر اسٹیٹ قرار دیا گیا تھا۔ گورمیز کے مطابق عیسائیوں اور دوسرے غیرمسلم طبقوں کو تبدیلی مذہب کا حکم دینا یا پھر موت کے گھات اتارنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
امریکہ ۔ایران بھائی بھائی؟
داعش کے خلاف پورا مغرب متحد ہوچکا ہے اور عرب کے حکمرانوں کو بھی ان کے اندر خطرہ محسوس ہورہا ہے اس لئے سبھی مل کر جنگ کر رہے ہیں ۔ ادھر عراق میں سرکاری اور غیر سرکاری طور زبردست اتھل پتھل جاری ہے اور اس سے عوام کے ساتھ ساتھ علماء بھی متاثر ہورہے ہیں۔ عراق کے بڑے شیعہ علماء میں سے ایک آیت اللہ علی سیستانی نے شیعوں سے اپیل کی ہے کہ وہ داعش کے خلاف ہتھیار اٹھائیں اور جنگ کریں ۔ انھوں نے اسے مسلمان کے خلاف مسلمان کی لڑائی قرار دینے سے انکار کیا اور کہا کہ شیعہ مسلمانوں کاداعش کے جنگ جووں کے خلاف ہتھیار اٹھانا جائز ہے۔ غور طلب ہے کہ عراق کی موجودہ حکومت خالص شیعہ سیاست دانوں پر مشتمل ہے جس کے خلاف داعش نے جنگ شروع کی تھی اور اسے بڑی تعداد میں مقامی سنیوں کی حمایت ملی تھی۔ اس طرح سے عراق میں اسے شیعہ۔سنی جنگ کی شکل میں بھی دیکھا گیا تھا۔ ایران سرکار جو کہ ہمیشہ شیعہ، سنی اتحاد کی علمبردار رہی ہے اس نے بھی اپنے دیرینہ حریف امریکہ اور یوروپی طاقتوں سے ان جنگ جووں کے خلاف ہاتھ ملا لیا ہے۔ اس پس منظر میں آیت اللہ سیستانی کے فتوے کی الگ اہمیت ہے۔
داعش کی مخالفت اور حمایت
داعش کی مخالفت کرنے والوں میں رابطہ عالم اسلامی کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ واضح ہوکہ اس عالمی ادارے میں ۵۷ مسلم ممالک شامل ہیں مگر سب نے اس کی مذمت نہیں کی ہے۔ یونہی انگلینڈ کے ایک سو شیعہ وسنی اماموں نے اس کے خلاف آواز بلند کیا ہے۔ امریکہ کی ایک مسلم تنظیم The Council on American-Islamic Relations(CAIR)نے داعش کے احکام کو حقوق انسانی کے خلاف قرار دیتے ہوئے ، مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کے خلاف متحد ہوں۔ ان تنظیموں اور علماء کے علاوہ بھی مسلمانوں کے اندر سے داعش کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے مگر عام مسلمانوں کے اندر کوئی بڑا ردعمل نہیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ان سے صرف اس لئے ہمدردی رکھتا ہے کہ یہ لوگ امریکہ اور مغرب کی استعماری اور مسلم دشمن قوتوں کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں ہی سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ میڈیا میں جو کچھ آرہا ہے وہ کتنا درست ہے؟ لوگوں نے پہلے بھی دیکھا ہے کہ طالبان یا صدام حسین کے خلاف میڈیا جھوٹ بولتا رہا ہے۔ مغرب کے مسلمانوں میں ایک بڑا طبقہ داعش کی حمایت میں آرہا ہے اور گورے جنگ جووں میں سے بعض محاذ جنگ پر پہنچ چکے ہیں۔ عرب ملکوں میں اپنے حکمرانوں کے خلاف بے چینی پائی جاتی ہے اور یہاں کے عوام کا ایک طبقہ داعش سے نہ صرف ہمدردی رکھتا ہے بلکہ ہزاروں مسلم نوجوان جنگ میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عرب حکمراں عوام کے تیور سے خوفزدہ ہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے داعش کے بارے میں جانکاریاں حاصل کر رہے ہیں اور اس میں شامل ہورہے ہیں مگر عرب ممالک میں شیعہ مسلمانوں کی بھی آبادی چالیس فیصد کے آس پاس ہے جو اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور خوفزدہ ہیں۔وہ امریکہ اور یوروپ کے مخالف ضرور ہیں مگر جنگ جووں کا شدت پسندانہ مذہبی رویہ انھیں دہشت میں مبتلا کر رہا ہے۔ایسے میں عوام کا ایک بڑا طبقہ جب ان کا مخالف ہوتو ان کی کامیابی مشکوک ہوجاتی ہے۔
(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور رائٹر ہیں)
جواب دیں