کہیں اس کے سر سے آنچل کھینچ لیا جاتا ہے ۔ اور کہیں ننگے سرو و ننگے پاؤں بازاروں میں تماشہ بنادی جاتی ہیں۔کسی بھی سماج میں غربت بڑی مصائب کاسامان لیکر آتی ہے اوروہ سماج کبھی ترقی نہیں کرسکتا جس میں غربت کے باعث عوام خاص طورپر خواتین بے روزگار ہوکر بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں آج دنیا میں عورت کے تحفظ اوراس کی عصمت کی بقاء کیلئے ہرحکومتوں کی جانب سے بڑے بلند بانگ دعوی کئے جاتے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے بے روزگار اورستم زدہ غربت زدہ خواتین کی بازآباد کاری کیلئے مراکز قائم کرنے کادعوی کیا جاتا ہے اوران کو بیوہ اورغربت کے وظائف کی بھی سہولت دیجا تی ہے لیکن اس کے باوجود آج بیدر میں کئی سڑکوں پر غریب اوربے روزگار اورسماج کی ستم زدہ خواتین یا تو بھیک مانگنے پر مجبور ہوچکی ہیں ۔ جن میں ہر مذہب کی خواتین شامل ہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ خواتین اپنے روزگار کیلئے بھیک کواپنا پیشہ بنا چکی ہوں اورا ن کی بازآباد کاری کیلئے جو کام ہونا چاہے تھا‘ اب تک ضلع بید ر میں کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ بتایا جاتا ہے کہ ایسی خواتیں کی بازآباد کاری کیلئے شہر بیدر میں دوخانگی شعبہ کے سنٹرہیں ایک نوآباد میں اورایک منگل پیٹ میں قائم کیا گیا ہے لیکن کیا انکی کارکردگی سے ستم زدہ خواتین کو فائدہ ہورہا ہے معلوم ہواہے کہ ایسے ادارے صرف کاغذپر ہی ہوتے ہیں عمل کے بارے میں کوئی توجہ نہیں دیتاہے کیونکہ مرکزی اوریاستی حکومت کی جانب سے ایسی کئی اسکیمات ہیں جو اگرصیحح انداز میں اسکا استعمال کیا جائے تو ممکن ہے کہ کچھ مسائل کو حل نکل آئے‘ لیکن دیکھ کرافسوس ہوتا ہے کہ ہراسکیم کو چلانے والے اس کو اپنے روزگار کا ذریعہ بناکر خود اورحکومت دونوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ موجودہ ماحول کا یہ اثرہے۔ اب یہاں پرہم آپ کو ستم زدہ خواتیں کی بات بتاتے ہیں آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہرجمعہ کی نماز کے بعدمسجد کے باہر خیرات مانگنے والوں میں سب سے زیادہ مسلم خواتین ہیں اوراب تو کچھ دنوں سے دیکھا جارہا ہے کہ اپنے ہاتھوں پر مہندی لگاکر نوجواں لڑکیا ں بھی مسجد کے باہر نظرآنے لگی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ اپنی ماں یا اپنے گھر کے افراد خاندان کیلئے خیرات کا عمل اختیار کررہی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان کوخیرات مانگنے میں ہی کیوں فائدہ نظرآرہا ہے؟‘حکومت کی جانب سے محکمہ خواتین وبہبود کی جانب سے خواتین کیلئے وظائف اوردیگر سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہے لیکن اس کوحاصل کس طرح سے کیا جائے کیاان غریب خواتیں کو معلوم ہے؟‘ اس کا جواب صاف طورپر ہے کہ مسلمانوں اورانکی رفاعی تنظیموں نے حکومت کی جانب سے دی جانے والی سہولتوں سے ان غریب خواتین کو واقف ہی نہیں کروایا ۔ نہ جانے شہر بیدر میں ایسی کئی تنظیموں نے اپنا کام کرنا شروع کیا ہے‘ جو یہ دعوی کرتی ہیں کہ وہ غریب خواتین کووظائف دینے کے علاوہ ان کی مسائل کوحل کررہی ہیں۔ہونا تویہ چاہئے کہ مسجد کے باہر جن خواتین نے خیرات مانگنے کا عمل شروع کررکھا ہے ان کا نام اورپتہ لیکر ان کووظیفہ پیرانِ سالی دلوانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کون اس جانب توجہ دے گا۔ شہر کے سلم ایریا میں آج بھی ایسی بوڑھی خواتیں ہیں جن کاکوئی پرسانِ حال نہیں ہے ‘اوروہ اپنے آپ کو خداکے حال چھوڑچکی ہیں کیونکہ انکی اولاد نے ان کویوں ہی چھوڑرکھا ہے ۔ سماج میں ان دنوں یہ برائیاں اب عام ہوچکی ہےَ ۔ شہرمیں ذہنی طورپرمعذورخواتین اوران کے ساتھ بچے گھومتے پھررہے ہیں تاہم ان پر کسی کی نظر نہیں جاتی ۔ گزشتہ دوماہ قبل ایک ذہنی طورپر معذورلڑکی نے جنواڑہ روڈپراپنے بچہ کو جنم دیا جو سماج کے بگڑتے ہوئے ماحول کی نشانی تھی۔تاہم اس کا تذکرہ محکمہ خواتین وبہبود کے علم میں بھی نہیں آیا حالانکہ اسکی خبر اخبارات میں بھی چھپ چکی تھی۔اگرشہر میں سرکاری طورپر ستم زدہ اورغریب خواتین جو اپنے اولاد اورسماج کے ستم کا شکار ہوچکی ہیں ان کیلئے بازآباد کاری کاسنٹرقائم ہوتا توممکن ہے کہ ایسی خواتین کیلئے ایک بہتر بات ہوتی ۔ ضلع پنچایت کے تحت 22سرکاری محکمہ جات آتے ہے اور ترقیاتی جائزہ اجلاس ؛میں ایسے مسائل کو پیش کرنے کانہ کسی رکن اسمبلی یا رکن پنچایت میں صلاحیت تک نہیں ہے ۔ہمارے وہ نمائندے چاہے مونسپل کونسلر ہو یا کوئی رکن اسمبلی الیکشن کے دوران ان بے سہاراورغریب عورتوں کانام ووٹر لسٹ میں ہو توان کاووٹ برابر استعمال کرکے اپنی غرض کو مٹاتے ہیں لیکن وہی عورت جب سماج کی ستائی ہوئی ہوتی ہے‘ اس جانب توجہ نہیں دیتے حالانکہ ایسی خواتین دن رات ان کی نظر میں ہوتی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مساجد کے باہرجومسلم خواتیں خیرات مانگنے کیلئے کھڑی رہتی ہیں ان کابائیوڈاٹاحاصل کرکے وظیفہ پیرانِ سا لی اوردیگرسہولیات سے ان کواستفادہ حاصل کرنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے جومذہبی اورسماجی نقطہ نظر سے ایک بہت بڑاکام ہوسکتاہے‘ چونکہ یہ کام صبرآزمابھی ہوتاہے اس کیلئے سچے دل سے کوشش کرنی کی ضرورت ہے۔موجودہ سماج میں اس قدربگاڑآچکا ہے کہ بوڑھے ماں باپ اب اولاد کیلئے بوجھ بن چکے ہیں‘ تبھی توغریب اورستم زدہ مسلم خواتین کی کثیر تعداد مساجد ا ورمندروں کے باہر خیرات مانگتی ہوئی نظرآرہی ہیں‘ حالانکہ ضلع بیدر کی رابط وزیر اوماشری سماجی بہبود خواتیں کاقلمدان رکھتی ہیں ان کے علم میں ان ستم زدہ سڑکوں پر پھرنے والی خواتین کے بارے میں کسی نے واقف تک نہیں کروایا‘ اورنہ خود ان کے محکمہ کو اتنی فرصت ہے کہ وہ اس جانب توجہ دے۔قانون کے مطابق ایسی خواتیں کیلئے سنٹر میں ڈاکٹراوروکلاء اورنرسیس کے علاوہ قانونی سیل کی سہولت حاصل رہتی ہے۔ستم زدہ خواتین ان مراکز سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔اور ایسے سنٹر دکھی اورمجبور تشدد کا شکارخواتین کیلئے24گھنٹے خدمات انجام دینے کیلئے کھلے رہتے ہیں۔علاج معالجہ اورقانونی امدادکیلئے کونسلنگ بھی کی جاتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کانگریس کی حکومت کے دورمیں شہربیدر کی رابطہ وزیر اوما شری کیا ان مسائل پر غور کرسکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ پارٹی کے ارکان اس بات کوان کے علم میں لاکر یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے
جواب دیں