بصریاتopticsپروہ غیر معمولی تحقیقی کام نہ کیا ہوتا جو بعد میں راجربیکن کی تحقیق کی بنیاد بنا اور پھر بیسویں صدی کی میزائل ٹکنالوجی کی خشت اول ثابت ہوا۔ ہر قسم کی میزائل ٹکنالوجی بصریات کے انہیں اصولوں پر مبنی ہے جن کی دریافت کا سہرا ابتداً الکندیؔ اور بالخصوص اَلْہَیثَمْ کے سر ہے۔ اَلْہَیثَمْ کا استقرائی، تجربی اور ریاضیاتی اسلوب نہ صرف بصریات بلکہ جدید سائنس کا سنگ بنیاد قرار پایا جس نے انکشافات اور ایجادات کے متعدد دروازے کھول دیے(1)
الکندیؔ کی وفات 254ھ مطابق 873ء میں ہوئی اور اَلْہَیثَمْ کا سن وفات 430ھ مطابق 1021ء ہے۔ ہمارے اور اَلْہَیثَمْ کے درمیان تقریباً ایک ہزار سال کا فاصلہ ہے۔ابتدا ے اسلام سے 4سو سال تک کا زمانہ عربوں کی تہذیبی ثقافتی سیاسی، سائنسی اور علمی ترقی کی معراج کا زمانہ ہے۔ اس کے بعد انحطاط کا دور شروع ہوا۔ لیکن وہ بھی 5سوسال تک جاری رہا یہاں تک کہ سقوط ہسپانیہ پر علمی عروج و انحطاط کا وہ باب بھی بند ہوگیا۔ پھر 1857ء تک برصغیر میں اور 1925ء تک ترکی میں جو کچھ بچا کھچا تہذیبی وسیاسی ورثہ باقی رہا تھا وہ بھی تمام ہوگیا۔
آج ہم مکمل طورپر دور زوال میں جی رہے ہیں اور ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والا معاملہ ہے۔ نتیجے میں صنعتی انقلاب آیا تو اس میں ہمارا کوئی حصہ نہ تھا بلکہ اس نے سب سے زیادہ جس کی جڑیں کاٹیں، جنھیں بے دست و پا بنایا، جن کی صنعت و حرفت کا جنازہ نکال دیا اور جن کی ترقی کے مقبرے پر صنعتی انقلاب کی عمارت تعمیر ہوئی۔ وہ ہم ہی تھے!
صنعتی انقلاب نے تکنیکی انقلاب کو جنم دیا تو اس میں بھی ہمارا مقام محض دور سے نظارہ کرنے والوں میں رہا۔ خلائی تکنالوجی کی ترقی میں بھی ہم ایران اور ARAB-SAT کے سواکوئی اور قابل ذکر بڑا یوگدان نہیں کر سکے اور آج جب انفارمیشن ٹکنالوجی کی چھلانگ کے نتیجے میں مواصلاتی انقلاب آیا ہوا ہے تو ایک طرف تو ہمیں ہمارے فرضِ منصبی سے ہٹا کر انفارمیشن ٹکنالوجی کی چوہا دوڑ میں مصروف کردیا گیا ہے تو دوسری طرف مواصلاتی انقلاب کے منفی رُخ کی ہولناکی ہمارے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ امت کو سیکولرائزکرنے کے لیے عصر حاضر کے ہر جدید صنعتی وتکنیکی انقلاب کی طرح مواصلاتی انقلاب کا استعمال بھی بھرپور طریقے سے کیا جارہا ہے او رہمارے پاس بظاہر اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم صرف اپنے بچاؤ کی فکر میں غلطاں رہیں۔
ہم عصر مفکر جناب اسرار عالَم کے بقول’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ کے نفاذ کے بعد یہودیت اس خطرناک راہ پر چل پڑی ہے جہاں وہ اب جبرو استبداد کا سہارا لے کر کسی خطے یا ملک میں نہیں بلکہ پوری امت کو بیک وقت ایک مرکز سے سیکولرائز کرنے کا ارادہ رکھتی ہے‘‘(2)اور اس کے لیے مواصلاتی انقلاب کو مرکز بنا کر اس کا بھر پور استعمال گزشتہ پچیس برسوں سے جاری ہے۔
’’یہودیت باوجود سارے جتن کرنے کے اسلام اور مسلمانوں کو مکمل طورپر،صدفی صد سیکولرائز کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب اس پر جھنجلاہٹ بلکہ ہذیانی کیفیت طاری ہوچکی ہے۔ اس کے قویٰ ٹوٹ رہے ہیں اور وہ پاگل ہورہی ہے اندیشہ ہے کہ ’ہرہذیانی کیفیت میں مبتلا انسان کی طرح یہ قوم بھی امت مسلمہ کے خلاف ہیبت ناک سے ہیبت ناک اقدام کرسکتی ہے(3)
