خدمتِ خلق ،ایمان کا تقاضا

 شمس الہدی قاسمی
سکریٹری حافظ شجاعت فیض عام چیریٹیبل ٹرسٹ 

    قرآن مجید اوررسول اکرم ﷺ کی تعلیمات وسیرت نے سکھایا ہے کہ سب سے اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اورکسی کو تکلیف نہ دے۔غریبوں ، مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرے، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج وغم سے پاک کرنے کو کوشش کرے ،چند لمحوں کیلئے ہی سہی، انہیں فرحت ومسرت اورشادمانی فراہم کرکے ان کے درد والم اورحزن وملال کو ہلکا کرے۔ انہیں اگر مدد کی ضرورت ہوتو ان کی مدد کرے اوراگر وہ کچھ نہ کرسکتاہو تو کم ازکم ان کے ساتھ میٹھی بات کرکے ہی ان کے تفکرات کو دور کرے۔ اللہ کے پیارے حبیبﷺنے ارشاد فرمایا ہے :
     ’’بہترین انسان وہ ہے جودوسرے انسانوں کے لئے نافع ومفید ہو۔‘‘
    جب انسان کسی انسان کی مدد وحاجت روائی کرتاہے تو فطری طور پر دونوں کے درمیان اخوت وبھائی چارگی کے جذبات پیدا ہوتے اورالفت ومحبت پروان چڑھنے لگتے ہیں۔آپﷺ کا ارشاد پاک ہے:’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ،تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا یہاںتک کہ اپنے دوسرے بھائیوں کیلئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے۔‘‘(بخاری)۔
     خدمتِ خلقِ خدا کے عام معنیٰ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔خدمت خلقِ خدا محبت الہٰی کا تقاضا،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے۔ صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں بلکہ کسی کی کفالت کرنا،کسی کو تعلیم دینا،مفید مشورہ دینا، کوئی ہنر سکھانا،علمی سرپرستی کرنا،تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرنا،کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔
    انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اس لئے سماج سے الگ ہٹ کرزندگی نہیں گزارسکتا۔اس کے تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجود ہے۔ مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے، اس لئے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کیلئے آپسی تعاون،ہمدردی،خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے۔مذہب اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علمبردار ہے،اس لئے مذہب اسلام نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو،سماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے،اپنے آرام کو قربان کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کریں۔
    قارئین کرام! نماز کے قیام کے ساتھ قرآن مجید فرقان حمید میں زکوٰۃ اور صدقات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کثرت سے فرمایا ہے۔ زکوٰۃ، صدقات اور لوگوں کو کھلانا پلانا اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے مقبول عمل ہے۔ یاد رہے، موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر ذی روح نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔ موت چونکہ اس دنیا سے خاتمے اور دوسرے جہاں میں مستقل منتقل ہوجانے کا نام ہے لہٰذا موت کے بعد کوئی بھی ذی روح نیا فعل سرانجام نہیں دے سکتا، جس کا اسے ثواب ملے۔ ہاں اس کی زندگی میں دیا جانے والا صدقہ جاریہ، نیک اولاد، اللہ تعالیٰ کو دیا گیا قرضہ حسنہ اور فلاحی و رفاعی کام ہی جو اس نے زندگی بھر سرانجام دیے ہیں، اس کے لیے ثواب اور نجات کا مسلسل باعث بنتے رہیں گے، جیسا کہ قرآن مجید فرقان حمیدکی سورہ یٰسین،آیت48

«
»

عیادت کی اہمیت حدیث کی روشنی میں

کیا ہے ’صدی کی ڈیل‘؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے