کئی بار تو لڑکیاں جہیز کے لئے مول بھاؤ کو دیکھ کر اور اپنے ماں باپ کی ذلت وپریشانی سے تنگ آکر اسی میں عافیت سمجھتی ہیں کہ شادی سے پہلے جان دیدیں ۲۰سال پہلے ایک ایسا ہی سنسنی خیز واقعہ کانپور میں ہوچکا ہے کہ ۳ بہنوں نے گلے میں پھانسی لگاکر ایک ساتھ خود کشی کرلی تھی اور اس طرح اپنے ماں باپ کو جہیز کی فراہمی ، دولہا والوں کے مطالبات اور صبح وشام کی منہ دکھائی پریڈ سے چھٹکارہ دلادیا تھا۔ ایسی ہی خبریں ملک کے مختلف علاقوں سے ملتی رہتی ہیں کچھ عرصہ پہلے بالا گھاٹ ضلع میں ایک سپاہی کی چار بیٹیوں نے اجتماعی خودکشی کرلی تھی کیونکہ بالغ ہونے کے باوجود ان کے ماں باپ کے پاس جہیز کی ادائیگی کے لئے سرمایہ نہیں تھا ۔ بڑے شہروں میں آئے دن سسرال کے مظالم سے تنگ آکر خودکشی کرنے یا سسرال والوں کے ہاتھوں نذر آتش ہونے کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔
اور اس طرح کے المناک واقعات سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے عورت ذات خاص طور پر لڑکیوں پر سماج کا ظلم کس حد تک بڑھ چکا ہے کہ وہ زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ کئی والدین نے تو اس کا دوسرا علاج تلاش کرلیا ہے وہ دوران حمل ماں کے رحم کا ٹیسٹ کراکر معلوم کرلیتے ہیں کہ اس کی کوکھ میں لڑکا پل رہا ہے یا لڑکی۔ اگر لڑکا ہوتا ہے تو اسے بخوبی قبول کرلیا جاتا ہے ورنہ لڑکی ہونے کی صورت میں اس حمل کو ضائع کرکے صنفِ نازک کی نسل کشی کردی جاتی ہے تاکہ اس کے پالنے پوسنے، لکھانے، پڑھانے اور شادی وجہیز کے اخراجات سے وہ محفوظ رہ سکیں۔ اسی لئے ملک میں لڑکیوں کی شرح پیدائش دن بدن گھٹتی جارہی ہے۔
راجستھان کے کئی گھرانوں کے بارے میں اخبارات میں جو اطلاعات شائع ہوتی رہی ہیں ان سے انکشاف ہوتا ہے کہ برسیں گزرگئیں وہاں کسی نے لڑکی کو پرورش پاتے نہیں دیکھا کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ اس خاندان میں جو لڑکی پیداہوتی ہے تو اسے پیدائش کے فوراً بعد ختم کردیاجاتا ہے۔
غالباً دنیا میں ہمارا ملک ایک واحد مثال ہے جہاں برسوں بلکہ صدیوں سے عورت پر یہ ظلم وستم ہورہے ہیں کبھی ستی کی صورت میں زندہ جلا کر، کبھی پیدا ہوتے ہی گلا دبا کر اور کبھی بیوہ ہوتے ہی اس کا سر مونڈ کر زندہ درگور کردیا جاتا ہے۔ اور یہ وحشت وبربریت دن بدن بڑھتی جارہی ہے مگر اس کے خلاف زبانی تقریروں اور قلمی تحریروں کا تو کافی رواج ہے۔ عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں اور جس طرح یہ بھی عورتیں مظالم کا شکار ہورہی ہیں ان کا سختی سے مقابلہ کیاجائے جیسا کہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے اپنی ایک قرار داد میں ایسے مجرموں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی سفارش کی تھی۔ اسے نافذ کیا جائے۔ قانون ساز اداروں میں عورتوں کے لئے ۳۳ فیصد نشستیں محفوظ کرنے کا مشورہ بھی دیاجارہا ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت نے پہلے سے پنچایت اور بلدیاتی اداروں میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ان کو ۳۳ فیصد نمائندگی دے رکھی ہے مگر بحیثیت مجموعی خواتین کا حال وہی ہے جو پہلے تھا، اس کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے سماج میں عورت کے بارے میں جو سوچ ہے اس کو بدلا جائے گھر سے لیکر باہر تک اسے دوسرا درجہ دینے کے طریقہ پر روک لگائی جائے اور یہ کام صرف ریزرویشن سے نہیں ہوگا۔ بلکہ دھرم کے ٹھیکیداروں کو بھی جہیز وستی جیسی برائیوں کی حوصلہ شکنی کرنی پڑے گی۔
جواب دیں