ہر مغربی انقلاب کی طرح مواصلاتی انقلاب کی جڑیں شاخیں اور گل بوٹے سبھی صہیونیت کے مرہونِ منت ہیں اور ’’یہودی بنیادی طورپر اب شیطان کے جارحہ کے حیثیت سے کام کر رہے ہیں اور ان کا مشن ربّانی نظام کو منہدم کرکے اُس کی جگہ شیطانی نظام نافذ کرنا ہے…….چنانچہ جنگ خلیج دوم ختم ہوتے ہی ’نیوورلڈ آرڈر‘ کا اعلان کر دیا گیا تھاجس کے تحت ریاست ہاے متحدہ امریکہ کی قوت قاہرہ اور نافذہ کے ساتھ’قابل برداشت ترقی‘The Sustainable Growth Or Development کے کاموں کاآغاز ہوا جسے دنیا’ماحول اور ترقی کے ریواعلامیہ‘ The RIO Deelaration On Environment and Developmentکے نام سے جانتی ہے۔ امت مسلمہ کی مُعتَدْبہ تعداد کو خواہ اس وقت یہودیوں کے منصوبوں اور ’قابل برداشت سوسائٹی Sustainable Societyکے قیام کا علم ہویا نہ ہو لیکن یہودی اسے بخوبی جانتے ہیں کہ دیر یا سویر جب انہیں اس کا علم ہوگا تو وہ اس کو کلی طورپر قبول کرنا تو درکنار وہ اس کے کسی جزو سے بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور بالآخر ان کی مزاحمت علانیہ ٹکراؤ کی صورت اختیار کرلے گی…..(4)
مواصلاتی انقلاب کیا ہے؟آج 2013میں اس بارے میں تفصیل سے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ شاید ہی قارئین میں سے کوئی ایسا ہو جو اس کے بارے میں بنیادی معلومات نہ رکھتا ہو۔ کیبل ٹی وی، ڈش انٹینا، سیٹلائٹ (مصنوعی سیارچوں سے) کنٹرول ہونے والے ٹی وی ، سیلولرفون کا نظام اور انٹر نٹ فیس بک اور ٹوئیٹر وغیرہ اس انقلاب کے مظاہر ہیں۔ سیٹلائٹ سے کنٹرول ہونے والے 24گھنٹے چلنے والے اور سیکڑوں چینلوں والے ٹی وی اور انٹر نٹ کے ذریعے بے حیائی ، عریانیت اور فحاشی کو گھرگھرپہنچایا جا چکا ہے اور پوری دنیا کو بالعموم اور امت مسلمہ کو بطور خاص سیکولرائز بنانے کی کوششیں آخری مرحلے میں ہیں۔ تعلیم کا بھگواکرن، اسلام کا بھارتیہ کرن، اور مکھیہ راشٹریہ دھارا اور انتر راشٹریہ مکھیہ دھارا وغیرہ الگ الگ اصطلاحوں میں جو بات کہی جاتی ہے سیکولرائزیشن اور مودتوائزیشن اُن سب پر محیط ہے۔
اگست 2001میں جاری یو این ڈی پیUnited Nations Development Programmeکی رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ اب ہمیں دنیا سے غریبی مٹانے کا گرومنتر حاصل ہوگیا ہے اور وہ منتر ہے: انفارمیشن ٹکنالوجی!لہٰذا تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو چاہیے کہ بس وہ آنکھ بند کرکے مواصلاتی انقلاب کی اس بین الاقوامی مکھیہ دھارا میں شامل ہو جائیں اُن کے سارے دَلِدَّر دور ہو جائیں گے۔اور پوری دنیا آمنّا و صدّقنا کہہ کر آئی ٹی کشتی میں سوار ہوگئی۔
سوال یہ ہے کہ ٹکنالوجی کا انقلاب تو بیسویں صدی ہی میں آچکا تھا۔ انفارمیشن ٹکنالوجی نَینوNANOٹکنالوجی اور بایو ٹکنالوجی یا ’جینیٹک انجینئرنگ تو اسی Technological Revolutionکی شاخیں ہیں جواب اتنی پھیل گئی ہیں کہ ہر دوسری ٹکنالوجی ان کے زیر نگیں آگئی ہے یا ان کے معاون و مددگار بن گئی ہے۔ تو کیا ٹکنالوجی کا انقلاب دنیا سے غریبی کو مٹا سکا؟
کیا صنعتی انقلاب اور پھر ٹکنالوجی کی ترقی نے امیروں کو اور زیادہ امیر اور غریبوں کو اور زیادہ غریب نہیں بنایا؟
تو اگر صنعتی انقلاب اور ٹکنالوجی کا انقلاب دنیا سے غریبی ختم نہیں کر سکا تو محض مواصلاتی انقلاب یا بایوٹکنالوجی کا انقلاب بھلا یہ کارنامہ کیسے انجام دیتا ؟۔نتیجہ جو کچھ بھی ہے آج ہمارے سامنے ہے۔
جواب دیں